تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     23-05-2022

فیصلے جو ہوئے‘مگر جو نہ ہوسکے… (2)

پچھلے 7‘8ہفتوں سے دنیا کی پانچویں ایٹمی ریاست جتنی بے یقینی کا شکار ہے اتنی توشاید کوئی بنانا ریپبلک بھی نہ ہو۔ملکی مسائل کا حل رہی دور کی بات‘''امپورٹڈ‘‘ ٹیم بے سمت اور پالیسی کی دنیا میں بے راہ روی سے بھی میلوں آگے بڑھ گئی۔ روز مرہ کی روٹین ایسے چلا رہے ہیں جیسے K.2 کی پہاڑی ننگے پائوںچڑھ رہے ہوں۔ ''امپورٹڈ‘‘ کابینہ کی 3 عدد بانگیں دیکھتی آنکھیں‘ سنتے کان اور چلتے دماغ رکھنے والوں کو باآوازِ بلند سنائی دے رہی ہیں۔ مین سٹریم میڈیا سے آلٹرنیٹ میڈیا تک ‘ہر جگہ۔
پہلی آواز:ہمیں چلانا نہیں تھا‘تو ہمیں اقتدار میں لائے کیوں؟
دوسری آواز: اگر ہماری حکومت ناکام ہوئی تو اس ناکامی کے ذمہ دار ''وہ‘‘ ہوں گے جو ہمیں لائے تھے۔
تیسری آواز: آئی ایم ایف اور''وہ‘‘ نیوٹرل ہوگئے‘ ہمیں سپورٹ نہ کیا ‘تو یہ ملک نہیں چل سکے گا۔
ہاں یاد آیا ‘ان دنوں مریم نواز گروپ کے تاحیات نون لیگی ترجمان‘ ڈان لیکس پر نکالے جانے والے نواز شریف کے وزیر ِاطلاعات‘ پنجاب میں مریم نواز کے میڈیا ئی وکیل‘ آج کل تینوں کہاں ہوتے ہیں؟ یہ تکون شوبازی کو نہ سپورٹ کر رہی ہے نہ کسی فرنٹ لائن پہ دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن وقت کی رفتار اورPublic Opinion کی یکطرفہ یلغار ‘ہر روز snow بال کی طرح گھاس پھونس‘جھاڑ جھنکار کو اپنی لپیٹے میں لے کر آگے سے بھی آگے بڑھتی جا رہی ہے۔
بھکاری لیڈرشپ کے سیاسی کشکول میں کوئی زنبیل نظر نہیں آتی‘ بلکہ صرف 3دانے بچے ہیں۔پہلا‘ دانہ رنگ بازی ہے جس کا کُل حاصل حصول 700گرفتاریوں کی لسٹ کے سوا اور کچھ نہیں۔دوسرے نمبر پر بڑھک بازی کی مونگ پھلی ہے جس کے شہ باز آج کل صرف ٹی وی کے ڈبوں میں بند ہوکر رہ گئے ہیں۔ 6ہفتوں کے حکومتی سفر نے اُن کو تھکایا نہیں ‘نہ دھمکایا ہے بلکہ اس قدر ڈرایا ہے کہ وہ پبلک میں جانے سے انکاری ہیں؛ اب تازہ شاہکار یہ ہے کہ میں چاہوں تو عمران خان کے ساتھ 20بندے بھی باہر نہیں نکلیں گے۔اگلا دانے پہ دانا یہ ہے کہ اب بھی ''لاڈلا‘‘ عمران خان ہی ہے۔
''امپورٹڈ‘‘ سرکار کے فیصلے جو اَب تک ہوئے‘ وہ پنجاب میں ''پُلس‘‘ مقابلے کے ماہرین اور حکمرانوں کی ذاتی ڈالیاں اُٹھانے والے ''ہاتُو‘‘ ہیں۔ جنہیں ''امپورٹڈ‘‘ کی کرسی کے ارد گرد محاصرے کے لیے ٹرانسفر کیا گیا ہے۔ سرکار کی اس شان دار اہلکار ٹیم نے پہلا فیصلہ شیریں مزاری کی گرفتاری کا کیا۔ گرفتاری کے لیے قبضہ مافیا کا الزام ڈھونڈا گیا۔اُس دور کا مقدمہ بنا جب شیریں مزاری کی عمر صرف5سال اور4ماہ تھی۔یادش بخیر ‘اسی صفحے پر چھپنے والا وکالت نامہ یاد آگیا ہے(ملتان کا مُجی‘جو5 مارچ 2018ء کو روزنامہ دنیا میں شائع ہوا)۔ اس مقدمے میں شیریں مزاری کی بہن زینب مزاری نے ہماری لاء فرم کو وکیل کیا‘ جس کے حتمی دلائل میں نے ملتان جا کر خود دیے۔اس لیے مزاری خاندان کی اپنی آبائی جائیدادوں کے بارے میں مجھے خاصی معلومات ہیں‘لہٰذا مقدمہ بنانے والوں کی عقل کے لیے مشورہ یہ ہے کہ وہ از خودہی اپنی عقل پہ ماتم کرلیں۔
قند ِمکّرر کے طور پر پاکستان کے نظامِ قانون اور انصاف پر ملتان کے مجّی سے ایک جملہ پیشِ خدمت ہے: ''چلئے نظام عدل کے حوالے سے ایک مذاق نما حقیقت سن لیںیا حقیقت نما لطیفہ۔ جسٹس شاہد وحید صاحب کی عدالت میں جس مقدمے کا حتمی فیصلہ یکم اپریل 2018ء کے دن ہوا‘وہ کیس 20ستمبر 1958ء کے روز کھلا تھا...ان 60سالوں پر تبصرہ آپ خود کریں‘یا حوصلہ ہے تو ملتان کے مجی سے کروالیں‘‘۔
ڈاکٹر مزاری کی گرفتاری کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے آئین پامال کرنے کو ضروری سمجھا گیا۔جس طرح آئے روز ملک کے سب سے بڑے صوبے کی پنجاب اسمبلی چلانے کی بھاری ذمہ داری سپیکر کے بجائے پولیس نے اپنے شریفانہ کندھوں پر اُٹھالی ہے عین اُسی طرح آئی سی ٹی کے کیپٹل آف نیشن کو پنجاب حکومت کی اینکسی سمجھ لیا گیا۔سرکار کے کسی درباری نے اتنا دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کی کہ آئین کے آرٹیکل نمبر1میں Territories of Pakistanکو علیحدہ علیحدہ رکھا گیا ہے۔ ثبوت کے طور پر پہلے دیکھیں ‘آرٹیکل1(2)(a):
Article 1: The Republic and its territories
(2) The territories of Pakistan shall comprise:(a) the Provinces of [Balochistan], the [Khyber Pakhtunkhwa, the Punjab and [Sindh];
آئین پاکستان مجریہ1973ء کے اس واضح نظام میں ملک کے چاروں صوبے تو شامل کیے گئے لیکن اسلام آباد کو کسی صوبے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی آئینی حیثیت علیحدہ وفاقی یونٹ کی ہے جسے اصولاً ایک صوبہ بنانے کے لیے میں نے سال 2010ء سے ابتدا کی۔اسلام آباد کو پہلے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ایسٹ اور ویسٹ‘ دو ضلعوں میں تقسیم کیا۔پھر ایک آئینی ترمیم کے ذریعے سے کیپٹل آف نیشن کا اپنا ہائی کورٹ بنا دیا۔ یہ پاکستان کی پانچویں ہائی کورٹ اور اختیار سماعت (jurisdiction) کے اعتبار سے اس کا دائرہ کار وسیع ترین ہے۔اسے سمجھنے کے لیے آئیے ملاحظہ کریں آئین کے آرٹیکل نمبر 1کے سَب آرٹیکل نمبر(2)کا ذیلی آرٹیکل(b)۔
(b) the Islamabad Capital Territory, hereinafter referred to as the Federal Capital;
وکالت نامہ یہاں تک پہنچا تو میں پشاور پہنچ چکا تھاجہاں پی ٹی آئی کور کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔ عمران خان سے علیحدہ ملاقات کی اور واپس گاڑی میں پہنچا تو شام ساڑھے5بج چکے تھے۔ پشاوری کافی جیسی کڑک چائے اور بنانا ٹی کیک ساتھ رکھا اور آزادی مارچ کے لیے 25 مئی کی تاریخ لے کر اسلام آباد واپسی کا سفر شروع کیا۔ عمران خان کے پی سے نوجوانوں کے جنون کی قیادت کرتے ہوئے شاہراۂ سری نگر پر پہنچیں گے۔اُن کی آمد کا وقت 3بجے دن ہے۔
اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے شیریں مزاری کو رہا کیا تھا ‘ کور کمیٹی کی میٹنگ میں وہ میرے ساتھ تھیں۔دوحہ ‘قطر میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے بنیے اور'' امپورٹڈ‘‘ حکومت کے بھکاریوں کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں۔ان مذاکرات کا نتیجہ امریکہ کی سازشی مداخلت اور دھمکی پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی نکل آیا تھا۔اُس وقت جب'' امپورٹڈ‘‘ وزیر اعظم نے کہا ''Beggars are not the choosers‘‘۔
وہ فیصلے جو نہ ہو سکے‘ 25 مئی کے حقیقی آزادی مارچ کے بعد کون کرے گا؟یہ ہے ملین ڈالر سوال۔البتہ ایشیائی ریجن کے دو ملکوں میں ایک فیصلہ ہوچکا ہے۔کمیونسٹ پارٹی کے ملک عوامی جمہوریہ چین میں جو کرپشن کرے اُسے موت کی سزا ملتی ہے۔ جبکہ پی ڈی ایم والے اسلامی جمہوریہ میں جو کرپشن کرے اُسے کابینہ کی کرسی ملتی ہے۔ 25 مئی کا آزادی مارچ اسی دو راہے سے شروع ہوتا ہے۔(ختم )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved