زندگی تدبیر کی کارفرمائی ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ استثنا آفاقی صداقتوں کو ہے‘ورنہ ہر دور اپنی تاریخ خود لکھتا ہے۔ماضی کا ہر نقش لازم نہیں کہ آج بھی وہی نتائج دے جو پہلے دے چکا۔
ماضی پر حکم لگانا سہل ہے۔ تدبیر کے نتائج ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ یہی نتائج تجزیے کی بنیاد بنتے ہیں۔ تجزیہ کر نے والا اگر تاریخی عمل کی وسعت کو نہ پا سکے توکسی ایک واقعے کو اصول بنا دیتا ہے۔ مثالیں دہرائی جا تی ہیں کہ شیر شاہ سوری نے فلاں کام کرڈالا۔عہدِ حاضر کے حکمران کیسے نااہل ہیں کہ ان سے یہ بھی نہ ہو سکا۔ اس مماثلت میں تاریخ کا شعور کہیں کارفرما نہیں۔ محض لفاظی اور جذبات کی حدت ہے جو گزرے دنوں کو رومانوی بنا دیتی ہے۔
ماضی اکثر رومان میں ڈوباہوتا ہے۔واقعات نگاری میں معروضیت شاید ممکن ہی نہیں۔اکثر‘راوی کو واقعہ کا ایک سرا ملتا ہے۔دوسراجب نہیں ملتا تو پھراس کے تخیل میں ڈھلتا ہے۔تاریخ نگاری دونوں کے مجموعے کا نام ہے۔اسی بنیاد پر کتابیں مرتب ہوتیںاور پھر حوالہ بن جاتی ہیں۔سطحی ذہن‘ان کی بنیادپر سوال اٹھاتے ہیں:اگر کل ایسا ہوا تو آج کیوں نہیں ہو سکتا؟ ایسی روایات اور واقعات نگاری پر کیابصیرت افروزحکم لگایا ہمارے اسلاف نے:ان سے جو ملتا ہے‘وہ ظن سے زیادہ کچھ نہیں۔
عمران خان صاحب کے سامنے بھی تاریخ ہے لیکن انہیں جو ملناہے‘ان کی تدبیر سے ملنا ہے۔حکومت کا معاملہ بھی یہی ہے۔کہا جاتا تھا کہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی کوئی تحریک کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔خان صاحب کے خلاف مگر ہو گئی۔کہا جاتا تھا کہ حکومت سے جانے والا گردِ سفر بن جاتا ہے۔عمران خان کا رُکا قافلہ چل پڑا۔تاریخ کی سنی جاتی تو اتحادی تحریکِ عدم اعتماد اٹھانے کی ہمت نہ کرتے۔عمران خان بھی دبک کر بنی گالہ میں جا بیٹھتے۔دونوں نے تاریخ پر نہیں‘تدبیر پر انحصار کیا۔نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
سماج اور ریاست ریاضی کے اصولوں کا اتباع نہیں کرتے۔اور اگر کہیںکرتے بھی ہیں تو اپنے زاویے سے۔سب جانتے ہیں کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں۔کسی کے خیال میں مگر یہ ایک کم پانچ بھی ہوتے ہیں۔اسی کو زاویۂ نگاہ کہتے ہے۔تدبیر اسی سے پھوٹتی ہے۔ریاضی کے فارمولے بھی مشکل سوالات کے حل کے لیے کسی 'لا‘ یا 'ایکس‘ کے محتاج ہوتے ہیں۔'لا‘ کیا ہے؟آپ کے تخیل میں جنم لینے والا ایک عدد‘سطحِ زمین پر جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔یہ' لا‘ ہی آخر میں ایک حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔
عمران خان کی حکمت عملی کیا ہوگی؟اس کا تجزیہ کرنے کے لیے ان کی افتادِ طبع کو سمجھنا ہو گا۔سیدنا معاویہ ؓ نے یزید کو تین افراد کے بارے میں متنبہ کیا جو اس کے ا قتدار کو چیلنج کریں گے۔پھر ان کا نفسیاتی تجزیہ کر کے بتایا کہ ان کی حکمت عملی کیا ہوگی۔ایک مردِ جلیل کے بارے میں کہا: 'وہ لومڑی کی طرح چال چلے گا اور چیتے کی طرح حملہ آور ہو گا‘۔ تاریخ نے ان کے تجزیے کی تصدیق کر دی۔سیدناعبداللہ ابن زبیر ؓ نے بنو امیہ کے اقتدار کا کم وبیش خاتمہ کر دیا تھا‘مگر ان کی ایک تدبیر الٹی پڑ گئی۔وہی تدبیر جو حالات کے تابع اورفیصلہ کن ہو تی ہے۔
آصف زرداری صاحب کیا کریں گے؟اس کے لیے ان کی افتادِ طبع کو سمجھنا ہو گا۔یہی معاملہ شہباز شریف صاحب کا ہے۔رہے مولانا فضل الرحمن تو 'میرے طوفان‘یم بہ یم‘دریا بہ دریا‘جُو بہ جُو‘۔پھر ریاست کا بھی ایک مزاج ہو تا ہے۔'آج کی ریاست‘ کیا چاہتی ہے؟ پاکستانی سیاست کے تجزیے میں اس سوال کا جواب سب سے اہم ہے۔ اور ہاں وہ ٹیلی فون کال؟
میں سوچتا رہا کہ اگر میں شاہ محمود قریشی صاحب کی جگہ ہوتا تو کیا کرتا؟ کیا اُس وقت کوئی کال سنتا؟یقینا نہیں‘الایہ کہ ناگزیر ہو۔ناگزیر بھی ایسا کہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہو۔میرا کوئی قریبی عزیز جو خوا نخواستہ بسترِ مرگ پر ہو اور میں اس کے بارے میں خدشات میں گھرا ہوں۔ اگر ایسا کچھ نہ ہوتا تو میں کوئی فون کال نہ سنتا۔ شاہ صاحب نے مگر کیا کیا؟ نمبر خان صاحب کو دکھایا۔زبانِ حال سے بتایا کہ کال‘ اصلاًخان صاحب کے لیے ہے۔اس پر خان صاحب کا معنی خیزتبسم اور پھر فون بند کرنے کے لیے کہنا۔منع کرنے کے باوجود شاہ محمود کی بے چینی کہ فون سنا۔ دوسری طرف کون تھا کہ اُس وقت بھی جس کی کال نظر انداز نہیں ہو سکتی تھی؟کوئی حکومت اس سوال کا جواب تلاش کیے بغیر‘لانگ مارچ کے حوالے سے کوئی تدبیر اختیار نہیں کر سکتی۔
تدبیر ہمیشہ حالاتِ حاضرہ کے تابع ہو تی ہے۔ہم جیسے غیر مستحکم معاشروں میں تو لمحہ بہ لمحہ‘عوام اور ملکوںکی تقدیر کے بارے میں فیصلے ہو رہے ہوتے ہیں۔یہاں شیر شاہ سوری یاظہیرالدین بابر کی مثالیں کام نہیں آ سکتیں۔یہی سبب ہے کہ آج تدبیرِ مملکت ایک سائنس ہے۔اس کو ہمہ جہت پہلوؤں سے سمجھا جاتا ہے۔پولیسنگ اب ایک ڈسپلن ہے۔ جرم بھی سائنس ہے اور جرم کا استیصال بھی سائنس۔
عمران خان صاحب نے اپنی حکمتِ عملی ہوا میں نہیں بنائی۔حکومت سے نکلنے کے بعدجس سرعت کے ساتھ انہوں نے ردِعمل دیا‘وہ بتا رہا ہے کہ یہ کسی فردِ واحد کا کام نہیں۔کچھ لوگ اس حکمتِ عملی پر پہلے سے کام کر رہے تھے کہ حکومت نہ رہی توکیا کرنا ہے۔ وہ حکومت میں آئے تو ان کے پاس گورننس کا کوئی ماڈل نہیں تھا۔یہ مگر ماننا پڑے گا کہ اپوزیشن کا ایک مؤثر ماڈل ہمیشہ ان کے پاس رہا ہے۔
کیا حکومت کے پاس بھی کوئی حکمتِ عملی موجود ہے؟اسلام آباد کے نئے آئی جی پولیسنگ میں پی ایچ ڈی ہیں۔ڈاکٹر اکبر ناصرخان۔میں انہیں ایک دانشور کے طور پر جانتا تھا۔یہ تو بعد میں معلوم ہواکہ پولیس میں ہوتے ہیں۔رانا ثنا اللہ صاحب روایتی تدابیرِ حکمرانی کے ماہر ہیں اور ڈاکٹر صاحب جدید کے۔کیا قدیم وجدید کایہ امتزاج نتیجہ خیز ہوگا؟ اس کا فیصلہ چند دن میں ہو جائے گا۔گھوڑ احاضر ہے اور میدان بھی۔
تاہم‘ہر ایسی تدبیر ناقص ہوگی جس کا نتیجہ انسانی جانوں کا زیاں ہو‘ خوف ہو‘ فسادہو۔ایسی تدبیر عمران خان صاحب اختیار کریں یا حکومت۔ابھی تک دونوں کے مابین کوئی رابطہ سامنے نہیں آیا۔جس طرح خان صاحب نے دھرنے کے دنوںمیں چوہدری نثار صاحب کے ساتھ مستقل رابطہ رکھا‘اس طرح کا رابطہ اب شاید ممکن نہ ہو کہ چوہدری صاحب ان کے ذاتی دوست تھے؛ تاہم یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں اطراف سے کچھ لوگ اس پر مامور ہوں کہ لانگ مارچ کے ضوابط طے کریں اور مسلسل رابطے میں رہیں۔
آج پہلے والی سہولتیں تو میسر نہیں ہوں گی۔اب تو پریڈ گراؤنڈ جیسی کسی جگہ پر ہی پڑاؤ کرنا ہوگا۔ عوام اور بالخصوص جڑواں شہروں کے مکینوں کو اضطراب سے محفوظ رکھنے کے لیے معاملات کا طے ہونا ضروری ہے۔ تاریخ کی سفاک حقیقت یہ ہے کہ فساد اور انسانی جانوں کا زیاں اپوزیشن کی کامیابی سمجھا گیا۔لاشیں گریں تو حکومتیں کمزور ہوتی ہیں۔ آج تک انسان اپنی جبلت پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
تدبیر مگر ایسی شے ہے جو بلا کو ٹال دیتی ہے۔جمہوریت نے انتقالِ اقتدار کے عمل کو پر امن بنایا۔یہ بھی ایک تدبیر تھی۔ہمارا معاشرہ ابھی ارتقائی مراحل میں ہے۔دعا ہے کہ اقتدار کا یہ کھیل ماضی کی طرح نہ لڑا جائے جب انسانی سروں کے مینار بنانے والے فاتح شمار ہوتے تھے اور کچھ لوگ آج بھی ان کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔تاریخ سے عبرت سیکھنی چاہیے۔رہی تدبیر تو اس کا تعلق حال سے ہے‘ماضی سے نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved