وطن عزیز پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیاتھا۔ وگرنہ ہندوستان کا باسی بھی دھوتی پہنتا تھا‘ ساگ کھاتا تھا‘ دیہاتوں میں شام کے وقت چہل قدمی کرتا تھا لیکن مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب میں فرق یہ تھا کہ وہاں کا رہنے والا ذیل سنگھ تھا اور یہاں کا رہنے والا عبدالستار تھا۔ ہم نے مذہب کی وجہ سے شہروں اور علاقوں کو چھوڑا‘ نسلوں اور رنگوں کو خیرباد کہا لیکن یہ مقامِ تاسف ہے کہ کم ازکم تین سماجی برائیاں ایسی ہیں‘ جو اسلام کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہیں اور وہ پاکستان میںتاحال جاری وساری ہیں۔ پہلی برائی بدکاری کے اڈوں کا برقرار رہنا ہے جو کسی بھی طور پر پاکستان کے نظریاتی تشخص سے ہم آہنگ نہیں۔ بے شمار شہروں میں جسم فروشی کا کاروبار ہو رہا ہے اور کوئی اس کو روکنے اور ٹوکنے والا نہیں۔ دوسری بڑی سماجی برائی یہ ہے کہ مملکتِ خداداد میں کئی مقامات پر منشیات کی خریدوفروخت ہوتی ہے جبکہ تیسری بڑی سماجی برائی یہ ہے کہ خیبر سے لے کر کراچی تک‘ سود کا لین دین اپنے پورے عروج پر ہے۔
دنیا میں اقتصادیات کے تین نظام ہیں؛ ایک سرمایہ دارانہ نظام، دوسرا اشتراکیت اور تیسرا اسلامی نظام۔ اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام میں جتنی بھی خوبیاں ہیں‘ وہ سب کی سب اسلام کے دامن میں موجود ہیں اور جتنی بھی قباحتیں ان دونوں نظاموں میں ہیں ‘اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اسلام کا دامن ان سے پاک ہے۔ اشتراکیت میں نجی ملکیت کا تصور موجود نہیں‘ گویا محنت کرنے کے باوجود انسان کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے جبکہ اسلام میں نجی ملکیت کا تصور موجود ہے۔ جو شخص محنت کرتا ہے‘ اپنے کاروبار کو بڑھا سکتا ہے، زمینیں خرید سکتا ہے، گاڑیاں رکھ سکتا ہے۔اس کے مدمقابل سرمایہ دارانہ نظام میں حلال وحرام کا امتیاز کیے بغیر تجارت کی جاتی ہے۔ شراب اور خنزیر کے گوشت کو بیچا جا سکتا ہے‘ یہاں تک کہ ضرر رساں ادویات اور فحاشی کی نشرواشاعت پر بھی کوئی قد غن نہیں۔اس کے بالمقابل اسلا م میں اگر سرمایہ کاری ہو گی تو حلال اور طیب رز ق پر ہو گی۔ اسی طرح اسلام کسی بھی قیمت یاصورت میں سود کی آمیزش کو قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طور پر فرما دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 275 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں وہ نہیں اٹھیں گے مگر جیسے اٹھتا ہے وہ جو دیوانہ کر دیا ہو اسے شیطان نے چھو کر‘ یہ (حالت) اس وجہ سے ہو گی کہ بے شک انہوں نے کہا: بے شک تجارت سود ہی کی مانند ہے حالانکہ اللہ نے حلال قرار دیا ہے تجارت کو اور حرام کر دیا ہے سود کو۔ پس جو (شخص کہ) آئی اس کے پاس نصیحت اس کے رب کی طرف سے‘ پھر وہ باز نہ آگیا (سود سے) تو وہ اسی کا ہے جو پہلے وہ لے چکا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے (وہ معاف کرے یا سزا دے) اور جو کوئی پھر کرے (سودی کاروبار) تو وہی لوگ اہلِ دوزخ ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں‘‘۔
مملکت خداداد پاکستان میںسود کا لین دین ایک عرصے سے جاری وساری ہے۔ بدنصیبی سے صرف پاکستان میں سود کا کاروبار جاری وساری نہیں بلکہ جملہ مسلم ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں۔ حالانکہ اس کی قباحتیں متعدد ہیں اوراس کی سب سے بڑی قباحت اللہ تعالیٰ سے لاتعلقی ہے۔ جس وقت آپ مچھلی فارم بناتے ہیں اس میں مچھلی کے انڈوں کو ڈالتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میرے اس فارم کی تجارت میں برکت عطا فرما دے۔ اسی طرح جب آپ گندم کی کاشتکاری کرتے ہیں تو گندم کو کاشت کرنے کے بعد آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میری فصلوں میں اضافہ فرما دے، جس وقت آپ کپڑے کی تجارت کرتے ہیں تو آپ اللہ تبارک وتعالیٰ سے اس بات کی اُـمید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میری دکان پر گاہک کو بھیجے گا یعنی جو بھی کاروبار ہوتا ہے جتنی بھی ملازمتیں ہوتی ہیں‘ اگر اس کو کرنے والا مسلمان ہو تو اس کی انابت، توجہ، اُمید اور توکل کا مرکز ومحور اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہوتی ہے۔ لیکن جو سود خور ہوتا ہے‘ اس کو علم ہوتا ہے کہ میںنے 100 روپے دیے ہیں مجھے 17 روپے اضافی مل کر رہیں گے۔ اس کی نگاہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر نہیں ہوتی بلکہ جس کو اس نے قرضہ دیا ہوتا ہے اس کی جیب پر ہوتی ہے۔ مومن ومسلم کا توکل اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے اور وہ رزقِ حلال کمانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے جبکہ سود خور کی نگاہ اپنے سرمائے اور اموال پرحاصل ہونے والے منافع پر ہوتی ہے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ جس معاشرے میں سود عام ہوجائے‘ اس میں پیداواری ذرائع تباہ ہو جاتے ہیں اور صنعتوں کی ترقی معدوم ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ نے فیکٹری یا انڈسٹری کولگایا تو آپ کی صنعت کاری کا مقصد یہ تھا کہ اس سے مشینری کے پارٹس بنائے جائیں یا اس سے کپڑا تیار کیا جائے تو اس میں محنت مزدوری کرنے والے مزدوروں کو بھرتی کیا جائے گا لیکن جو سود خور ہوتا ہے اس کو صنعت کاری یا لوگوںکو ملازمتیں دینے سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس کو صرف ایک ہی بات سے دلچسپی ہوتی ہے کہ میں نے پیسہ قرضے پر دیا ہے لہٰذا مجھے اس قرضے پر منافع ملنا چاہیے۔ گویا معیشت کے اس گندے اور باطل نظام کے ذریعے سرمایہ دار غریب کے گلے کو گھونٹتا ہے اور اس سے روزگار کے مواقع چھین لیتا ہے۔ اسلامی نظام معیشت میں مشارکت یا مضاربت ہو‘ اس میں جو بھی شراکت اور اشتراکِ عمل ہوتا ہے‘ اس کی بنیاد کاروبار ہوتی ہے۔ اگر میرے پاس دس لاکھ روپے یا آپ کے پاس بیس لاکھ روپے موجود ہیں‘ آپ تجارت کرنے کے اہل ہیں خود کمانا چاہتے ہیں تو خود کمائی کر لیں‘ اگر خود کمائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو کسی کو مشارکت، مضاربت کی بنیاد پر یا عملی طور پر اس کے کام میں شریک ہو جائیں یا کاروباری پارٹنر بن جائیں۔ لیکن سود کامعاملہ اس سے جدا ہے۔ فرض کیجئے میں مقروض ہوں، مفلوک الحال ہوں، میں ضرورت مند ہوں، حاجت مند ہوں‘ مجھے پیسوں کی ضرورت ہے، میرے گھر میں میڈیسن اورروٹی بھی نہیں ہے‘ ایسے عالم میں مَیںتعاون کا طلبگار ہوں۔ میں تعاون مانگنے کے لیے اپنے مسلم بھائی کے پاس جاتا ہوں ‘ وہ مسلمان بھائی تعاون کرکے مجھے یہ بات کہتا ہے کہ پچاس لاکھ روپے لے جاؤ جب تمہارے پاس پیسے آ جائیں گے تو میرا قرض لوٹا دینا۔ قرض ضرورت مند، حاجت مند اور پریشان حال آدمی لیتا ہے لیکن سود خور اتنا ظالم ہے کہ اس کو اپنے بھائی کی ضرور ت یا حاجت پوری کرنے میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سود کو حرام کیا ہے۔ سود انسان کے جذبۂ خیر خواہی کو سلب کر لیتا ہے؛ چنانچہ جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے سود کا ذکر کیا‘ وہیں پر ساتھ ہی مال و صدقات بھی ذکر کیا؛ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 276 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اللہ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے‘‘۔ اسی طرح سورہ روم کی آیت نمبر 39میں ارشاد فرمایا: ''اور تم لوگ جو سود دیتے ہو‘ تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہوجائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا، اور تم لوگ جو زکوٰۃ دیتے ہو ا للہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے‘ ایسے ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہیں‘‘۔
سود کی بنیاد خود غرضی پر ہے جبکہ صدقات و زکوٰۃ کی بنیاد پر خیر خواہی پر ہے۔ سود کی بنیاد استحصال پر ہے اور زکوٰۃ وصدقات کی بنیاد ایثار پر ہے۔ آج ہمارے ملک کے ابتر حالات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حاکم وقت یا افسر شاہی یا طبقۂ امرا اور بقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کواپنے مفادات، ہیرے جواہرات اور بینک بیلنس سے ہی وابستگی ہے۔ آج سود کی جس لعنت میں ہم پھنسے ہوئے ہیں‘ قحبہ گری کے جس کلچر کا ہم شکار ہیں‘ شراب کی خریدوفروخت کی ہمارے ملک میں یلغار ہے‘ اس کی روک تھام کے لیے اسلامی نظام کو نافذ کرنے کے لیے ذہن سازی کرنی چاہیے اور سود کے حوالے سے فرامین نبویﷺ کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
صحیح بخاری میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: رات (خواب میں) میں نے دو آدمی دیکھے، وہ دونوں میرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس میں لے گئے، پھر ہم سب وہاں سے چلے یہاں تک کہ ہم ایک خون کی نہر پر آئے، وہاں (نہر کے کنارے) ایک شخص کھڑا ہوا تھا، اور نہر کے بیچ میں بھی ایک شخص کھڑا تھا۔ (نہر کے کنارے پر) کھڑے ہونے والے شخص کے سامنے پتھر پڑے ہوئے تھے۔ بیچ نہر والا آدمی آتا اور جونہی وہ چاہتا کہ نہر سے باہر نکل جائے تو فوراً ہی کنارے والا شخص اس کے منہ پر پتھر کھینچ کر مارتا جو اسے وہیں لوٹا دیتا تھا جہاں وہ پہلے تھا۔ اسی طرح جب بھی وہ نکلنا چاہتا‘ کنارے پر کھڑا ہوا شخص اس کے منہ پر پتھر کھینچ مارتا اور وہ جہاں تھا وہیں پھر لوٹ جاتا۔ میں نے (اپنے ساتھیوں سے‘ جو فرشتے تھے) پوچھا کہ یہ کیا ہے، تو انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ نہر میں آپ نے جس شخص کو دیکھا‘ وہ سود کھانے والا انسان ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے خون کی قیمت، کتے کی قیمت کھانے سے منع فرمایا اور سود لینے والے اور دینے والے اور گودنے والی اور گودانے والی پر لعنت بھیجی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو سود کے لین دین سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved