تصور میں ایک تصویر دیکھی ‘جس نے دل خوش کردیا کہ پاکستان کے قد آور سیاسی رہنما74سالہ مخدوم جاوید ہاشمی اپنے ہسپتال کے بستر پر بیٹھے ہیں جہاں ان کی حال ہی میںدل کی سرجری ہوئی ہے۔ چہرے پر ہلکی مسکراہٹ ہے۔ ان کے سابقہ ساتھی جناب عمران خان بیڈ کی پائنتی بیٹھے ہیں۔ ان کے چہرے پرمعمر سیاست دان کے لیے ایک شفیق مسکراہٹ ہے۔یہ مسکراہٹ اعتراف ہے اس رفاقت کا جو جاوید ہاشمی نے اپنے پرانے ساتھیوں کو چھوڑ کر ان کے ساتھ اختیار کی تھی۔ خان صاحب ملتان کے جلسے میں شرکت کے لیے آئے ہیں لیکن انہوں نے پرانے رفیق کی عیادت بھی ضروری سمجھی۔ قریب کی ایک کرسی پر مخدوم شاہ محمود قریشی بیٹھے ہیں۔ دونوں ہم عمر ‘ دونوں مخدوم ‘دونوں سیاسی حریف جو جاوید ہاشمی کے تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بعد کچھ مدت کے لیے ہم جماعت بھی رہے۔اختلاف ہی نہیں سیاسی دشمنی کہیے۔حلقہ این اے 149ملتان دونوں کا میدانِ کشاکش ہے۔ وہ جاوید ہاشمی سے ایک ماہ پہلے تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے لیکن ہم جماعت ہونے پر بھی حریفانہ کشمکش نہ گئی۔لیکن اس وقت وہ سب اختلاف بھلا کر ایک ہم عصر کی عیادت کے لیے آئے ہیں۔ ان کے ساتھ والی کرسی پر شیخ رشید بیٹھے ہیں۔ یہ بھی جاوید ہاشمی کے ہم عمر اور سیاسی حریف ہیں۔ مزاجوں اور انداز سیاست میںبہت فرق ہے۔دونوں ایک دوسرے کو سیاسی میدان میں للکارتے رہے ہیں۔پرانے پنڈی کے حلقے این اے55 سے‘ جس پر ہمیشہ سے دعویٰ شیخ رشید کا ہے ‘جاوید ہاشمی نے 2008ء میںشیخ صاحب کے مقابلے میں انتخاب لڑا اور جیتا۔ شیخ صاحب کے لیے یہ ایک نہ بھولنے والی شکست تھی۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) میں بھی ہم جماعت رہے لیکن دل کبھی نہ ملے۔لیکن ہاشمی صاحب کی بیماری ایسا موقع تھا جب شیخ صاحب سب بھول کر ان کی عیادت کے لیے چلے آئے۔ شیخ رشید کے ساتھ مخدوم یوسف رضا گیلانی بیٹھے ہیں۔ملتان کے تیسرے مخدوم اور سیاسی ستون۔یہ بھی نظریاتی اور عملی طور پر جاوید ہاشمی کے مخالف ہیں لیکن یہ خود اپنی اور اپنی جماعت پیپلز پارٹی کی نمائندگی کرنے اور عیادت کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے ہاشمی صاحب کو دیکھنے اور پوچھنے آئے ہیں۔ ان سب سے ذرا ہٹ کر وزیر اعظم شہباز شریف بیٹھے ہیں۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے لیے ہاشمی صاحب کی خدمات کے معترف ہیں۔ جب دونوں شریف برادران معاہدہ کرکے سعودی عرب چلے گئے اور مسلم لیگ (ن) لاوارث رہ گئی تو ہاشمی صاحب ہی تھے جنہوں نے اس منتشر جماعت کو سنبھالے رکھا اور پرویز مشرف کی مطلق العنانیت کو بآواز بلند چیلنج کیا۔ قید و بند‘ تشدد‘جیل ‘ عقوبت خانے‘ بھٹو دور سے ان کے جانے پہچانے تھے اور وہ ان سے ڈرنے والے نہیں تھے۔ ایک بار پھر انہی آزمائشوں سے گزر کر سرخرو ہوئے۔خیال تھا کہ آزمائشی دور ختم ہونے پر میاں صاحبان انہیں اعتراف میں کسی بڑے منصب کے لیے نامزد کریں گے ‘لیکن یہ بس خیال ہی تھا۔ جاوید ہاشمی صاحب کا مزاج کہیے یا حق گوئی کی عادت ‘یہ یہاں بھی سد ِراہ بن گئی۔ اور پھر بڑے منصب تو شریف خاندان کے اپنے حق ہیں۔ کسی بڑے رہنما کا ان سے کیا تعلق۔ہاشمی صاحب تحریک انصاف سے جدا ہوکر دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں گئے لیکن جیسے نہ گئے ہوں۔ (ن) لیگ نے باقاعدہ انہیں قبول کیا یا نہیں ‘ یہ بھی علم نہیں لیکن سننے میں آیا تھا کہ میاں شہباز شریف کا رویہ نرم اور احترام والا ہے۔خیر میاں شہباز اور عمران خان ایک دوسرے سے آنکھیں تو نہیں ملا رہے لیکن جاوید ہاشمی کے اعتراف اور عیادت کے لیے اکٹھے ہیں۔ وزیر اعظم کے ساتھ خواجہ سعد رفیق ہیں۔
یہ تصویر دیکھ کر میری آنکھیں نم ہوگئیں۔ یہ بلند حوصلگی ‘اختلاف کو حدود میں رکھنے اور ہم وطن سیاسی رہنما کو اس کی مسلسل کاوشوں پر خراجِ تحسین ادا کرنے کی تصویر تھی۔ یہ بڑے دلوں اور بڑے دماغوں کی تصویر تھی۔یہ پاکستان سے محبت کرنے والے ایک پر خلوص دل کے لیے اعترافی تصویر تھی۔یہ اس بات کی علامت تھی کہ ایک دوسرے کے خلاف کچھ بھی کہا گیا ہو‘ ایک نکتے پر سب متفق ہیں اور وہ ہے حب الوطنی ‘پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت۔ چند چہروں کی یہ تصویر ہم سب کی تصویر تھی۔میں جاوید ہاشمی کے کمزور چہرے کو تکتا رہا اور پھر میرے آنسو نکل آئے۔ آنکھوں سے کچھ قطرے ڈھلکنے کی دیر تھی کہ تصویر غائب ہوگئی۔ میرے دل و دماغ نے اپنی خواہش کے مطابق جو تصویر بنائی تھی ‘وہ حقیقی تھی ہی نہیں تو غائب کیسے نہ ہوتی۔ حقیقی تصویر نے اس کی جگہ لے لی جس میںایک بہادر آدمی جاوید ہاشمی کا چہرہ تھا اور پی ٹی آئی کے باوقارصاحبِ دل رہنما علی محمد خان کا چہرہ۔وہ اپنی وضع داری نبھانے آئے تھے۔اور کوئی نہیں تھا۔ کوئی بھی نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔ آنسو اور تیزی سے بہنے لگے۔ تصویر حقیقی نہ ہونے کا دکھ۔ غائب ہونے والی شخصیات کے چھوٹے ‘بہت چھوٹے‘ بہت ہی چھوٹے ہونے کا دکھ۔کاش‘ اے کاش‘ اے کاش۔
میں نے آنکھیں بند کیں اور خیال کا تیز رفتار گھوڑا مجھے لے اڑا۔ جب اس نے مجھے سمن آباد موڑ‘لاہور پر میرے آبائی گھر کاشانۂ زکی میں اتارا تو میں 1972-73ء میں تھا اور سکو ل کا بچہ تھا۔ ہمارے گھر کے گول کمرے یعنی ڈرائنگ روم میں بڑے سیاسی رہنمامولانا ظفر احمد انصاری دیوان پر بیٹھے ہوئے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم رہنما حفیظ خان اور جاوید ہاشمی ان سے ملنے آئے ہوئے تھے۔اور وہ سیدھے تھانے یا جیل سے رہا ہوکر انصاری صاحب سے ملنے آئے تھے۔غالباً ان کی رہائی بھی انصاری صاحب کی مرہون منت تھی۔ جاوید ہاشمی پہلی بار ہمارے گھر نہیں آئے تھے۔ یہ آمد ایک تسلسل کا حصہ تھی۔ ہاشمی صاحب اس زمانے میں ہمارے گھر کے سامنے جناب مجیب الرحمٰن شامی کے گھر رہا کرتے تھے اور ان کا ہمارے گھر مستقل آنا جانا تھا۔وجہ انصاری صاحب بھی تھے اور میرے والد زکی کیفی بھی۔ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانے میں اس محلے میںٹیلی فون گنے چنے گھروں میں تھے اور ہمارا گھر ان میں ممتاز تھا۔ ان دنوں ہمارے گھر زکی صاحب کے دوستوں کی دعوتوں کا جاوید ہاشمی مستقل حصہ تھے۔ان دنوں کا ذکر اور بڑا محبت والا اعتراف ہاشمی صاحب نے بھی اپنی کتاب میں کیا ہے۔ زبانی بھی ان کی محبت ہمارے گھرانے کو بہت ملتی رہی ہے۔ اب تک یاد ہے کہ ایک بار ہاشمی صاحب فون کرنے کے لیے سردیوں کی ایک شام موٹی چادر کی بکل مارے آئے اور گھنٹی بجائی تو میں انہیں پہچان نہیں سکااور میں نے ان سے معذرت کرلی۔ بعد میں میرے والد کو اطلاع ہوئی تو میری خوب خبر لی گئی۔اس کے بعد کافی دن تک میں شرم اور گھبراہٹ کی وجہ سے ہاشمی صاحب کے سامنے نہیں آتا تھا۔ لیکن خوب صورت ‘ سرخ سفید‘وجیہ‘ خوش قامت‘ خوش پوش اور خوش گفتارجاوید ہاشمی کے طلسم سے کتنی دیر تک بچا جاسکتا تھا۔ انہیں قریب سے دیکھنا اور سننا تو ایک ناقابل فراموش تجربہ تھا۔اور وہ مناظر سکول کے بچے کے دل میں آج تک دھڑکتے ہیں۔جاوید ہاشمی کا چہرہ کمزور سہی ‘آج بھی حسین ہے۔ اللہ انہیں توانائیوں کے ساتھ لمبی عمر عطا کرے۔
جناب جاوید ہاشمی! شدید افسوس ہے کہ میں نے خیال و خواب میں جو تصویر دیکھی وہ فرضی نکلی۔چہرے غائب ہوگئے۔لیکن آپ کا چہرہ غائب ہونے والوں میں نہیں۔ آپ حقیقی تھے‘ حقیقی ہیں اور حقیقی رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved