خدا کرے کہ یہ اطلاعات بالکل غلط ثابت ہوں کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اپیل پر آج (25) مئی کے لانگ مارچ میں شرکت کے لیے خیبر پختونخوا‘ خاص طور پر سوات‘ دیر اور وزیرستان سے اسلام آباد آنے والے قافلوں کو پی ڈی ایم کی حکومت‘ خاص طور پر وزارتِ داخلہ سختی سے کچلنے کا ارادہ کیے ہوئے ہے اور اس سلسلے میں چند روز قبل اسلام آباد میں ایسے افسران کو خصوصی طور پر تعینات کیا گیا ہے جو عمران خان کی حکومت میں احتسابی اداروں کے زیرِ حراست رہے یا کوئی انکوائری اور مقدمہ بھگتتے رہے۔ ایسے افسران سے شاید مسلم لیگی قیادت یہ امید رکھے ہوئے ہے کہ اگر ان کو بھرپور موقع فراہم کیا گیا اور فری ہینڈ دیا گیا تو شاید وہ اپنا بدلہ چکا سکیں۔ اگر ایسا کیا گیا تو یہ بہت بڑی غلطی ہو گی جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا اور ممکن ہے کہ اس کی تلافی کا پھر موقع نہ مل سکے۔ اس وقت قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان میں حالات پہلے ہی خراب ہیں لہٰذا دبے ہوئے شعلوں کو ہوا مت دیں‘ اس آگ کو مت بھڑکائیے۔ دوسری جانب بیرونی ہاتھوں کے فعال ہونے سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہر محب وطن پاکستانی کو اپنے اردگرد نظر رکھنی ہے اور دشمن کے ایجنٹوں اور بدلہ لینے کی نیت رکھنے والوں کے بڑھتے ہاتھوں کو روکنے کے لیے وقت سے پہلے اٹھنا ہو گا۔ ایک محب وطن پاکستانی اور اس کی سالمیت کیلئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے کا عزم رکھنے والے فرد کی حیثیت سے میں وارننگ دینا چاہوں گا کہ خبر دار‘ خبردار! بھول کر بھی طاقت کا استعمال نہ کیجیے گا۔ اس کے نتائج اس قدر تباہ کن ہوں گے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ بلوچستان اور سندھ میں آج جو حالات ہیں‘ وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ان سب سے بڑھ کر‘ وزیرستان میں ہماری سکیورٹی فورسز کو دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں جو جانی نقصان آئے روز پہنچ رہا ہے‘ کوئی بھی غلط واقعہ اس آگ کو مزید بھڑکا دے گا۔ نقیب اﷲ محسود کے قتل اور پشتونوں کے نام پر اپنی سیاست چمکانے والی پی ٹی ایم کی مثال ہم سب کے سامنے ہیں۔ اگر آج پکڑ دھکڑ اور کنٹینرز وغیرہ لگا کر پی ڈی ایم کی حکومت پرانی حماقتوں کو دہرانے پر تلی ہوئی ہے تو میں اسے آج سے 50 برس پیچھے لے کر جانا چاہوں گا جب 1973ء میں بھی ایسی ہی غلطیاں دہرائی گئی تھیں تاکہ وہ اس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ''مارو‘ بھگا ئو‘‘ کی پالیسی سے پیچھے ہٹ جائیں اور ان افسران کو بھی شاید سمجھ آ جائے جو اپنے حساب برابرکرنے کیلئے مٹھیاں بھینچ رہے ہیں۔ پہلے تو سب کو یہ جان لینا چاہیے کہ یہ 1973ء نہیں بلکہ 2022ء ہے۔ آج اُس دور کی طرح تازہ اگلے دن کے اخبار کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا بلکہ نیوز چینلز پر اب پل پل کی خبر مل جاتی ہے۔ آج ہر ہاتھ میں کیمرہ موجود ہے لہٰذا کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہے گا۔
23 مارچ 1973ء کو یوم پاکستان کے موقع پر راولپنڈی لیاقت باغ میں اس وقت کی تمام اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل 'متحدہ محاذ‘ کا وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ایک احتجاجی جلسہ تھا جس میں شرکت کیلئے سندھ سے پیر صاحب آف پگاڑو کارکنوں کے ہمراہ آ رہے تھے جبکہ سرحد سے خان عبد الولی خان اور اجمل خٹک ہزاروں پشتون نوجوانوں کے ہمراہ شرکت کیلئے پہنچے تھے۔ اس متحدہ محاذ کی قیادت حسبِ معمول نوابزادہ نصر اللہ خان کے سپرد تھی اور جلسہ عام کے انتظامی امور کے نگران اور اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سمیت پبلسٹی اور میڈیا کی خدمت مرحوم چوہدری ظہور الٰہی کے سپرد تھی۔ راقم اس روز خود بھی لیاقت باغ‘ راولپنڈی میں موجود تھا۔ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والی تمام قیادت جب جلسہ گاہ میں پہنچ گئی تو اچانک پتا چلا کہ پیر صاحب پگاڑو جلسہ گاہ میں تشریف نہیں لا رہے۔ یہ خبر بہت حیران کن تھی کیونکہ وہی تو ان دنوں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سندھ میں بیٹھ کر پوری شدت سے گرجتے برستے نظر آتے تھے۔ سندھ بھر میں ان کے مریدین اور ساتھیوں کا بھٹو صاحب نے ناطقہ بند کیا ہوا تھا۔ جن لوگوں نے اس وقت کے سیاسی حالات کا مشاہدہ کیا ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ سندھ پولیس اور پھر سندھ کی جیلوں کا عملہ ان کے ساتھ کس قدر ظالمانہ سلوک روا کھتا تھا۔ وہ کوڑے‘ جو بعد میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو ضیاء الحق کے مارشل لا دور میں مارے گئے‘ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی ابتدا بھی سندھ کی جیلوں میں پیر صاحب آف پگاڑو کے مریدین، ساتھیوں اور ان کی مسلم لیگ کے کارکنوں پر برسائے جانے سے ہوئی تھی۔ اپوزیشن قیادت پیر صاحب کی غیر موجودگی پر کافی حیران ہوئی‘ خیر جلسے کی کارروائی آگے بڑھائی گئی۔ جیسے ہی نیشنل عوامی پارٹی کے ولی خان تقریر کرنے آئے اور ابھی انہوں نے چند الفاظ ہی ادا کیے تھے کہ دائیں‘ بائیں سے اچانک فائرنگ کی آوازوں اور چیخ و پکار کا سلسلہ شروع ہو گیا جس سے جلسہ گاہ میں بھگدڑ مچ گئی۔ قائدین نے سٹیج کے پچھلی جانب چھلانگیں لگا دیں لیکن چونکہ سٹیج خاصی اونچائی پر بنایا گیا تھا‘ اس لیے نیچے کودتے ہوئے کچھ افراد کو چوٹ بھی لگ گئی۔ لیاقت باغ میں ہر طرف خون بکھرا ہوا تھا۔ زخمیوں کی آہ بکا سے باقی افراد بھی خوفزدہ ہو کر ادھر ادھر جان بچانے کیلئے بھاگ رہے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ بہت سے نوجوان خون میں لت پڑے ہوئے تھے۔ اسی منظر میں مَیں نے دیکھا کہ خان عبدالولی خان ایک گرے رنگ کی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے‘ جسے ان کا بیٹا سنگین ولی خان چلا رہا تھا ۔ جس تیز رفتاری سے وہ انہیں نکال کر پشاور روڈ کی طرف بھاگا‘ لگتا تھا کہ کسی تانگے یا بس سے ٹکرا جائے گا۔ ذہن کی سکرین پر محفوظ وہ سارا منظر بہت خوفناک تھا۔
لیاقت باغ سے ہم لوگ راولپنڈی کے ایک ہوٹل پہنچے جہاں پیر صاحب پگاڑو ایک سویٹ میں قیام پذیر تھے۔ ان کے پاس جلسے میں حملے کی اطلاعات پہنچ چکی تھیں۔ اس وقت ان کی زبان سے جو جملہ ہم نے سنا‘ وہ بہت عجیب تھا۔ بولے ''بھٹو نے تاش کے پتے میز پر پھینک دیے ہیں‘‘۔ وہاں سے کچھ دیر بعد ہم راولپنڈی ویسٹریج میں واقع چوہدری ظہور الٰہی کے گھر پہنچے جہاں متحدہ محاذ کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا تھا۔ پیر صاحب بھی وہاں پہنچ گئے تھے۔ ولی خان کا انتظار کیا جا رہا تھا لیکن بتایا گیا کہ وہ پشاور روانہ ہو گئے ہیں لیکن وہ اکیلے نہیں گئے بلکہ اپنے ساتھ پختون زلمے سے تعلق رکھنے والے 17 افراد کی لاشیں بھی لے کر گئے ہیں۔ ان افراد کے جنازوں میں صوبہ سرحد (کے پی) کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طالب علموں نے جس غم و غصے کا مظاہرہ کیا اور جو نعرے بازی کی‘ اس نے بعد میں کئی سال تک ملک میں ایک آگ لگائے رکھی لیکن اس تباہی و بربادی کی ذمہ داری لیاقت باغ میں اپوزیشن کا جلسہ الٹانے کی صلاح دینے والوں پر عائد ہوتی ہے۔ ہوا یوں کہ اس کے بعد صوبہ سرحد کے تعلیمی اداروں سے وقفے وقفے سے پانچ سو سے زائد نوجوانوں کو افغانستان بھیجا گیا‘ جنہیں وہاں گوریلا کیمپوں میں ٹریننگ دی گئی۔ افغانستان میں سردار دائود خان اورکمیونسٹ پارٹی کے لیڈران انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ ان افراد کو کابل اور جلال آباد میں بم بنانے کی تربیت بھی دی جانے لگی اور اس واقعے کے چند ماہ بعد ہی کے پی اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں بم دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ کبھی کسی بینک، کبھی کسی تانگے، کبھی جی ٹی ایس کی بس، کبھی پولیس سٹیشن، کبھی ریل کی پٹڑیوں، کبھی بجلی کے ٹاورز اور کبھی ٹیلی فون کی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا۔ لاہور کے واپڈا ہائوس کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ دوسری جانب انہی عناصر نے بلوچستان میں بھی شورش کو ہوا دینا شروع کر دی اور پھر بلوچستان میں بھی تخریب کاری شروع ہو گئی۔ 8 فروری 1975ء کو حیات محمد خان آف شیر پائو کو پشاور یونیورسٹی کے ہسٹری ہال میں پختون زلمے سے تعلق رکھنے والوں جن دو افراد نے بم دھماکے میں شہید کیا تھا انہوں نے 1973ء کے لیاقت باغ جلسے کے بعد ہی افغانستان جا کر ٹریننگ لی تھی۔ اپوزیشن کو دبانے کی ایک غلطی اگلی کئی دہائیوں تک ملک کو آگ و خون کے گڑھے میں دھکیل گئی۔ اس لیے خبردار‘ خبردار۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved