انسان نے حد کر دی ہے۔ کرۂ ارض پر طرح طرح کی مخلوق ہے مگر انسان کا معاملہ سب سے عجیب ہے۔ ہر جاندار کو اللہ تعالیٰ نے کچھ نہ کچھ عقل عطا فرمائی ہے۔ عقل ہی کی بنیاد پر جاندار ایسی زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں خطرات کم ہوں اور سُکون زیادہ۔ یہ بدیہی معاملہ ہے۔ انسان دیگر تمام جانداروں سے اس اعتبار سے مختلف اور منفرد ہے کہ وہ عقل سے کام لینے کے ساتھ ساتھ دانش کی منزل تک پہنچنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور دانش کو بروئے کار لانے کے بارے میں بھی سوچتا ہے۔ دانش ہی انسان کو دیگر تمام جانداروں سے ممتاز بناتی ہے۔ کوئی اور جاندار گزرے ہوئے زمانوں کے بارے میں نہیں سوچتا اور آنے والے زمانوں کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان بھی نہیں ہوتا۔ انسان تینوں زمانوں پر نظر رکھتا ہے اور یہ انسان ہی ہے جو بہت کچھ جانتے ہوئے بھی اپنی اصلاح پر مائل نہیں ہوتا اور اچھے خاصے کھیل کو اپنے ہی ہاتھوں بگاڑنے سے گریز نہیں کرتا!
ہم مختلف چیزوں کے ادوار میں جی رہے ہیں۔ یہ زمانہ رجحانات کا بھی ہے اور شدید بے راہ روی کا بھی۔ یہ فطری علوم و فنون کے حوالے سے غیر معمولی بلکہ حیرت انگیز پیش رفت کا دور ہے۔ ہم در حقیقت کسی بھی اور چیز سے بڑھ کر ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہے ہیں۔ ہر شعبے میں ٹیکنالوجی منطقی نقطۂ عروج کو چھو رہی ہے۔ ٹیکنالوجی نے ہمیں اپنے شکنجے میں کَس لیا ہے۔ آج ہر معاملہ اسی چوکھٹ پر جھکتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ زندگی کا کوئی ایک معاملہ بھی اس کے دائرۂ تصرف سے باہر نہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ ٹیکنالوجی کے اثرات اور تصرف سے بچ نہیں سکتے۔ اگر ہم اس کے استعمال کے معاملے میں محتاط ہو جائیں تو دنیا پھر بھی اپنی ڈگر پر چلتی رہے گی اور ہمیں بھی لامحالہ اُسی ڈگر پر چلنا پڑے گا۔ اس پیش رفت نے ہمیں یوں جکڑ رکھا ہے کہ اِدھر اُدھر تو کیا ہونا‘ ہلنے کی گنجائش بھی نہیں۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ ٹیکنالوجی نے اُنہیں ڈھنگ سے سانس لینے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ وہ دن رات نئی ٹیکنالوجی کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ بہت عجیب لگتا ہے مگر غور کیجیے تو کچھ ایسا عجیب بھی نہیں۔ ہر دور میں ایسا ہی تو ہوتا آیا ہے۔ جس چیز کا چلن ہوتا ہے لوگ اُسے اپنانے لگتے ہیں۔ آج معاملہ تھوڑا سا مختلف اور قدرے وسیع گھیراؤ والا اس لیے ہے کہ ٹیکنالوجیز بہت زیادہ ہیں۔ کوئی بھی شعبہ اس کی دسترس سے دور ہے نہ محفوظ۔ اگر کوئی چاہے کہ زمانے کے ساتھ قدم ملاکر نہ چلا جائے تو وہ چل ہی نہیں سکتا۔ ایسے میں جو زندگی بسر کی جائے گی وہ اور کچھ تو ہوگی‘ زندگی نہیں ہوگی۔
ہم آج بہت سی ٹیکنالوجیز کو نہ چاہتے ہوئے بھی زندگی کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔ چند ٹیکنالوجیز ایسی ہیں جن سے مستفید ہوئے بغیر ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں۔ جو چیزیں ہماری معاشی سرگرمیوں میں معاون ثابت ہوں اُنہیں تو ظاہر ہے کہ کسی بھی حال میں چھوڑا جاسکتا ہے نہ اُنہیں گلے لگانے سے کترانے کی گنجائش ہے۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے! اِس سے آگے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ جب ہم کسی بھی ٹیکنالوجی کو غیر ضروری طور پر اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں تب خرابیوں کی ابتدا ہوتی ہے۔ ٹیلی مواصلات کی ٹیکنالوجی ہماری ناگزیر ضرورت ہے۔ آج کی دنیا رابطوں کی دنیا ہے۔ ہر فرد کسی نہ کسی طور ہر وقت رابطے میں رہنے کے لیے سرگرداں ہے۔ یہ انتہا ہے۔ رابطے میں رہنا ہماری ضرورت ہے مگر ہر وقت رابطے میں رہنا ہماری ناگزیر ضرورت نہیں۔ ہم اس معاملے میں اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ چکے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں وہ خرابیاں ہماری زندگی میں در آئی ہیں جو بہت حد تک روکی جاسکتی تھیں۔ سمارٹ فون کے ذریعے بہت کچھ ہے جو ہماری زندگی کا یوں حصہ بن چکا ہے کہ اب پنڈ چھڑانا مشکل ہوگیا ہے۔
آج دنیا بھر میں ایک ایسی نسل پروان چڑھ چکی ہے جو سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے بغیر جی ہی نہیں سکتی۔ نئی نسل اس حوالے سے خصوصی حیثیت کی حامل اس لیے ہے کہ اُس میں جوش و خروش بھی بہت ہے اور بگڑنے کا رجحان بھی قوی ہے۔ جواں سال لڑکیاں اور لڑکے دن رات سمارٹ فون کے نرغے میں رہتے ہیں۔ اب عالم یہ ہے کہ بچے بھی سمارٹ فون کے بغیر جینے میں کچھ لطف نہیں پاتے۔ دو سال کے بچے کو اینڈرائڈ فون دیجیے تو واپس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ سمارٹ فون نے پوری دنیا کو حقیقی معنوں میں آؤٹ سمارٹ کردیا ہے۔ ہم ٹیکنالوجیز کے ساتھ ساتھ خصوصی ذخیرۂ الفاظ یعنی اصطلاحات کے دور میں جی رہے ہیں۔ حالات نئے الفاظ کو جنم دے رہے ہیں۔ عام آدمی بہت سے ایسے الفاظ یومیہ گفتگو میں استعمال کرتا ہے جن کا استعمال تیس چالیس پہلے نہ ہونے کے برابر تھا۔ انگریزی کا لفظ ''زومبی‘‘ تو آپ نے سُنا ہی ہوگا جو زندہ لاش کے لیے استعمال ہوتا ہے یعنی ایسے لوگ جو دوسروں کے خون پر زندہ ہوں۔ آج کی دنیا میں لوگ سمارٹ فون کے ایسے دَھتّی ہوچکے ہیں کہ بیشتر کو آپ چلتے پھرتے بھی سمارٹ فون ہی میں گم پائیں گے۔ ہمارے ہاں تو لوگ چلتی موٹر سائیکل پر بھی میسج کا جائزہ لیتے دکھائی دیتے ہیں! موٹر سائیکل چلانے کے دوران کسی کی کال آرہی ہو تو اٹینڈ کرنے میں کچھ خاص الجھن کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ بلیو ٹوتھ ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم فون کو ہاتھ لگائے بغیر بھی بات کرسکتے ہیں مگر میسج دیکھنے اور پڑھنے کے لیے تو فون سیٹ کو پکڑنے کے ساتھ ساتھ آپریٹ بھی کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے لوگ چلتے پھرتے سمارٹ فون پر سوشل میڈیا کی پوسٹیں اور میسجز پڑھنے میں ایسے غرق ہوتے ہیں کہ حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں یا حادثات کا باعث بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے مغرب میں اب Smombie کی اصطلاح متعارف کرائی گئی ہے یعنی سمارٹ فون زُومبی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی پُرہجوم مقام پر بھی سمارٹ فون کی غلامی ترک نہیں کرتے اور کسی سے ٹکرا جاتے ہیں، کسی پتھر کی ٹھوکر سے لڑکھڑا جاتے ہیں یا پھر کسی گڑھے میں جا گرتے ہیں۔ سوال صرف پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک کا نہیں، مغرب کے ترقی یافتہ معاشروں میں بھی سمومبی کم نہیں۔ سمارٹ فون سے جُڑے رہنے کی ایک دوڑ سی لگی ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ آپ نے دیکھا ہوگا جہاں سکول ہو وہاں میونسپل کارپوریشن کی طرف سے بورڈ لگایا جاتا ہے کہ گاڑی آہستہ چلائیے، آگے سکول ہے۔ کہیں بورڈ لگا ہوتا ہے کہ ہارن مت بجائیے، ہسپتال نزدیک ہے۔ اِسی طور زیبرا کراسنگ کی نشاندہی کرنے والے بورڈ بھی سڑک کے کنارے نصب ہوتے ہیں۔ بہت سے معاشروں میں اب ایسے بورڈ بھی نصب ہوتے ہیں جن میں مرد و زن کی شبیہ کو چلنے کے دوران سمارٹ فون استعمال کرتے دکھایا جاتا ہے اور انتباہ کیا جاتا ہے کہ گاڑی آہستہ چلائی جائے، مبادا کوئی ٹکرا جائے۔ ایسی جگہ گاڑی آہستہ چلانا سمارٹ فون استعمال کرنے والوں کے نہیں بلکہ گاڑی چلانے والوں کے حق میں ہوتا ہے!
آج دنیا بھر میں کروڑوں ''سمومبی‘‘ پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ وہ ہیں جو اپنے تمام معاملات پر سمارٹ فون کو ترجیح دیتے ہیں۔ اِنہیں اپنی حقیقی آزادی کو سمارٹ فون کی غلامی میں بدلنے کا شوق‘ بلکہ ہَوکا ہے۔ یہ دن رات سمارٹ فون کے ذریعے حقیقی دنیا کی لذت سے خود کو بہت حد تک کنارا کش کیے رہتے ہیں۔ سمارٹ فون سے جُڑے رہنے کی بیماری نے بہت سوں کی پوری زندگی کو ٹھکانے لگادیا ہے۔ لوگ کام پر توجہ دیتے ہیں نہ گھر پر۔ ہر وقت سمارٹ فون کے ذریعے باقی دنیا سے جڑے رہنے کی نفسی پیچیدگی اُنہیں حصار میں لیے رہتی ہے۔ ''سمومبی‘‘ یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اُس کے نتیجے میں کچھ اور نہیں‘ اِن کی اپنی زندگی ضائع ہو رہی ہے۔ روئے ارض پر وجود بخش کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو سانسیں عطا کی ہیں وہ اِس لیے نہیں کہ جیسے تیسے گنتی پوری کرکے زندگی کی بساط لپیٹ دی جائے۔ ہر صاحبِ ایمان کو یقین ہونا چاہیے کہ پوری زندگی کا حساب لیا جائے گا۔ ایسے میں ''سمومبی‘‘ بن کر جینے کی ذرّہ بھر گنجائش نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved