انتخابی مہم میں وزیراعظم نواز شریف نے انڈیا سے تنازعات سلجھانے اور دوستانہ تعلقات کا نعرہ بلند کیا تھا۔ اس سے پہلے ہی اگست 2011ء میں سیفما کے ایک اجلاس میں وہ اعلان کر چکے تھے کہ صرف ایک لکیر دوقوموں کے درمیان حائل ہے ؛حتیٰ کہ دونوں ایک ہی خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ الیکشن جیت چکے تو بھارت نے فوراً ہی غیر معمولی جوش و خروش سے انہیں مبارک باد دی۔ جواباً من موہن سنگھ کو وزیر اعظم کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی گئی ۔ 1999ء میں شریف حکومت کا تختہ الٹے جانے سے قبل کی صورتِ حال یاد آتی ہے ۔ اٹل بہاری واجپائی کا دورہء پاکستان، کارگل اورپھر 9برباد برس۔ برطانیہ سے آزادی کے ساتھ کانگریس ایک متحدہ ہندوستان چاہتی تھی ۔ اس کی یہ معصوم خواہش ایسی ناجائز بھی نہ تھی۔ مسلم اقلیت نے سینکڑوں برس ان پہ حکومت کی اور پھر 100برس تک وہ انگریز مخلوق ، سازش کرنے میں جو انہیں مات دے گئی ۔ قائد اعظمؒ کا انتخاب کرنے والے ، ہندو اور انگریز کی رگ رگ سے واقف علامہ اقبالؔؒ بہت پہلے ہی واضح کر چکے تھے کہ علیحدہ وطن کے علاوہ انتقام سے محفوظ رہنے کا اور کوئی راستہ نہیں۔ مکر وفریب کی دنیا سے ناواقف قائد اعظم ؒ پر بالآخر صورتِ حال واضح ہونے لگی اور تصوراتی دنیا سے وہ باہر نکل آئے۔ایک عظیم سپہ سالار یکسو ہو چکا تھا ۔ ادھر عالمی جنگ کی تباہ کاریوں نے تاجِ برطانیہ کے سارے کس بل نکال دئیے تھے ۔دو آزاد ممالک نے آنکھ کھولی اور اس حال میں کہ ان میں سے زیادہ قوت والا دوسرے کے خون کا پیاسا تھا۔ خود سے الگ ہونے والے پاکستان کو وہ پھر سے نگلنا چاہتا تھا اور یہ پاک بھارت دشمنی کی آہنی بنیاد ہے ۔ ایٹمی دوڑ کا آغاز 1948ء میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے کیا تھا۔ 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1974ء تک کوئی پیش رفت نہ ہو سکی ؛حتیٰ کہ انڈیا نے ایٹمی دھماکہ کر ڈالا اور دو لخت پاکستان کانپ اٹھا۔تین برس قبل مشرقی پاکستان کی علیحدگی بظاہر پاکستان کی اندرونی جنگ تھی لیکن یہ بھارتی شہ تھی ، جس کے بل پر شیخ مجیب الرحمٰن کرتب دکھا رہا تھا۔ بھارت نے ڈنکے کی چوٹ پر مداخلت کی ۔بالآخر 90000پاکستانی جوانوں کو بھارتی سینا کے سامنے ہتھیار پھینکنا پڑے۔دو سیاستدانوں اور ایک جنرل کی ہوسِ اقتدار نے ملک توڑ ڈالا ۔ روایتی جنگ میں بھی ہم چھ گنا بڑے دشمن سے طویل جنگ کے متحمل نہ تھے ، کجا کہ اس کی بغل میں ایٹم بم دھرا ہو۔ مئی 1998ء میںبھارت نے ایک بار پھر پانچ ایٹمی دھماکے کیے ۔اس کے ساتھ ہی بھارتی سیاستدانوں اور میڈیا کو گزری صدیوں کے انتقام کی آرزو نے پاگل کر ڈالا ۔ سترہ دن بعد بلوچستان میں چھ ایٹمی تجربات کیے گئے ۔ بھارتی جنون کا انجام یہ ہے کہ دو پسماندہ ترین ممالک عوام کی بنیادی ضروریات پہ خرچ کرنے کی بجائے ایٹمی اور میزائل پروگرام پہ روپیہ لٹا رہے ہیں ۔ہمارا گزشتہ دفاعی بجٹ 15فیصد اضافے کے ساتھ 6.27ارب ڈالر کا تھا ۔ انڈیا اس سے پہلے ہی 21فیصد اضافے کے ساتھ 42.7ارب ڈالر پہ پہنچ چکا ہے ۔ پاک بھارت جنگوں کی بنیاد 1947ء میں تقسیم کے وقت ہی رکھ دی گئی تھی۔ کسی بھی علاقے کی پاکستان یا بھارت میں شمولیت کی بنیاددو عوامل پر تھی ۔ ہندو یا مسلم اکثریت اور علاقے کے عوام کی رائے۔ کشمیر کے باب میں ان عوامل کو ملحوظ نہ رکھا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ66برس سے مسلسل وہاں خون بہہ رہا ہے اور مستقبل قریب میں کسی بہتری کی امید بھی نہیں ۔ آزادی کے فوراً بعد یہی ریاست پہلی اور پھر 1965ء میں دوسری جنگ کا باعث بنی۔مئی 1999ء میں کارگل کی حماقت کا باعث بھی یہی مسئلہ تھا، بعد میں جس کی وجہ سے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ خود پرویز مشرف کے دور میں کشمیر پر پیش رفت کے لیے پاکستان کی طرف سے غیر معمولی لچک دکھائی گئی لیکن کچھ بن نہ پایا۔ وقتاً فوقتاًمسئلہ کشمیر کو سردخانے میں ڈالتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان دیگر تنازعات حل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ثقافتی ، تجارتی اور عوامی روابط ، نتیجہ مگر ڈھاک کے تین پات۔ انڈیا ہمیشہ سے کشمیر کو اپنا \"اٹوٹ انگ\"قرار دیتا رہا ہے ۔ یہاں مگر کچھ سوالات جنم لیتے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں کارِ سرکار چلانے کے لیے کتنی بھارتی فوج کی ضرورت ہے اورپاکستان کے زیرِ انتظام علاقے میں کتنے جوان موجود ہیں؟ وہاں آزادی کی تحریک عشروں سے چل رہی ہے مگر یہاں اس کا شائبہ تک نہیں ۔ پھر یہ کہ بھارتی کشمیر میں 90 ہزار انسان کیوں قتل ہو ئے ؟ کشمیر کے علاوہ بھی تنازعات موجود ہیں لیکن سب سے بنیادی مسئلہ بہرحال یہی ہے ۔ اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ اقوامِ متحدہ کے زیرِ نگرانی ایک ریفرنڈم میں ریاست کے عوام اپنا فیصلہ صادر کریں ۔ یہ دونوں طرف کی حکومتوں ، سیاستدانوں اور میڈیا کی ذمہ داری تھی کہ اشتعال انگیزی کی بجائے امن اور بقائے باہمی کاحصول یقینی بنایا جاتا۔ اس کی بجائے جارحانہ بیانات کے ذریعے سستی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ میڈیا کے لیے یہ اشتہارات کا ذریعہ ہے اور سیاستدانوںکے لیے ووٹ کا۔ پاکستان میں بھی جذبات بھڑکانے اور دہلی کی فتح کے کچھ خواہشمند موجود ہیں مگر بھارت کی نسبت ان کی تعداد بہت کم ہے ۔ اس وقت جب پاکستانی میڈیا کا ایک حصہ امن کا ایک تماشہ سجائے بیٹھا تھا، برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق بھارتی ٹی وی چینلوں پر یہ بحث جاری تھی کہ پاکستان کے بڑے شہر تباہ کرنے کے لیے کتنا وقت درکار ہے ۔سبکدوش بھارتی فوجی جنگ اور انتقام کے شعلے بھڑکاتے نظر آرہے ہیں اور ریٹائرڈ آرمی چیف مذاکرات نہ کرنے کے مفت مشورے عنایت کر رہے ہیں ۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان دونوں ہی اعلیٰ تربیت یافتہ فوج ، ایٹمی اور میزائل پروگرام رکھتے ہیں اور کسی بھی جنگ کی صورت میںنقصان دو طرفہ ہوگا۔ اس بات کو فی الحال جانے دیجئے کہ کارگل کے بعد انڈیا میں دہشت گردی کے تین بڑے واقعات ، پارلیمنٹ ، سمجھوتہ ایکسپریس اورممبئی حملوں کے پیچھے بالآخر ہندو انتہا پسند یا بھارتی سرکار کا چہرہ نظر آیا۔حالیہ جارحانہ روّیے کی توجیہ یہ کی جا رہی ہے کہ انڈیا میں یہ الیکشن کا سال ہے ۔ حالیہ انتخابات میں کسی پاکستانی سیاسی جماعت کی طرف سے ایسا روّیہ اختیار نہیں کیا گیا اور یہ خوش آئند ہے۔پاکستانی سیاستدان اور میڈیا بردباری کامظاہر ہ کر رہے ہیں ؛اگرچہ بعض پر امریکی منصوبے کے تحت بھارت نوازی کا الزام ہے ۔ کسی کو شبہ نہ ہونا چاہیے کہ تمام تر ہتھکنڈے آزمانے کے بعد بالآخر ایک دن پاک بھارت سیاسی قیادت مذاکرات ہی کے ذریعے تمام تنازعات سلجھائے گی ۔ یہ اس وقت ہوگا ، جب دونوں اطراف کی سول سوسائٹی اور فعال طبقات اپنی اپنی طرف کے حکام کو اس پر مجبور کر ڈالیں گے ۔ فی الحال تو کسی بڑی مثبت پیش رفت کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں ۔فی الحال جنوبی ایشیا کے دو ہمسایہ ایٹمی ممالک کے درمیان مستقل بنیادوں پر دوستانہ تعلقات کا حصول خواب ہی رہے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved