زمانے کی روش ایسی ہے کہ بہت کچھ آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے مگر اُس پر بس نہیں چلتا۔ بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارے لیے کسی بھی طور کام کا نہیں مگر ہم روک نہیں پاتے۔ ہم جس دور میں زندہ ہیں وہ بہت سے فوائد بھی لایا ہے اور بہت سے معاملات میں زبردستی کا خسارہ بھی ہمارا مقدر ہوکر رہ گیا ہے۔ کسی بھی عہد میں فطری علوم و فنون کی ترقی ایسے ہی گُل کھلایا کرتی ہے۔ آج معاملات تھوڑے سے مختلف اور زیادہ پریشان کن اس لیے ہیں کہ ہر شعبہ اپنے نقطۂ عروج کو چھوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ٹیکنالوجی نے ایک بڑا گُل یہ کھلایا ہے کہ اگر کسی کو طاقت ملتی ہے تو ملتی ہی چلی جاتی ہے۔ کوئی کاروباری ادارہ اگر پنپتا ہے تو پنپتا ہی چلا جاتا ہے اور اگر کسی کے حصے میں پستی آئے تو پستی بھی ایسی ہوتی ہے کہ دیکھ کر دِل دہل جائیں۔ مطلق العنانیت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ عوام کی حکمرانی ہر دور میں انتہائی پُرکشش آئیڈیا رہا ہے مگر اِس آئیڈیل نظام کو حقیقی مفہوم میں آج تک رُو بہ عمل نہیں لایا جاسکا۔ نام نہاد لبرل ڈیموکریٹک مغربی معاشروں میں بھی بہت کچھ ایسا ہے جس پر عوام کا ذرّہ بھر اختیار نہیں۔ آج دنیا بھر میں تبدیلیاں ہی تبدیلیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ بہت سی تبدیلیاں منفی ہیں اس لیے ہمیں کچھ زیادہ اچھائی نمایاں ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ بہرکیف! اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اب کوئی بھی شعبہ تبدیلی کے عمل سے محفوظ نہیں۔ ٹیکنالوجی نے سوچ کے ساتھ ساتھ طرزِ حکمرانی بھی بدل ڈالی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کسی بھی ملک پر حکومت کرنے والوں کو سو طرح کی باتوں کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ تب ریاستی نظم مضبوط ہوا کرتا تھا۔ اب چونکہ ہر شعبہ تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے اس لیے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہو کیا رہا ہے۔ ہر طرف تبدیلیاں ہی تبدیلیاں ہیں۔ طرزِ حکمرانی کے حوالے سے بھی اتنی تبدیلیاں دکھائی دے رہی ہیں کہ انسان سوچ سوچ کر ہلکان ہوتا رہتا ہے کہ حتمی تجزیے میں اِس دنیا کا بنے گا کیا۔
امریکا اور یورپ نے چار صدیوں کے دوران جو کچھ پایا وہ اُنہیں پوری دنیا پر حکمرانی کے قابل بنانے کے لیے کافی تھا۔ عالمگیر حکمرانی یقینی بنانے کے لیے امریکا اور یورپ نے مل کر ایسا بہت کچھ کیا جو دنیا بھر میں سیاسی و معاشی اکھاڑ پچھاڑ کا باعث بنتا رہا اور اب بھی بن رہا ہے۔ کئی خطوں کو عشروں تک اور بعض کو تو صدیوں تک پس ماندہ رکھا گیا۔ افریقہ ایسا براعظم ہے جو سمندر اور زمینی قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے پر بھی اب تک کسی قابل نہیں ہوسکا۔ افریقی ممالک غیر معمولی قدرتی وسائل کے حامل ہوتے ہوئے بھی اب تک شدید پسماندگی کا شکار ہیں تو اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ مغرب نے اس پورے بر اعظم کو دبوچ کر رکھا ہے۔ اب اُن کی گرفت کچھ ڈھیلی پڑ رہی ہے اور چین آگے بڑھ کر معاملات سنبھال رہا ہے۔ امریکا اور یورپ کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ دنیا بھر میں جن خطوں سے اُن کے مفادات وابستہ ہیں اُن میں طرزِ حکمرانی اُن کی مرضی کی رہے۔ امریکا اور یورپ دونوں ہی لبرل ڈیموکریسی کا راگ الاپتے ہیں۔ دونوں کا دعویٰ ہے کہ جو طرزِ حکمرانی اُنہوں نے وضع کی ہے وہ پوری دنیا کے لیے حتمی مقدر کا درجہ رکھتی ہے اور اِسی بات کو بڑھاوا دینے کے لیے فرانسس فوکویاما نے ''دی اینڈ آف ہسٹری‘‘ جیسی کتاب لکھی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ مغرب کی متعارف کرائی ہوئی لبرل ڈیموکریسی دنیا کا حتمی مقدر ہے اور سیاسی فکر کے اعتبار سے دنیا اب وقت و تاریخ کے خاتمے کی منزل تک پہنچ گئی ہے یعنی لبرل ڈیموکریسی سے بڑھ کر کسی بھی آئیڈیل نظام کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
کیا واقعی ایسا ہے کہ امریکا اور یورپ لبرل ڈیموکریسی کے ذریعے دنیا کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب مایوس کن حد تک نفی میں ہے۔ مغرب نے دنیا بھر میں جو سیاسی تجربے کیے ہیں وہ لبرل ڈیموکریسی کو فروغ دینے کے لیے نہیں بلکہ مقصود صرف یہ ہے کہ اپنی مرضی کی طرزِ حکمرانی قائم ہو اور کٹھ پتلی حکمرانوں کے ذریعے پس ماندہ ممالک کو مرضی کے مطابق چلایا جائے۔ مشرقِ وسطیٰ، جنوبی امریکا اور مشرقِ بعید اِس کی واضح مثال ہیں۔ امریکا اور یورپ نے مل کر کئی خطوں پر حکومت کی اور اُن کے قدرتی وسائل کو پوری سفّاکی سے لُوٹا۔ ان خطوں کو برائے نام آزادی دینے کے بعد بھی مغربی حکومتوں نے جاں بخشی نہیں کی اور آج تک اِن تمام خطوں اور ریاستوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتی آئی ہیں۔ مغربی طاقتیں چاہتی ہیں کہ جہاں جہاں اِن کے مفادات ہیں وہاں اِن کی مرضی کی حکومتیں قائم رہیں اور معاملات کو اِن کے متعین کردہ کٹھ پتلی حکمران چلاتے رہیں۔ شمالی افریقہ، مشرقِ وسطیٰ، جنوبی امریکا، مشرقِ بعید اور بہت حد تک جنوبی ایشیا کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ان تمام خطوں میں امریکا اور یورپ کے حمایت یافتہ افراد اور گروہ ہی حکومت کرتے آئے ہیں۔ مغربی طاقتوں نے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے مطلق العنانیت کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مغربی طاقتیں ایک طرف تو دنیا بھر میں جمہوریت کو فروغ دینے اور جمہوری کلچر کو پروان چڑھانے کا راگ الاپتی ہیں اور دوسری طرف وہ مطلق العنانیت کو پروان چڑھانے کے لیے بھی کوشاں دکھائی دیتی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے کئی ممالک اس کی نمایاں مثال ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت ایک سال کے لیے بھی برداشت نہیں کی گئی۔ چار عشروں سے اقتدار پر قابض مصری فوج نے صدر محمد مرسی کو اقتدار سے الگ کرکے جیل میں ڈالا اور اقتدار پر پھر قبضہ کرلیا۔ الجزائر میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ فلسطین میں حماس کی حکومت کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا۔ اب تیونس میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ تیونس کے عوام جمہوریت چاہتے ہیں مگر مغرب کے پروردہ حکمران مطلق العنانیت کی سوچ کے حامل ہیں۔ تمام اختیارات کوئی ایک فرد اپنے ہاتھ میں لے کر معاملات کو اپنی مرضی سے چلاتا ہے اور ریاستی نظم کا تیا پانچا ہو جاتا ہے۔ عوام کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں، اُن کے حل کی راہ نکلتی ہی نہیں۔ اس وقت تیونس میں صدر قیس سعید نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں۔ ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے مگر اَنا اور مطلق العنانیت ہے کہ دم توڑنے کا نام نہیں لے رہی۔ یہ بھی نہیں سوچا جارہا کہ تمام اختیارات کسی ایک فرد کی ذات میں جمع ہو جانے سے ایسی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جو صرف تباہی لاتی ہیں۔
دنیا بھر میں آج بھی مطلق العنانیت کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ طاقتور ریاستیں چاہتی ہیں کہ بعض ممالک اور خطے کسی بھی طور ترقی کی دوڑ میں شامل نہ ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دنیا بھر میں اِن کی مرضی کے حکمران پائے جائیں۔ امریکا اور یورپ کا ریکارڈ اس معاملے میں بہت خراب رہا ہے۔ یہ دونوں روس اور چین کے خلاف تو بہت پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ وہاں مطلق العنانیت ہے اور عوام کو بہت سے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے مگر کبھی یہ نہیں بتاتے کہ اِن ممالک میں عام آدمی کے حالات اطمینان بخش ہیں جبکہ امریکا اور یورپ کی طفیلی ریاستوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں کیونکہ اِن ممالک کو اپنے سٹریٹیجک فائدے کیلئے بھونڈے طریقوں سے manipulate کیا جاتا رہا ہے۔ امریکا اور یورپ نے کئی خطوں کو اب تک پنپنے نہیں دیا۔ مقصود صرف یہ ہے کہ اُن کے اپنے مفادات کو تقویت ملتی رہے۔ مغربی طاقتیں اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر بہت سے خطوں اور ریاستوں کو کمزور رکھنے کا عمل کب تک جاری رکھیں گی‘ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ کئی ممالک میں جمہوریت کے پنپنے کے حالات پیدا ہوئے تو مغربی طاقتوں نے ٹانگ اَڑادی۔ یہ گویا جمہوریت کے پھیلاؤ اور فروغ کے اپنے ہی پرچار کو غلط ثابت کرنا ہے۔ لبرل ڈیموکریسی کو پوری دنیا کے لیے بہترین سیاسی و معاشی آئیڈیل قرار دینے والی مغربی ریاستیں شدید منافقانہ کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ اب بھی کئی ممالک کو تباہی سے دوچار کرنے والے حالات پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ عمل مرضی کے حکمران نصب کرکے اُن کی مطلق العنانیت یقینی بنانے کی صورت ہی میں ممکن ہے۔ وقت آگیا ہے کہ دنیا بھر میں جمہوری کلچر کو حقیقی معنوں میں پروان چڑھانے کی جامع تحریک شروع کی جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved