تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     25-05-2022

اعلیٰ اخلاقی اقدار

انسانوں کی غالب اکثریت ایسے شخص کو اچھا انسان گردانتی اور جانتی ہے جس کی اخلاقی قدریں بلند ہوں۔ اخلاقی اقدار کے حوالے سے دنیا میں مختلف طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں اور ان تصورات کی وجہ سے صاحبِ اخلاق شخصیت کے مختلف اوصاف بیان کیے جاتے ہیں۔ مغربی معاشروں میں بالعموم انسان کی نجی زندگی کی قباحتوں کو اخلاقی اقدار سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ مذہب کا تصورِ اخلاق بہت بلند ہے‘ جہاں وہ دوسرے انسانوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنے کی تلقین اور ترغیب دیتا ہے وہیں انسان کے ذاتی کردار کی تطہیر پر بھی بھرپور اندازمیں توجہ دیتا ہے۔کتاب وسنت کی تعلیمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک بااخلاق شخص جہاں گفتگو اور معاملات میں بہتر رویوں کا اظہار کرتا ہے‘ وہیں وہ پاکدامن، جھوٹ سے دور اور مالی بدعنوانیوں سے بھی دور ہوتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ قلم میں نبی کریمﷺ کے اخلاقِ عالیہ کا نہایت احسن انداز میں ذکر کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ قلم کی آیت نمبر 4 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور بلاشبہ آپ خلق عظیم پر (فائز) ہیں‘‘۔ نبی کریمﷺ کا اپنی ذات گرامی کے بارے میں خوبصورت فرمانِ مبارک ہے ''مجھے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا‘‘۔سلسلہ احادیث صحیحہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: ''مجھے تمہاری طرف عمدہ اخلاق مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘ (اور ایک روایت میں ہے: اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے)۔ سنن ترمذی میں حضرت ابو الدرداء ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ''قیامت کے دن مومن کے میزان میں اخلاقِ حسنہ سے بھاری کوئی چیز نہیں ہو گی اور اللہ تعالیٰ بے حیا اور بدزبان سے نفرت کرتا ہے‘‘۔
کتاب وسنت میں جہاں انسان کو کبیرہ گناہوں سے بچنے کی ترغیب دلائی گئی ہے‘ وہیں انسان کو اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسداری کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں مختلف مقامات پر اخلاقی اقدارکی اہمیت کو نہایت احسن انداز میں اجاگر کیا ہے۔ اس حوالے سے سورۂ حجرات غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجرات کی آیات نمبر 11 تا 12میں ارشاد فرماتے ہیں: ''نہ مذاق کرے کوئی قوم کسی (دوسری) قوم سے‘ ہو سکتا ہے کہ وہ بہتر ہوں اُن سے اور نہ کوئی عورتیں (مذاق کریں دوسری) عورتوں سے‘ ہو سکتا ہے کہ وہ بہتر ہوں اُن سے اور نہ تم عیب لگاؤ اپنے نفسوں (یعنی ایک دوسرے) پر اور ایک دوسرے کو مت پکارو (برے) القاب سے (کسی کو) فسق والا نام (دینا) بُرا ہے ایمان لانے کے بعد، اور جس نے توبہ نہ کی تو وہ لوگ ہی ظالم ہیں۔ اے (وہ لوگو!) جو ایمان لائے ہو اجتناب کرو بہت گمان کرنے سے۔ بے شک گمان گناہ ہیں اور تم جاسوسی نہ کرو، اور نہ غیبت کرے تم میں سے کوئی دوسرے کی‘ کیا تم میں سے کوئی ایک (اس بات کو) پسند کرتا ہے کہ وہ گوشت کھائے اپنے مردہ بھائی کا۔ تو تم ناپسند کرتے ہو اُسے۔ اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے‘‘۔ ان آیات مبارکہ پر غوروخوض کرنے بعد اس بعد کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ ہماری نجی، سیاسی اور سماجی زندگی اس وقت اخلاقی اعتبار سے تنزلی کا شکار ہے اور ہم ایک دوسرے کا استہزا کرنے اور کردار کشی کو معمولی چیز سمجھتے ہیں جبکہ انسانیت کی تکریم اور عظمت کو ملحوظِ خاطر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو ایک دوسرے کی کردار کشی سے اس حد تک روکا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی پاکدامن عورت کی کردار کشی کرتا ہے اور اپنے دعویٰ کا ثبوت پیش نہیں کرتا تو اس پر حدِ قذف قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 4 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ جو تہمت لگائیں پاکدامن عورتوں پر‘ پھر نہ لائیں چار گواہوں کو تو کوڑے مارو انہیں اسّی(80) کوڑے اور نہ قبول کرو ان کی گواہی کو کبھی بھی اور وہی لوگ نافرمان ہیں‘‘۔ سورہ نور ہی کی آیت نمبر 23میں پاکدامن عورتوں کی کردار کشی جیسے فعلِ شنیع پر آخرت میں بھی دردناک عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوا: ''بے شک وہ لوگ جو تہمت لگاتے ہیں پاکدامن بے خبر مومن عورتوں پر‘ وہ لعنت کیے گئے دنیا اور آخرت میں اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے‘‘۔ اور یہ معاملہ فقط عورت کی ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ جس طرح عورتوں کی کردار کشی حرام ہے اسی طرح مسلمان مردوں کی کردار کشی بھی حرام ہے۔یہ مقامِ تاسف ہے کہ اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کے لیے معاشرے کے مختلف طبقات کو اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں والدین، اساتذہ اور مذہبی سیاسی قائدین پر خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد، شاگردوں اور پیروکاروں کی اخلاقی تربیت کا احسن انداز میں اہتمام کریں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو کی جانے والی خوبصورت نصیحتوں کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے جہاں عقائد اور اُمور دینی کے حوالے سے اپنے بیٹے کو قیمتی نصیحتیں کیں‘ وہیں اپنے بیٹے کو اخلاقی اقدار کے حوالے سے بھی بیش قیمت نصیحتیں کیں۔ سورہ لقمان کی آیت نمبر 18 تا 19 میںحضرت لقمان کی نصیحتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا: ''اور نہ پھلا اپنا رخسار لوگوں کے لیے اور مت چل زمین میں اکڑ کر‘ بے شک اللہ نہیں پسند کرتا ہر تکبر کرنے والے‘ فخرکرنے والے کو۔ اور میانہ روی رکھ اپنی چال میں اور پست رکھ اپنی آواز کو بے شک بدترین آوازوں میں سے یقینا گدھوں کی آواز ہے‘‘۔ ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو جہاں عقیدے کی اصلاح اور اپنی عبادات مطلوب ہیں‘ وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ بندوں سے بہترین اخلاق کا بھی تقاضا کرتے ہیں۔ دوسروں کی تحقیر کرنا، تکبر کرنا، اکڑاکڑ کر چلنااور چیخ وپکار کرنا اللہ تبارک وتعالیٰ کو کسی بھی اعتبار سے پسند نہیں۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان تمام باتوں کو سورہ لقمان میں بڑے ہی خوبصورت اور احسن انداز میں واضح کیا۔
ہمارے نجی، سماجی اور سیاسی کلچر میں اس بات کا مشاہدہ کرنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ مخالف کے بارے میں کوئی بھی بات سننے کو ملے اس کو بلاتحقیق آگے پہنچانا اپنے پر فرض کر لیا جاتا ہے جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبروں کے پھیلاؤ کے حوالے سے اس بات کی تلقین کی ہے کہ اگر کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کے پھیلاؤ سے قبل اس کی تحقیق کر لینی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجرات کی آیت نمبر6 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو‘ اگر آئے تمہارے پاس کوئی فاسق کسی خبر کے ساتھ‘ تو تم تحقیق کر لیا کرو اچھی طرح(ایسا نہ ہو) کہ تم تکلیف پہنچاؤ کسی قوم کو نادانی سے‘ پھر تم ہو جاؤ اس پر جو تم نے کیا‘ پشیمان‘‘۔ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اس میں نجی اور اجتماعی سطح پر ترقی کا معیار فقط معاشی استحکام کو بنا لیا گیا ہے جبکہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کو انفرادی اور اجتماعی ترقی کے حوالے سے کچھ خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ ایک عرصہ قبل لوگ اپنی بہنوں‘ بیٹیوں کا رشتہ کرتے وقت انسانوں کے اخلاق کی پڑتال اور پرکھ پر خصوصی توجہ دیتے تھے جبکہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اب فقط دُلہا کی مالی حیثیت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے ایجنڈے میں ملکی ترقی کو فقط معاشی ترقی کے ساتھ نتھی کیا ہوا ہے اور اخلاقی اعتبار سے جو معاشرتی زوال ہے‘ اس کے خاتمے کے لیے کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی جبکہ بداخلاقی کے فروغ میں کئی معروف سیاسی لیڈر نمایاں کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ اپنے مخالفین کو برے ناموں سے پکارنا اور ان کی تضحیک کرنا، جلسوں اور اجتماعات میں داد حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ ایک دوسرے کی مدلل اور منطقی مخالفت اور ایک دوسرے کے نظریات اور افکار کو دلائل سے غلط ثابت کرنے کے بجائے تضحیک،استہزا،گالی اور کردار کشی ہی کو سیاسی مخالفت کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر یہ رویہ برقرار رہا تو آنے والے دنوں میں معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا چلا جائے گا اور معاشرے میں نفرت، تعصب اور عدم برداشت بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ اگر ہم اپنے معاشرے کو ایک مثالی معاشرے میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس حوالے سے اخلاقی اقدار کے فروغ پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور معاشرے کو اخلاقی انحطاط سے نکالنے کے لیے اپنے اپنے دائرۂ کار میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا چاہئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved