تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     26-05-2022

ڈاکٹر صاحبہ ! آپ خوش قسمت ہیں !!

اس ملک میں ایلیٹ کی کئی اقسام ہیں !
کچھ اس لیے ایلیٹ ہیں کہ وہ فیوڈل ہیں۔ زمینوں اور جاگیروں کے مالک ! کچھ اس لیے کہ وہ سردار ہیں۔کچھ اس لیے کہ وہ حکومت میں ہیں۔ کچھ اس لیے کہ وہ اپوزیشن میں ہیں! مگر محترمہ ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ! آپ کسی ایک وجہ سے ایلیٹ نہیں !آپ اس لیے ایلیٹ ہیں کہ آپ فیوڈل بھی ہیں! بہت بڑی فیوڈل! آپ اس لیے ایلیٹ ہیں کہ آپ سردارنی بھی ہیں! آپ اس لیے ایلیٹ ہیں کہ آپ حکومت میں بھی رہیں! آپ اس لیے ایلیٹ ہیں کہ آپ اپوزیشن میں بھی ہیں !
آپ اس وقت ملک کی طاقتور ترین خاتون ہیں۔ آپ ایلیٹوں کی ایلیٹ ہیں۔ جو ہنگامہ ‘ جو غلغلہ‘ جو خروش و غوغا‘ جو شور‘ جو احتجاج آپ کی گرفتاری پر ہوا وہ اس ملک کی تاریخ میں کسی عورت ‘ کسی مرد کی گرفتاری پر آج تک نہیں ہوا۔ اپوزیشن تو اپوزیشن‘ حکومت نے بھی احتجاج کیا؛ تاہم کسی میں آپ سے پوچھنے کی جرأت نہ ہوئی کہ آپ جب انسانی حقوق کی وزیر تھیں تو کئی صحافیوں کے بنیادی انسانی حقوق کے پرخچے اڑائے گئے جن کا ایک زمانے کو علم تھا مگر آپ کو جیسے خبر ہی نہ تھی۔ میڈیا مالکان کو مہینوں‘ بغیر کسی جرم کے محبوس رکھا گیا۔ آپ کے منہ سے ایک لفظ نہ نکلا۔ ایک ایک اپوزیشن لیڈر کو حوالہ زنداں کیا گیا۔ آپ کو جیسے معلوم ہی نہ ہوا۔ خاتون اپوزیشن لیڈر کو مرد پولیس پکڑ کر لے گئی۔ جیل میں کیمروں کی زد میں رکھا گیا۔ آپ کے نزدیک یہ کوئی بات ہی نہ تھی۔ تو کیا آپ کی وزارت ‘ انسانوں کے نہیں جنات کے حقوق کی حفاظت کر رہی تھی؟
بہت ہی محترمہ شیریں مزاری صاحبہ ! آپ مبینہ طور پر چالیس ہزار کنال زمین کی مالکن ہیں۔یہ معلوم نہیں کہ یہ آپ کی کْل زمین ہے یا یہ صرف آپ کی کْل ملکیت کا وہ حصہ ہے جو متنازع ہے! لیکن اگر آپ کی ٹوٹل ملکیت یہی چالیس ہزار کنال زمین ہے تو پھر بھی یہ ایک بہت بڑی ملکیت ہے۔اس ملک میں لاکھوں خاندان ایسے ہیں جو پندر بیس کنال سے لے کر سو‘ دو سو کنال تک کی ملکیت میں گزارا کر رہے ہیں۔ کروڑوں لوگوں کے لیے پانچ سو کنال زمین بھی ایسا خواب ہے جو نسلوں تک خواب ہی رہتا ہے۔ بہر طور ‘ چالیس ہزار کنال زمین کے لیے آپ کے پاس یقینا مزارعوں‘ ہاریوں اور نوکروں کی ایک فوج بھی ہو گی۔ ان مزارعوں‘ ہاریوں اور نوکروں کی بیویاں‘ مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں بھی ہوں گی ! ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ ! کیا ان عورتوں کو وہی حقوق حاصل ہیں جن سے آپ لطف اندوز ہو رہی ہیں ؟ کیا ان میں سے جب کسی کو پولیس پکڑتی ہے تو کیا ملک کے اطراف و اکناف میں اسی طرح طوفان آجاتا ہے جیسا آپ کی گرفتاری سے آیا؟ کیا کوئی اور عورت پکڑی جائے تو اس کی بیٹی کو بھی وہی کچھ کہنے کی اجازت ہے جو آپ کی دختر نیک اختر نے کہا ؟
کوئی مانے یا نہ مانے ‘ کسی کو یہ بات اچھی لگے یا بری‘ پتھر پر کھدی ہوئی سچائی یہ ہے کہ اس ملک میں اپوزیشن اور حزب ِاقتدار کی تقسیم محض دکھاوا ہے۔ محض نمائش ہے۔ اس ملک میں پارٹیاں دو ہی ہیں۔ دو ہی جماعتیں ہیں۔ ایک کو مراعات یافتہ کہہ لیجیے یا ایلیٹ کا نام دے لیجیے۔ یہ صبح کو حکومت میں ہیں تو شام کو اپوزیشن میں۔ رات کو پھر حکومت میں ہوتے ہیں۔ جنرل ضیا کی حکومت ہو یاجنرل مشرف کی‘ پی پی پی کی ہو یا مسلم لیگ کی یا تحریک انصاف کی ‘ یہ حکومت میں ہوتے ہیں یا اپوزیشن میں۔ اور حکومت اور اپوزیشن دونوں مراعات یافتہ ہیں۔ دوسرے عام لوگ ہیں۔ یہ عام لوگ مراعات سے محروم ہیں۔ ان کی گرفتاری سے اتنی آواز بھی نہیں اٹھتی جتنی ایک مکھی یا مچھر کے بھنبھنانے سے ہوتی ہے۔آپ دیکھیے ایک عام عورت مریم نواز کو ملنے پتا نہیں کہاں سے چل کر آتی ہے مگر وہ ہاتھ کے اشارے سے اسے جھٹک دیتی ہیں۔ نصرت بھٹو پر گلاب کے پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی تھیں تو ناراض ہوتی تھیں کہ انہیں گلاب سے الرجی ہے۔ برملا کہتی تھیں کہBhuttos are born to rule کہ بھٹو خاندان حکومت کرنے کے لیے ہے۔ میاں نواز شریف کو دیکھ لیجیے۔ اقتدار میں نہ ہوں تو جدہ کے کسی محل میں ہوتے ہیں یا لندن کی عالی شان قیامگاہ میں ! بچے پاکستان کے شہری ہی نہیں ! عمران خان کو دیکھ لیجیے ! ان کے وابستگان کی خواتین مارچ میں بھی شامل ہوتی ہیں اور دھرنے میں بھی ! مگر ان کی اہلیہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ گھریلو خاتون ہیں اس لیے مارچ میں شامل نہیں ہوں گی۔ تو کیا شامل ہونے والی دوسری خواتین گھریلو نہیں؟ ملتان جانا ہو یا کراچی یا سیالکوٹ‘ یا بنی گالا سے وزیر اعظم آفس یا وزیر اعظم آفس سے بنی گالا ‘ عمران خان ہیلی کاپٹر پر جاتے ہیں یا چارٹرڈ جہاز پر۔ ان کے اپنے بچے لندن کی پُر آسائش زندگی گزار رہے ہیں اس لیے کہ وہ ایلیٹ کلاس سے ہیں۔ دوسروں کے بچے مارچ میں حصہ لے رہے ہیں۔ لاٹھیاں کھا رہے ہیں۔ آنسو گیس بھگت رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہ مراعات یافتہ طبقے سے نہیں ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ مسجد نبوی میں ہنگامہ کرنے کے جرم میں جو افراداس وقت سعودی زندانوں میں پڑے ہیں‘ اگر مراعات یافتہ طبقے سے ہوتے تو ایسی ہی خاموشی ہوتی ؟ نہیں جناب! نہیں! ایسا ہوتا تو ایم بی ایس کے پاس ایک وفد کے بعد دوسرا وفد جا رہا ہوتا اور امریکہ سے لے کر یو اے ای تک سب کو درمیان میں ڈالا جا رہا ہوتا۔
پاکستان میں اپوزیشن ہمیشہ اقتدار میں شامل رہتی ہے ! اسد عمر ہوں یا زبیر عمر‘ مونس الٰہی ہوں یا چوہدری سالک حسین ! وہی گھر اپوزیشن کا ہوتا ہے اور وہی گھر حزب اقتدار کا ! جو رشتہ دار نہیں وہ بھی مضبوط بندھن میں بندھے ہیں۔ شادیوں پر‘ منگنیوں پر‘ سماجی تقاریب میں سب ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں۔ اکٹھے دعوتیں اڑاتے ہیں! ہنستے کھیلتے ہیں۔ ایک دوسرے کے سمدھی ہیں یا مامے‘ چاچے‘ بھتیجے‘ بھانجے! ان کی یکجائی اور اتحاد دیکھنا ہو تو اس وقت دیکھیے جب قومی یا کسی صوبائی اسمبلی میں ارکان کی تنخواہوں‘ ٹی اے‘ ڈی اے اور دیگر مراعات میں اضافے کا کوئی بل پیش ہو! یوں لگتا ہے سب سگے بھائی ہیں۔ کیا اپوزیشن ‘ کیا حکومتی ارکان ‘ کیا مذہبی جماعتوں کے نمائندے‘ کیا سیکولر خیالات کے حامل‘ سب سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں !
پاکستان میں فخر سے لکھا اور بتایا جاتا ہے کہ سعیدہ وارثی‘ صادق خان اور ساجد جاوید بس ڈرائیوروں کے بچے تھے جو برطانیہ میں پارلیمنٹ تک پہنچے‘ وزارتیں لیں اور مئیر بنے! سوال یہ ہے کہ کیا ہماری زنبیل سے بھی کبھی کوئی ایسا طلسم برآمد ہوا؟ کیا یہاں بھی کوئی بس ڈرائیور کا بچہ ایسے منصب تک پہنچا؟ وہ تو بھلا ہو انگریز سرکار کا کہ ایسے ادارے بنا کر دے گئے جن کے طفیل عام لوگوں کے بچے فوج اور سول سروس میں داخل ہو کر اعلیٰ عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں۔نائب صوبیدار کا بچہ جرنیل بن جاتا ہے۔ حال ہی میں ایک ڈرائیور کی بیٹی فارن سروس کے لیے منتخب ہوئی ہے۔ اس لیے کہ محنت کی۔ مگر محنت سے یہاں وزیر کوئی نہیں بن سکتا اس لیے کہ سیاست میں صرف مراعات یافتہ طبقے کے ارکان اوپر جا سکتے ہیں۔ شریف برادران‘ بھٹو خاندان‘ عمران خان‘ مولانا‘ چوہدری‘ باچا خاندان ‘ سب کئی کئی دہائیوں سے پارٹیوں پر قابض ہیں!
ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ ! آپ خوش بخت ہیں کہ ایلیٹ کلاس سے ہیں !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved