تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     25-05-2022

لیہ اور ساہیوال کے مظلوم

ایک دفعہ پھر محاذ گرم ہوگیا ہے۔ اب ہمارے منہ کو لہو لگ گیا ہے۔ اب عادت سی بن گئی ہے۔ میں نے پہلے سوچا کہ یہ دھرنوں اور لانگ مارچ کا کام 2008 ء کے بعد شروع ہوا جب طاہرالقادری صاحب پہلی دفعہ جلوس لے کر اسلام آباد آئے تھے اور پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔پھر خیال آیا نہیں اس سے پہلے نواز شریف پیپلز پارٹی دور میں ججوں کو بحال کرانے کیلئے لانگ مارچ پر نکلے تھے۔پھر خیال آیا نہیں اس سے پہلے جنرل مشرف کے خلاف بھی ججوں کی برطرفی کے خلاف جلوس نکلے۔ جوں جوں پیچھے جاتا گیا تو حیران ہوتا گیا کہ کون سا دور تھا جب ہنگامے اور لانگ مارچ یا گھیرائو جلائو نہیں ہورہا تھا بلکہ اس سے بھی پیچھے جائیں تو نواز شریف کو جب 1993 ء میں نکالا گیا تو وہ بھی ٹرین مارچ پر نکل گئے۔ ان سے قبل بینظیر بھٹو لندن سے واپس آئی تھیں اور لاہور سے لانگ مارچ نکال کر نواز شریف حکومت گرانا چاہتی تھیں اور کامیاب ہوئیں۔ اس سے پہلے ضیادور میں مسلسل احتجاج ہوتے رہے‘ یہی کام بھٹو دور میں بھی ہوتا رہااور اس وقت تو بھٹو صاحب نے باقاعدہ ایک فورس کھڑی کر دی تھی جس کا کام ہی سیاسی مخالفوں کی ٹھکائی کرنا تھا۔
پی این اے نے جلسے جلسوسوں اور احتجاج سے ہنگاموں میں نئی جان ڈالی اور کئی لوگ مارے گئے اور انجام بھٹو حکومت کی رخصتی اور بھٹو کی پھانسی پر ہوا۔ یہی حال ایوب خان دور میں دیکھا گیا جب اپوزیشن کو ایک قانون سے دبایا گیا اور سیاستدانوں کو نااہل قرار دے کر ایوب خان نے اپنی جان چھڑا لی۔ آپ جوں جوں پیچھے جاتے جائیں گے تو پتا چلے گا کہ آزادی جو لہو سے نکلی تھی‘ وہ لہو ابھی تک رکا نہیں ہے۔ابھی تک تشدد ہماری نفسیات میں ہے۔ لہو اور تشدد کی لذت ہمارے منہ میں ہے۔ ہمیں ہر وقت کوئی کھیل چاہیے ‘کوئی تماشا چاہیے۔
مجھے کچھ انسانی تاریخ پڑھ کر احساس ہوا ہے کہ جو بھی ہمارے جیسے انسان طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں چاہے وہ آپ کو جو بھی نیک مقاصد بتائیں یقین کریں وہ بے رحم لوگ ہوتے ہیں۔ جو بھی دوسروں پر حکومت یا راج کرنے کا خواب دیکھتا ہے اور اس خواب کی تکمیل کیلئے گھر سے نکل پڑتا ہے اور اپنے حامیوں کی ایک فوج تیار کر لیتا ہے تو یقین کریں اس کے ذہن میں عوام سے زیادہ اپنے اندر چھپی وحشی خواہشات کو پورا کرنے کا منصوبہ ہوتا ہے اور جب اسے طاقت ملتی ہے تو وہ اس طاقت سے عوام کو دباتے ہیں جن کی مدد سے انہوں نے پاور لی تھی۔ ماضی میں ہوتا تھا کہ ایسے جنونی لوگ اپنی ایک فوج اکٹھی کر لیتے تھے ‘ وہ امیر معاشروں یا ملکوں کو جا کر لوٹتے تھے۔ یوں پوری دینا میں قتل و غارت ہوئی‘ معصوم لوگ مارے گئے اور لوٹے گئے یا غلام بنا لیے گئے۔ گوروں نے جمہوریت کا نظریہ دیا کہ فوج بنا کر مخالفوں پر حملہ آور ہونے کی بجائے انہیں اکٹھاکر کے یا تو ووٹ لے کر حکمران بن جائیں یا پھر جلسے جلوس کر کے حکومتوں پر دبائو بڑھائیں۔لیکن لگتا ہے کہ جلسے جلوس اور احتجاج صرف پاکستان کیلئے رہ گئے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں نے جس طرح ان جلسوں کو استعمال کیا ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان لیڈروں کو پاکستان صرف اس وقت اچھا لگتا ہے جب وہ خود اقتدار میں ہوں۔ کوئی دوسرا ہو تو نہ ملک کی خیر ہے نہ عوام کی۔ اگر آج تحریک انصاف کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کل تک شہباز شریف کوپنجاب پولیس بری لگتی تھی ‘ آج عمران خان کو لگ رہی ہے۔ عمران خان کے پاس بڑا موقع تھا کہ وہ پنجاب پولیس کو پروفیشنل بناتے۔ انہوں نے شروع میں کچھ کرنے کی کوشش کی تھی جب انہوں نے ناصر درانی کو پنجاب میں پولیس ریفارمز کمیٹی کا سربراہ بنایا۔ ایک مرحلے پر شعیب سڈل کو خیبرپختونخوا میں احتساب کا سربراہ لگانے کا فیصلہ ہوا لیکن پرویز خٹک نے تعیناتی نہیں ہونے دی۔
پنجاب میں ناصر درانی تین ماہ بھی نہ چل سکے۔ خیبرپختونخوا میں انہیں کچھ آزادی دے کر پی ٹی آئی نے ان کا نام پنجاب میں بیچا کہ اگر ان کی حکومت آگئی تو وہ پنجاب کو بھی بہترین پولیس دیں گے۔ لوگوں نے خان صاحب پر بھروسا کیا مگر انہوں نے عوام کو بہترین پولیس دینے کی بجائے بزدار‘ گجر اور مانیکا خاندانوں کے ہاتھ پولیس اور ٹرانسفرز کے اختیارات دے دیے۔ ان ساڑھے تین سالوں میں جو حشر پنجاب میں ہوا ہے اسے دیکھ کر عبرت ملتی ہے۔ لوگوں کو عمران خان سے امیدیں تھیں‘ عمران خان کیلئے جانیں دیں‘ لوگوں کے بچے مارے گئے اس دن کے انتظار میں کہ عمران خان ایک دن پولیس کلچر بدل دے گا۔ پھر کیا ہوا؟ سات آئی جی اور سات چیف سیکرٹری تبدیل کیے گئے۔ پنجاب میں ڈی سی اور ڈی پی او کی چار سو سیٹوں پر تین ہزار سے زائد ٹرانسفر کی گئیں۔ ہر پندرہ بیس دن بعد ڈی سی اور نیا ڈی پی او ٹرانسفر ہوتا رہا۔ ایک بولی کلچر پنجاب میں متعارف کرادیا گیا۔ پہلی دفعہ ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او اور کمشنر لیول کی پوسٹیں بیچنے کے الزامات لگے۔
کیا پنجاب کے لوگوں نے شریف خاندان کی سیاست کے خلاف بغاوت اس لیے کی تھی کہ ان کی جگہ تونسہ کا بزدار‘ پاک پتن کا مانیکا خاندان اور گوجرانوالہ کے گجر ان کی جگہ لے کر پورے صوبے کو تباہ کردیں ؟ کسی اچھے افسر کو پنجاب میں نہ لگنے دیا گیا۔ انہی عوام کو پولیس کے ہاتھوں ذلیل کروایا گیا جنہیں اچھی پولیس دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ باقی چھوڑیں جو کچھ ساہیوال میں ایک فیملی کے ساتھ ہوا جب پولیس نے پورے خاندان کو گولیوں سے بھون دیا۔ کسی ایک کو بھی سزا نہ ملی۔ شریف خاندان نے ماڈل ٹائون میں چودہ بندے مروا دیے تو بھی کسی کو سزا نہ ہوئی۔عوام پہلے بھی مررہے تھے اور عمران خان کے دور میں بھی مارے گئے۔اگر عمران خان اچھے افسران کی قدر کرتے‘ بزدار‘ مانیکا اور گجر خاندان کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہ دیتے تو آج پنجاب مختلف ہوتا۔
آج جب پی ٹی آئی کے ورکرز کے ساتھ پنجاب پولیس بدترین سلوک کررہی ہیں جوغلط ہے تو مجھے ساہیوال کی فیملی یاد آرہی ہے جسے پولیس نے بھون ڈالا تھا یا لیہ کے ایک خاندان کی سات خواتین جنہیں گھر سے اٹھوا کر تھانے میں بٹھا لیا گیا کہ گھر کا ایک مرد جو کسی کاروباری تنازعے میں مفرور تھا‘ وہ سرنڈر نہیں کرتا۔ان خواتین میں ایک حاملہ خاتون اور سات سالہ بچی بھی تھی۔ ان عورتوں کو کئی دن تک لیہ تھانے میں بند رکھا گیا۔ خبر باہر نکلی تو ان خواتین پر پرچہ دے کر جیل بھیج دیا۔ ایک شریف خاندان کی خواتین نے زندگی میں پہلی دفعہ تھانہ‘ عدالت اور جیل دیکھی۔ پولیس گائوں کی غریب عورتوں کے گھر رات دو بجے گھس گئی‘ انہیں مارا پیٹا اور ان کی بکریاں اٹھا کر لے گئی اور ایک دسویں جماعت کے بچے کو تھانے بند رکھا کہ اس کا بھائی سرنڈر کرے۔ ان تمام مظالم پر لکھا اور بولا لیکن مجال ہے بزدار‘ آئی جی پنجاب‘ چیف سیکرٹری‘ عمران خان یا ان کے وزیروں پر ٹکے کا اثر ہوا۔شاید ان کے نزدیک یہ عورتیں انسان نہ تھیں ۔شاید کچھ لوگ مکافاتِ عمل پر یقین نہیں رکھتے‘ لیکن یہ سچ ہے کہ مظلوموں کی آہیں اور بددعائیں سیدھی آسمان پر جاتی ہیں۔سابق وزیراعظم عمران خان اور وزیروں کو کب پتا تھا کہ دو تین ماہ پہلے جو کچھ ان کے دور ِحکومت میں لیہ کی مظلوم عورتوں کے ساتھ ہوا یا ساہیوال میں فیملی کے ساتھ ہوا تھا‘ آج وہی پی ٹی آئی کے ساتھ ہورہا ہے۔ نہ سبق عمران خان نے سیکھا نہ شہباز شریف نے سیکھنا ہے کیونکہ یہ لوگ مکافاتِ عمل پر یقین نہیں رکھتے۔
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانیے گا وہ ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved