تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     23-05-2022

سیاسی بحران سے معاشی بحران تک

مشہور کہاوت ہے کہ ہاتھوں سے باندھی گئیں گرہیں کبھی کبھی دانتوں سے کھولنا پڑ جاتی ہیں۔ ان دنوں ہمیں بھی ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ کل تک جو سیم پیج کی گردان کرتے نہیں تھکتے تھے‘ آج ان کی گنگا الٹی بہنے لگی ہے۔ ہر طرف الزامات کی بھرمار ہے اور شکووں‘ شکایتوں کا آتشدان آگ اُگل رہا ہے۔ کہیں سچ جھوٹ کی فراوانی ہے اور کہیں پروپیگنڈا کا سورج سوا نیزے پر ہے۔ کوئی دھمکی دے رہا ہے تو کوئی بے وفائی کے طعنے۔ کوئی معیشت کی بدحالی پر پریشان ہے اور کوئی موجودہ بندوبست کے اس میں پھنس جانے پر خوش۔ کسی کو امپورٹڈ کہا جا رہا ہے تو کسی پر غداری کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ عوام کی کسی کو بھی فکر نہیں۔ چہار سو بدحالی ہی بدحالی ہے اور اضطراب ہی اضطراب۔ عمران خان کا بیانیہ سن کر مجھے منیر نیازی کا ایک شعر یاد آتا ہے۔
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نامعتبر اس نے کیا
راولپنڈی کے معروف شاعر افضل منہاس کا بھی ایک شعر ملاحظہ کریں:
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
ان کو زباں ملی تو ہمیں پر برس پڑے
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیا کامیاب ہوئی‘ پورا ملک ہی بحران کا شکار ہو گیا۔ یہ بحران صرف سیاسی نہیں بلکہ آئینی، انتظامی اور معاشی بھی ہے۔ وفاقی حکومت پرکچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر سکتہ طاری ہے اور وہ بڑے فیصلے کرنے سے اجتناب کر رہی ہے جبکہ پنجاب میں گزشتہ دو ماہ سے حکومت نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی حالات روز بروز دگرگوں ہو رہے ہیں۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے، سٹاک مارکیٹ میں گراوٹ ہے، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں اور ڈالر کو قیمت کو تو جیسے پَر لگ گئے ہوں۔ اس صورتحال پر ہر کوئی واویلا کر رہا ہے مگر یہ سوچنے سے قاصر ہے کہ حالات خراب کیوں ہو رہے ہیں۔ آخر وہ کون سی وجوہات جن کی بنا پر معاشی اشاریے بہتر ہونے کے بجائے بگڑتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ میرے نزدیک معاشی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ سیاسی ماحول ہے۔ وفاقی حکومت بدلے ڈیڑھ ماہ ہو چلا ہے مگر وہ اپنا فعال کردار ادا کرنے سے گریزاں ہے۔ شہر شہر جلسے اور جلوس ہو رہے ہیں۔ کہیں عمران خان کا جلسہ ہوتا ہے تو کہیں مریم نواز کا، کہیں مولانا فضل الرحمن میلہ سجاتے ہیں اور کہیں پیپلز پارٹی۔ عمران خان نئے الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اب 25 مئی کو لانگ مارچ کا اعلان بھی کردیا ہے۔ وہ اپنے جلسوں میں کبھی امپورٹڈ حکومت کا بیانیہ بناتے ہیں اورکبھی غیر ملکی سازش کا الزام لگاتے ہیں۔ کبھی نیوٹرل ہونے کا طعنہ دیتے ہیں اور کبھی فیصلوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ کبھی الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر الزامات لگاتے ہیں اور کبھی میر جعفر اور میر صاد ق کی بھپتی کستے ہیں۔ کبھی خانہ جنگی کی بات کی جاتی ہے اور کبھی خونیں لانگ مارچ کی۔ کوئی 31 مئی سے پہلے نگران حکومت بننے کا دعویٰ کرتا ہے تو کوئی وفاقی حکومت پر مشکل معاشی فیصلے کرنے پر زور لگاتا نظر آتا ہے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف کو ذمہ دار حلقوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ آپ دو سے تین ہفتوں میں مشکل معاشی فیصلے کریں اور نئے الیکشن کا اعلان کر دیں کیونکہ ملک کسی بھی بدامنی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ پیغام ملتے ہی وزیراعظم صاحب کابینہ سمیت لندن چلے گئے اور میاں نواز شریف کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ جہاں فیصلہ کیا گیا کہ دونوں میں سے ایک کام ہو سکتا ہے، یا الیکشن کی جانب بڑھا جائے یا مشکل معاشی فیصلے کیے جائیں۔ اگر حکومت نے معاشی فیصلے کرنے ہیں تو پھر اسمبلیوں کی مدت پوری ہونی چاہیے تاکہ حکومت کو سیاسی نقصان نہ ہو۔ یاد رہے سرِدست حکومت کو دو بڑے معاشی فیصلے کرنے ہیں۔ اول: پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھانی ہیں کیونکہ عمران خان نے فروری کے آخر پر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں یکم جون تک کے لیے فکس کر دی تھیں۔ اگر اب حکومت تین سو ارب روپے سے زائد کی یہ سبسڈی ختم کرتی ہے اور پھر الیکشن میں جاتی ہے تو یہ اس کی سیاسی موت کے مترادف ہو گا۔ دوسری طرف اگر حکومت یہ سبسڈی ختم نہیں کرتی تو معیشت کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ میرا احساس ہے کہ کوئی بھی حکومت سیاسی استحکام کے بغیر معیشت کو ٹھیک نہیں کر سکتی۔ ملک میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے اور کاروباری طبقہ بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں‘ جب سیاسی حالات ہچکولے لے رہے ہوں تو معاشی حالات کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں؟ کون سرمایہ کاری کرے گا اور کون مہنگائی کا راستہ روکے گا؟
معیشت کی زبوں حالی کی دوسری بڑی وجہ ملک میں آئینی بحران ہے۔ کبھی صدرِ مملکت اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے انکار کر دیتے ہیں‘ کبھی گورنر پنجاب اور کبھی کوئی سرکاری آفسر حکم ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔ کبھی کوئی کسی فیصلے کو چیلنج کر دیتا ہے اور کبھی کوئی پٹیشن دائر کر دیتا ہے۔ وزیراعظم صاحب اور ان کی کابینہ کا حلف جیسے لیا گیا تھا‘ وہ معاملہ سب کے سامنے ہے مگر اصل آئینی بحران تو پنجاب میں ہے۔ تیرہ کروڑ آبادی والا صوبہ مکمل طور پر لاوارث ہے۔ ہر روز آئین و قانون کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عثمان بزدار نے خود استعفیٰ دیا تھا جو تحریک انصاف کے اس وقت کے گورنر نے قبول بھی کیا۔ بعد ازاں پی ٹی آئی کے اتحادی سپیکر پنجاب اسمبلی نے وزیراعلیٰ کے انتخابی شیڈول کا اعلان کیا مگر الیکشن والے دن مکر گئے۔ پھر عدالت نے الیکشن کا حکم دیا تو پی ٹی آئی نے بائیکاٹ کر دیا۔ حمزہ شہباز وزیراعلیٰ تو بن گئے مگر گورنر نے حلف لینے سے انکار کر دیا۔ عدالت کے حکم پر سپیکر قومی اسمبلی نے ان سے حلف لیا مگر اب کابینہ کے حلف کے کوئی گورنر موجود نہیں۔ حکومت نے گورنر کی برطرف کیا تو صدرِ مملکت نے نئے گورنر کی تعیناتی کی سمری کو منظور کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ عمر سرفراز چیمہ اب بھی گورنر پنجاب ہیں۔ صرف یہی نہیں‘ اب پوری پی ٹی آئی یہ کہہ رہی ہے کہ عثمان بزدار کا استعفیٰ غیر آئینی تھا۔ یہ کیس عدالت میں ہے‘ دیکھیے کیا فیصلہ آتا ہے۔
ہر طرف آئینی بحران ہے اور کوئی بھی آئین پر عمل نہیں کر رہا۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق: حکومت کابینہ کو کہا جاتا ہے‘ محض وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کو نہیں۔ دو ماہ ہونے کو ہیں اور پورا پنجاب حکومت کے بغیر رینگ رہا ہے۔ اس آئینی بحران کی کوکھ سے ایک اور بحران نے بھی جنم لیا ہے اور وہ ہے انتظامی بحران۔ جب صوبے میں حکومت ہی نہ ہو تو کوئی سرکاری افسر کیسے کام کرے گا؟ وزارت وزیرکے بغیر ہو تو سیکرٹری اور دیگر افسران کیسے متحرک ہوں گے؟ آئی جی‘ آر پی اوز، ڈی پی اوز اور ایس ایچ اوز اگر خلا میں معلق ہوں تو وہ سخت فیصلے کیسے کریں گے؟ جرائم کا قلع قمع کیسے ہو گا؟ اس انتظامی بحران کے وجہ سے ذخیرہ اندوزی میں اضافہ ہو رہاہے اور انتظامیہ کا مارکیٹ سے کنٹرول ختم ہو چکا ہے جس کے باعث کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ آج ایک ریٹ ہوتا ہے اور کل دوسرا۔ کوئی پوچھنے والا ہے نہ سزا دینے والا۔
کیا کوئی ہے جو اس ساری صورتحال کی ذمہ داری لے؟ کیا کوئی ہے جو آگے بڑھ کر حالات کی تلخی کو کم کر سکے تاکہ عوام کی زندگیوں میں سکون آئے؟ خدارا! حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں وقت کی نزاکت کو سمجھیں۔ معاشی حالات سیاسی استحکام کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اگر سیاسی استحکام نہ آیا تو معاشی صورتحال خدا نخواستہ سری لنکا جیسی ہو سکتی ہے۔ کوئی تو ہو جو حکومت اور اپوزیشن کو ڈائیلاگ پر مجبور کرے تاکہ نئے الیکشن پر بات چیت آگے بڑھ سکے‘ ورنہ حکومت کو چاہیے کہ گومگو اور بے چینی کی کیفت کو ختم کرے اور فیصلہ کرے الیکشن میں جانا ہے یا ٹرم پوری کرنی ہے۔ یہ وقت آر یا پار کا ہے‘ انتظار کا نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved