دو برس تک جاری رہنے والی کورونا کی وبا نے دنیا کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ اس وبا کے دوران دنیا بھر میں معیشتوں کا تیا پانچا ہوا۔ ترقی یافتہ دنیا کو بھی اچھا خاصا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ یہ نقصان وہ ممالک جھیل گئے کہ جن کے پاس زرِ مبادلہ کا سرپلس اچھا خاصا تھا۔ یوں بھی فطری علوم و فنون میں بے مثال پیش رفت کی بدولت ترقی یافتہ دنیا بہت سے معاملات میں اب تک بھرپور ایڈوانٹیج کی حامل ہے۔ کورونا کی وبا نے پس ماندہ ممالک کو ڈھنگ سے سانس لینے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے جو غیر معمولی محلِ وقوع کا حامل ہونے کے باوجود سنبھل نہیں پایا۔ سٹریٹیجک ایڈوانٹیج کا حامل ہوتے ہوئے بھی سری لنکا اپنی معیشت اور سیاست‘ دونوں کو سنبھالنے میں ناکام رہا ہے۔ سری لنکا اس بات کا کلاسک نمونہ ہے کہ اگر حکومتی یا ریاستی مشینری نا اہل ہو اور اہلِ سیاست میں قومی تعمیر کا عزمِ مصمّم نہ پایا جاتا ہو تو غیر معمولی محلِ وقوع اور سٹریٹیجک ایڈوانٹیج بھی کچھ کام نہیں آتا۔
افریقی ممالک کی حالت تو پہلے ہی بہت خراب تھی۔ کورونا کی وبا نے اُنہیں مزید بگاڑ دیا بلکہ اَدھ مُوا کردیا۔ ایشیا کی بیشتر معیشتوں کا بھی یہی حشر ہوا۔ نیپال کے معاملات بھی ایسے بگڑے کہ سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے۔ بنگلہ دیشی حکومت بہت سے معاملات میں لیپا پوتی سے کام لیتی ہے وگرنہ معاملات تو وہاں بھی حوصلہ شکن ہی ہیں۔ عام بنگالی کو معیاری انداز سے جینا اب بھی نصیب نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایشیا اور بالخصوص جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش بہت سنبھلا ہوا ملک ہے اور اُس کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی معقول ہیں۔ بنگلہ دیشی کرنسی مضبوط تو ہے مگر یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے کہ اُسے مضبوط بنانے کے لیے دوسرا بہت کچھ کمزور کیا گیا ہے! خیر‘ دنیا بھر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اپنی جگہ اور ہمارے حقائق و حالات اپنی جگہ۔ ہمیں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اپنی فکر لاحق ہونی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کورونا کی وبا سے ہم نے کیا سیکھا یا یہ کہ اس وبا نے ہمیں کیا سکھایا۔ بقول اطہرؔ نفیس ؎
اطہرؔ! تم نے بھی عشق کیا، کچھ تم ہی کہو کیا حال ہوا
کوئی نیا احساس ملا یا سب جیسا احوال ہوا
پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جن کی معیشت کسی بھی اعتبار سے اتنی مضبوط نہیں کہ کسی بڑے دھچکے کو آسانی سے جھیل سکے۔ کوئی بھی بحران اچانک کہیں سے وارد ہوتا ہے اور ہماری معیشت کو ہلا دیتا ہے۔ یاروں نے مل کر ملک کو بحرانوں کی آماجگاہ میں بدل رکھا ہے۔ ایک بحران ختم نہیں ہوا ہوتا کہ دوسرا سر اٹھانے لگتا ہے۔ یہ سب کچھ اِتنے تواتر سے ہوتا آیا ہے کہ اب عوام نے اصلاحِ احوال کے حوالے سے پُرامید رہنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ شدید مایوسی کی کیفیت نے دل و دماغ کو جکڑ رکھا ہے۔ کتنا ہی سوچیے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی بھی مسئلے یا بحران کے حل کی راہ کیسے نکلے گی۔ جہاں بیشتر معاملات پریشان کن حد تک خراب ہوچکے ہوں وہاں پُرامید رہنا انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔ پاکستانیوں کو ایک قوم کی حیثیت سے بہت کچھ سیکھنا ہے مگر اِس سے پہلے تو اُنہیں یہ سیکھنا ہے کہ وہ محض افراد کا گروہ یا ہجوم نہیں بلکہ قوم ہیں۔ قوم ہونے کا احساس ہم میں بہت ہی کم پایا جاتا ہے۔ مختلف النوع وفاداریاں، جھکاؤ اور تعصبات ہمیں اب تک گھیرے ہوئے ہیں۔ ہم چاہتے ہوئے بھی بہت سے منفی تصورات کے دائرے سے نکل نہیں پارہے۔ کوئی برادری میں اٹک جاتا ہے تو کوئی نسل میں۔ ان دونوں سے بچ نکلنے پر بھی کوئی طبقے کا اثر قبول کرتے ہوئے خود کو محدود کرلیتا ہے۔ قوم کا حال یہ ہے کہ زمین پر پاؤں ٹک نہیں پارہے ہوتے اور ستاروں کو چھونے کی تمنّا دل میں انگڑائیاں لیتی رہتی ہے! ایسے میں ہم کیا کرسکتے ہیں اِس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ دنیا دیکھ ہی رہی ہے کہ ہم غیر معمولی محلِ وقوع اور اچھے خاصے سٹریٹیجک ایڈوانٹیج کے حامل ہوتے ہوئے بھی کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ صلاحیت و سکت کے معاملے میں بھی ہم کسی سے کم نہیں مگر چونکہ مجموعی طور پر پورے معاشرے میں عدم استحکام ہے، سیاسی شعور نہ ہونے کے برابر ہے، معاشرتی و اخلاقی اقدار شدید انحطاط کا شکار ہیں، لوگ دلجمعی سے کام کرنے کے عادی نہیں اور ملک کے لیے سوچنے کا رجحان برائے نام ہے اس لیے ہم عالمی برادری میں اپنے لیے قابلِ قدر مقام حاصل کرنے میں اب تک ناکام ہیں۔
وقت کی چال عجیب ہے۔ کتنی ہی کوشش کر دیکھیے، وقت کی چال کو سمجھنا بہت مشکل ہے‘ سوچ پوچھئے تو کم و بیش ناممکن ہے۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ وقت پَر لگاکر اُڑ رہا ہے۔ کبھی لگتا ہے وقت زمین میں گڑ گیا ہے۔ یہ سب کچھ ہماری اپنی ذہنی کیفیت کا کمال ہوتا ہے۔ بہر کیف‘ دونوں صورت میں ہمارے لیے ڈھنگ سے سوچنا اور کام کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس ہمیں حواس باختہ کردیتا ہے جبکہ وقت کے بالکل تھم جانے کا احساس بھی ہمیں بدحواسی ہی کی منزل تک لاکر ایک طرف ہٹ جاتا ہے اور ہم سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ کہاں جائیں‘ کیا کریں۔ اس وقت دنیا شدید الجھن میں ہے۔ بہت کچھ الٹ پلٹ گیا ہے۔ ایسے میں ہر ملک اپنے لیے پالیسیاں بھی بدل رہا ہے اور حکمت ہائے عملی بھی۔ سبھی کو اندازہ ہے کہ اگر اب زندہ رہنا ہے اور کچھ کرنا ہے تو واقعی کچھ کرنا ہوگا۔ محض باتیں بنانے سے کام نہیں چلنے والا۔ افریقہ اور دوسرے کئی خطے اس بات کی واضح مثال ہیں کہ اپنے آپ کو مضبوط نہ کیا تو دنیا کھا جائے گی۔ پاکستان جیسے معاشروں کے لیے اب ناگزیر ہے کہ سنجیدہ ہوں‘ سوچیں‘ پالیسیاں تبدیل کریں، تیزی سے بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ چلنے کی کوشش کریں یعنی خود کو بدلنے پر مائل ہوں۔ اگر کچھ کرنا ہے تو محض سوچنا نہیں بلکہ بہت کچھ کرنا بھی ہے۔ کورونا کی وبا کے دو سال ہمیں بہت کچھ سکھانے کے لیے کافی تھے۔ جنہیں سیکھنا تھا انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ہمارے جیسے معاشروں اور ریاستوں نے بظاہر کچھ بھی نہیں سیکھا۔ سری لنکا اور نیپال کی جو حالت ہے وہی حالت دوسرے بہت سے ممالک کی بھی ہونے والی ہے۔ بعض ممالک بہت مستحکم دکھائی دے رہے ہیں مگر اُن کا استحکام لیپا پوتی کے مانند ہے۔ ملمّع ایک یا دو رگڑوں میں اُتر جانا ہے۔ اِس کے بعد اصلیت سامنے آ جائے گی۔ ایشیا کے کئی ممالک لیپا پوتی کے مرحلے سے گزرنے ہی پر اب تک intact دکھائی دے رہے ہیں۔ کمزوری صرف پاکستان میں نہیں بلکہ بھارت، بنگلہ دیش، میانمار، تھائی لینڈ اور وسطی ایشیا کی ریاستوں میں بھی ہے۔ خلیجی ریاستیں خوش حالی کے دور سے گزر رہی ہیں۔ وہاں بھی مشکلات پیدا ہوئی ہیں مگر مشکلات کو برداشت کرنے کی سکت ابھی ہے اس لیے معیشت و معاشرت خرابی کی طرف نہیں جارہی۔
عالمی سیاست و معیشت پر امریکا اور یورپ کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔ چین نے روس کے ساتھ مل کر اِن دونوں پر 'وختہ‘ ڈالا ہوا ہے۔ چین نے چار عشروں کی بھرپور محنت کے نتیجے میں خود کو قابلِ رشک حد تک مضبوط کرلیا ہے۔ اب وہ روس کے ساتھ عالمی سیاست و معیشت میں اپنے لیے قابلِ رشک پوزیشن چاہتا ہے۔ چینی قیادت کو اندازہ ہے کہ امریکا ہر معاملے میں اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں اور یورپ بھی ہر معاملے میں خواہ مخواہ دخل دینے کے موڈ میں نہیں۔ ایسے میں چین اور روس کے لیے فیصلہ کن پوزیشن ممکن ہوسکتی ہے۔ امریکا اور یورپ اپنی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن کا پورا ادراک رکھتے ہیں۔ وہ چاہیں گے کہ یہ عمل تھوڑا سست پڑ جائے اور جو بالا دستی رہ گئی ہے وہ کچھ دیر مزید چلے۔ اس حوالے سے وہ کمزور ممالک کو کسی نہ کسی طور اپنی طرف رکھنا چاہتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ کمزور ممالک بڑوں کی لڑائی میں ملوث ہونے سے باز رہیں اور اپنے آپ کو بدلیں، مضبوط بنائیں تاکہ اُن کی بات بھی کسی نہ کسی حد تک سنی جائے۔ پاکستان کو بھی تیزی سے بدلتے ہوئے وقت سے بہت کچھ بہت تیزی سے سیکھنا ہے۔ وقت رحم دل ہے نہ سفاک۔ ہم سب اپنا اپنا بویا ہوا کاٹتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved