اٹھارہ مئی کی صبح کس قدر ہلاکت خیز خبر لے کر آئی۔ فرخ نے مطلع کیا۔ مظفر سے بات ہوئی۔ یاور چلا گیا‘ ہمیشہ کے لیے عدم آباد ہو گیا۔ یادوں کا ایک سلسلہ تھا جو رکنے کو ہی نہیں آ رہا تھا۔ بیالیس سالوں پر محیط محبت بھرا تعلق ایک انجام کو پہنچا۔ الہ آباد اس کے والدین کی جنم بھومی تھی۔ الہ آباد‘ ایک ثقافت، ایک تاریخ، ایک ادبی شناخت! الہ آباد‘ جو یوگی آدیتا ناتھ اور نریندر مودی کے عہد میں پریاگ راج ہو گیا۔ نام تبدیل کرنے سے کبھی شہر اور شہر کی تاریخ تبدیل ہوتی ہے؟ نام تو ایک اوپر والی پرت ہوتا ہے‘ اندر سے وہی الہ آباد‘ وہی فراق گورکھ پوری‘ وہی علی عباس زیدی اور وہی یاور نکلتا ہے۔ یاور عباس زیدی! ایک آرٹسٹ‘ ایک مصور‘ ایک شاعر‘ ایک استاد‘ ایک اعلیٰ درجے کا فنکار و دستکار اور ادبی خاندانی نجابت کا نمائندہ۔ اصل الہ آباد‘ نہرو کا الہ آباد‘ جس شہر نے بھارت کے وزرائے اعظم کی لائن لگا دی۔ جواہر لال نہرو سے چندر شیکھر تک سات وزرائے اعظم کی لڑی۔ علی عباس زیدی کی لڑی؛ مظفر عباس، جون عباس، یاور عباس۔ کِھلتا ابھرتا بڑھتا یاور۔ بچوں کے تقریری مقابلوں سے اپنا نام بناتا ایک اعلیٰ درجے کے مصور اور کراچی سکول آف آرٹس اور ایک درجن یونیورسٹیوں کے خلاق پروفیسر تک‘ ایک کامیابی کی داستان‘ ایک ہمت کا استعارہ۔ رسالپور میں پائلٹ کی ٹریننگ سے لے کر اپنی اصل تخلیق سے جڑا ہوا ایک کامیاب باپ‘ ایک خوبصوت بھائی اور ہمارے لیے ایک چھوٹا سا ننھا منا یاور۔ لندن سکول آف آرٹس سے گرافکس میں بی ایس آنرز، ایم فل ایک امتیاز سے کرنے والا یاور۔ ایک شاعر اور وہ بھی جدید نظم کا شاعر۔
اس کے والدین کیا تھے‘ گنگا جمنی تہذیب کے چلتے پھرتے کردار تھے۔ علی عباس زیدی سے ادب پر بات ہوتی تو کہتے: ہم نے فراق کی جوتیاں سیدھی کی ہیں۔ فراق کی تربیت اور ذوق کیا تھا‘ ہمہ وقت ایک محفلِ یاراں کا اہتمام۔ میرپور‘ آزاد کشمیر میں ہماری تعیناتی کے بعد وہ ہمارے آڈٹ کے محکمے کے انچارج کے طور تشریف لائے۔ ان کا آنا تھا کہ میرپور ایک ادبی مرکز میں ڈھل گیا۔ ان کی بیگم محترمہ (جنہیں ہم ہمیشہ صدر صاحب کہتے ) نے ایک تنظیم قائم کی۔ راولپنڈی؍ اسلام آباد، میرپور، مظفر آباد، کوٹلی، جہلم اور لالہ موسیٰ کے تخلیق کاروں نے وہاں کا رخ کر لیا۔ ان شہروں سے آنے والے تمام ادبا کے قیام اور طعام کا انتظام یاور اور اس کے دو بڑے بھائیوں کے ہی ذمے ہوتا تھا۔ میرپور کی یونیورسٹی (تب کالج) کے اساتذہ اور آس پاس کے کالجز کے پرنسپل صاحبان‘ سبھی اس ادبی تنظیم کی تقریبات میں شریک ہوتے۔ میرپورکے جنت نشان گھر میں وہ اپنی بیگم اور اپنے تین بیٹوں کے ساتھ رہتے تھے۔ بچوں کی تعلیم کاسلسلہ شروع ہوا‘ کوئی بیٹا آزاد سوویت ریاستوں اور کوئی لندن سکول آف آرٹس تک گیا۔ یاور نے اپنی تعلیم لندن ہی میں مکمل کی۔ مظفر اسلام آباد سیٹل ہو گئے‘ جون آکلینڈ‘ نیوزی لینڈ اور یاور کراچی کی ایک یونیورسٹی سے وابستہ ہو گئے۔
مظفر نے بڑے بھائی ہونے کا حق ادا کر دیا۔ علی عباس زیدی کی رحلت کے بعد چھوٹے بھائیوں کو باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ یاور سب سے چھوٹا تھا اور سب سے ٹیلنٹڈ۔ وہ ایک پروگریسو شخص تھا اور اپنے والدین کی طرح پاکستان کو ایک روشن جمہوری فلاحی ریاست بنانے کا خواب دیکھتا تھا۔ اس نے اپنے طلبہ کو بھی انسان دوستی کا سبق دیا۔ وہ اس روایت کا امین تھا جو اس کے والدین اپنی آنکھوں میں سجائے‘ دو بار ہجرت کے دکھ سے دوچار ہو چکے تھے۔ ایک ہنستا بستا پھولتا پھلتا پاکستان اس کا خواب تھا۔ وہ ایک مصور‘ ایک شاعر اور ایک استاد تھا۔ اس نے ہر ذمہ داری کو احسن انداز سے نبھایا۔ وہ بہت کم وقت لے کر آیا تھا مگر وہ چاہتا تھا کہ اس کے باپ اور اس کا خواب ایک حقیقت بنے۔ اس دکھ اور خواہش کا اظہار اس کی اس نظم کی ایک ایک لائن سے جھلک رہا ہے۔
کبھی تو روشنی ہو گی
کسی بھی صبح سے پہلے کڑی تاریکیوں کے دکھ اٹھانے ہیں
خوشی کے گیت لکھنے سے بہت پہلے
کئی نوحے سنانے ہیں
زمیں کی آخری حد پر
کسی دو نیم ہوتے حوصلے کے روبرو
اک خواب کی تعبیر پانا ہے
وہی تعبیر جس کی اوٹ میں
صدیاں تحیر کی علامت ہیں
ہمیں اس عمر کی ساعت شماری میں
طلب اور سیرگی کے درمیاں حائل حدوں کو پاٹنا ہو گا
نئے حکمِ سفر سے پیشتر زادِ سفر کو جانچنا ہو گا
انہی بنتے سنورتے رابطوں کے درمیانی عہد سے آگے
تری کثرت میں میری وحدتیں ہوں گی
مرے اثبات میں تیری نفی ہو گی
کہیں تو روشنی ہو گی‘ کہیں تو روشنی ہو گی
ہماری شاعری کے پہلے مجموعے سے لے کر اب تک‘ سرِورق اسی کے موئے قلم کا نتیجہ ہیں۔ ''ناموجود‘‘ کے سرورق پر بات کرتے ہوئے اس نے کہا: جو قدرت کے مظاہر ہیں ان کی تصویر کشی زیادہ آسان ہوتی ہے۔ پوچھا کہ ہوا کو ایک پینٹنگ میں دکھانا مقصود ہو تو کیسے اس کا اظہار کیا جاتا ہے؟ ہوا اور ہوا کی سرسراہٹ کو دکھانا اور آسان ہے‘ ہم درختوں کے جھنڈ کو ایک جانب جھکا دکھا دیں گے۔ اس میں ہوا اور ہوا کی تمام خصوصیات نظر آئیں گی۔ ناموجود کا سرورق لے کر خود ہمارے ہاں تشریف لائے۔ اس کے بعد تو اس میدان کے استاد ہو گئے۔ ہزارہا تصویریں بنائیں ان کی نمائشیں ہوئیں اور دادِ تحسین حاصل کی۔ ہمارا اس عظیم ادبی خانوادے سے بیالس سالہ پرانا تعلق ہے۔ اس دوران یاور سے مسلسل رابطہ رہا۔ نہ اس کی محبت میں کمی آئی نہ ہماری طرف سے تعلق داری میں۔ علی عباس زیدی مشرقی پاکستان میں بھی رہے۔ اس خاندان کو دو دفعہ وطن مالوف سے ہجرت کرنا پڑی۔ ایک دفعہ پاکستان کی تخلیق پر اور دوسری بار مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر۔ تب وہ کراچی آ کر سیٹل ہو گئے۔ وہ جہاں گئے لوگوں کی نگاہوں کا مرکز و محور بن گئے۔ ایک دفعہ ایک اعلیٰ میٹنگ میں مصروف تھے کہ میں ان کے دفتر داخل ہوا۔ شیشے کے کیبن ہی سے ہاتھ ہلانے لگے۔ ان کے چہرے سے ان کی خوشی دیدنی تھی۔ کہاں ایک جونیئر ترین افسر اور کہاں پورے آزاد کشمیر کے سب سے بڑے افسر۔ یاور کی سلیکشن تو پاک فضائیہ میں بطور پائلٹ ہوئی تھی اور اس کی ٹریننگ بھی شروع ہو گئی مگر اس کا اصل میدان آرٹ تھا۔ رسالپور اکیڈیمی کو خدا حافظ کہا‘ پھر مصوری کی تعلیم تھی۔ کراچی سکول آف آرٹس اس کی مادرِ علمی تھی، کنگسٹن یونیورسٹی، لندن کالج آف کمیونیکیشن، یونیورسٹی آف بولٹن سے بھی تعلیم حاصل کی۔ یہی اس کا اصل میدان تھا یہیں اس کے سارے جوہر کھلے۔ جو تربیتی پروازیں رسالپور میں مکمل نہ ہو سکیں‘ اس نے مصوری کے میدان میں کیں۔ اس کی اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ کم و بیش پندرہ سالوں پر محیط ہے اور تدریس کا عرصہ دو عشروں پر۔ اس کا رنگوں کا انتخاب جدا اور سٹروک اعلیٰ تھا۔ اس کے نزدیک کامیابی کا راز محبت، اعتماد، تناسب اور برداشت میں تھا۔ بطور استاد اپنے طالب علموں سے ایسا مشفقانہ سلوک‘ جس کی کم ہی مثال ملتی ہے۔ اپنی زندگی کی ہم سفر اور بیٹے کبیر عباس زیدی کو آدھ سفر میں چھوڑ کر وہ نئی منزلوں کی جانب روانہ ہو گیا۔ وہ منزلیں جہاں سے کسی کی کوئی خبر نہیں آتی۔ میں کیسا بدنصیب ہوں کہ یاور کے باپ کا بھی نوحہ لکھا اور آج یاور کی المناک موت پر ماتم کناں ہوں۔ یاور نے کہا تھا:
دو جگہ رہتے ہیں ہم، ایک تو یہ شہرِ ملال
ایک وہ شہر جو خوابوں میں بسایا ہوا ہے
وہ خوابوں کا شہر کہاں ہے
کچھ تو کہو‘ کچھ تو بولو!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved