عملی سیاست کا پہلا اصول ہے کہ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں کسی بڑی پارٹی کے خلاف اپوزیشن تو متحد ہوکر کرسکتی ہیں لیکن بڑی پارٹی کو اقتدار سے نکال کر حکومت نہیں کرسکتیں۔ اس کو یوں سمجھ لیجیے کہ2008 ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے پاس قومی اسمبلی میں 125 نشستیں تھیں‘ گویا دیگر تمام جماعتیں اگر چاہتیں تو مل کر حکومت بنا لیتیں اور پیپلزپارٹی اپوزیشن میں بیٹھتی۔ ذرا تصور کیجیے کہ یہ ہوتا توپاکستان میں کیا ہوتا؟ اسی طرح 2013 ء کے الیکشن کے بعد قومی اسمبلی میں مسلم لیگ( ن) کے پاس ایک 190 سیٹیں تھیں۔جس طریقے سے تحریک انصاف کے اندر حال ہی میں منحرف ارکان بنائے گئے ہیں‘ اسی طرح تھوڑی سی محنت کرکے مسلم لیگ( ن) کے بیس اراکین اسمبلی ادھر سے ادھر چلے جاتے‘ تحریک انصاف پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنا لیتی اور مسلم لیگ (ن) اپوزیشن میں بیٹھ جاتی تو کیا ہوتا؟ سیدھی سی بات ہے کہ ملک میں افراتفری پیدا ہوتی۔ جب یہ اصول ٹوٹ گیا تو پھربعد کے حالات کی ذمہ داری انہی پر آن پڑی جنہوں نے یہ اصول توڑا تھا۔ لاکھ کہیں کہ عدم اعتماد کا ذکر تو دستور میں بھی ہے اور اتنے لوگو ں کو ملا کر حکومت بنائی جاسکتی ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ استدلال جمہوری طور پر قابلِ قبول نہیں۔یہ بالکل ایسی ہی دلیل ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ میں نے ڈرائیونگ لائسنس لے لیا ہے لہٰذا اب مجھے لوگوں کو اپنی گاڑی کے نیچے روند دینے کا حق بھی حاصل ہوگیا ہے۔
سیاست کا دوسرااصول ہے کہ حکمرانوں کے بیانیے میں تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری سیاست میں چھوٹے موٹے تضاد ات ہر سیاستدان کے بیانیے میں پائے جاتے ہیں لیکن موجودہ حکمران اتحاد تو بنیادی طور پر ہے ہی تضادات کا مجموعہ۔ اس اتحاد نے موجودہ اسمبلیوں کو جعلی کہا‘ سات مارچ تک انہیں توڑنے کا مطالبہ کرتے رہے‘ عمران خان جس الیکشن کے ذریعے منتخب ہوئے اسے دھاندلی زدہ قرار دیتے رہے‘ حتیٰ کہ پاکستان کے اہم ترین اداروں کو عمران خان کا پشتیبان قرار دے کر تلخ ترین بیانات بھی جاری کیے گئے۔ جب صورتحال میں تبدیلی آئی تو سب کچھ بدل گیا۔ اتنے تضادات کے ساتھ اگر یہ حکومت چلتی رہتی ہے تو اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ یہ چل نہیں رہی‘ اسے چلایا جارہا ہے۔ سیاست کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب لوگ کے ذہن میں خیالات کروٹ بدلتے ہیں تو بہت کچھ بدلنے لگتا ہے۔ علامہ اقبال نے یونہی نہیں کہا تھا کہ ''جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود‘‘۔ پاکستان میں خیالات نے وہ کروٹ لے لی ہے جس کے نتیجے میں تبدیلی کا آنا ٹھہر گیا ہے۔ اس بنیادی اصول کو نظرانداز کرکے ہم صرف واقعات کا تجزیہ کررہے ہیں اور خطا کھا رہے ہیں۔ ایک خبر آتی ہے تو اگلے واقعے کے اندازے لگانے لگتے ہیں اور دوسری خبر آتی ہے تو پہلا واقعہ بے معنی لگنے لگتا ہے۔ حالات کا تھوڑا سا تموج‘ افراد کا معمولی سا تحرک ہم صحافیوں کے اوسان خطا کردیتا ہے۔سب ان معاملات کو شہباز شریف اور عمران خان کی باہمی کشمکش کے طور پر دیکھ رہے ہیں کوئی اس طرف توجہ نہیں کررہا کہ آخر ایسا ہو کیوں رہا ہے؟ حکومتوں کی اٹھا پٹخ تو پہلے بھی چلتی رہی ہے‘ اب ایسا کیا مختلف ہوگیا ہے؟ ان سوالات میں پوشیدہ جواب یہ ہے کہ زمانہ بدل رہا ہے۔ پاکستان میں دولت اور اختیار کی بے ڈھب تقسیم اب تک عوام کی نظروں سے اوجھل رہی ہے۔ کچھ خاص خاص لوگ ہوا کرتے تھے جنہیں اس کاریگری کا پتا تھا‘ وہ چپ رہتے تھے یا بولتے تھے تو خاموش کرادیے جاتے تھے۔ سمارٹ فون نے یہ قضیہ الٹ دیا ہے۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار اطلاع کی حد تک عام آدمی اور حکمران کے درمیان مساوات قائم ہوئی ہے۔ جس طرح پانی اپنی سطح برقرار رکھتا ہے بالکل اسی طرح موبائل فون کے ذریعے اطلاعات کی سطح میرے جیسے ادنیٰ صحافی سے لے کر وزیراعظم تک ایک سی ہوگئی ہے۔ جس بنیاد پر ملک کی معیشت کا فیصلہ کیا جانا ہے اس کا ڈیٹا اب میری رسائی میں بھی ہے‘ میں سوال اٹھا سکتا ہوں کہ ایک خاص فیصلے کی وجہ بننے والے اعدادوشمار کا تقاضا تو جدا تھا‘ فلاں فیصلہ کسی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے؟ اطلاعات کی اس مساوات کے منطقی نتیجے کے طور پر عام آدمی سمجھتا ہے کہ میرا وزیراعظم خود کو حکمران نہ سمجھے بلکہ مجھ سے کیے ہوئے وعدوں کا حساب دے۔ جولوگ عمران خان کے ساتھ چلتے نظر آتے ہیں‘ وہ یہی حساب مانگتے ہیں مگر ریاست پرانے تصورات کی اسیر ہوکر یہ حساب دینے سے گریز کررہی ہے۔ ریاست کے اکابرین کو اب تک یہی پتا نہیں چل سکا کہ افکارِ تازہ نے ایک نئے جہان کی بنیاد رکھ دی ہے۔ وہ اب تک پرانے خیالات میں مگن سمجھتے ہیں کہ انہیں سب پتا ہے حالانکہ بسا اوقات انہیں کچھ پتا نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک الیکشن ایک سیاسی چال ہے‘ جبکہ الیکشن ریاست کو نئے خیالات میں ڈھالنے کا نام ہے۔ یہ الیکشن کو ایک کا جانا اور دوسرے کا آنا سمجھ رہے ہیں‘ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں کہ ملک اور معاشرے کیلئے انتخابات کتنی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ انتخابات کے وقت کا تعین دستور کرتا ہے‘جبکہ دستور کی منشا ہے کہ جب بھی الجھ جاؤ‘ فیصلے عوام کی طرف لوٹا دو۔
جب سیاست اصولوں کے تابع ہونے کے بجائے صرف مفادات کی پیروی میں چلے تو حقائق نظر سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ خطرہ ضرورت سے زیادہ لگنے لگتا ہے یا کم۔ مثلاً چند دن پہلے ایک مجلس میں مجھے شفقت محمود اور اعجاز چودھری نے بتایا کہ تحریک انصاف اسلام آباد میں دھرنا نہیں دے گی لیکن حکومت نے ازخود ہی دھرنے کا سوچ لیا اور پچیس مئی کو پکڑ دھکڑ شروع کردی اورسارا ملک بند کردیا‘ جب دھرنا نہیں ہوا تو اسے اپنی کامیابی قرار دینے لگے۔ اسی طرح دھرنا نہ ہونے پر خوشی منانے والوں کو یہ علم ہی نہیں کہ دھرنا تو جاری ہے کیونکہ دھرنے سے پیدا ہونے والے تشنج میں حکومت مبتلا ہوچکی ہے۔ حکومت کو یہ سامنے کی حقیقت نظر نہیں آرہی کہ 2013 ء سے اٹھارہ تک عمران خان کے پاس قومی اسمبلی میں سیٹیں تو صرف تینتیس تھیں لیکن ان کی وجہ سے پانچ سال تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت مشکلات سے باہر نہیں نکل سکی۔ اس وقت تو حکومت میں شامل کوئی جماعت عددی اعتبار سے ان کے قریب نہیں پہنچتی اوراسمبلیوں کی مدت ختم ہونے میں وقت بھی کم رہ گیا ہے۔ ان حالات میں یہ حکومت اگرمستقبل بعید کے بارے میں سوچ رہی ہے توکیا کہا جاسکتا ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ موجودہ حکومت کا معیشت کی بہتری کیلئے اقتدار میں رہنا ضروری ہے تو یہ بات بھی پچھلے ڈیڑھ مہینے میں غلط ثابت ہوچکی ہے۔ مفروضے کیلئے مان بھی لیں کہ موجودہ حکومت میں معیشت درست کرنے کی صلاحیت ہے‘ لیکن جب ملک کی سب سے بڑی پارٹی جلسے‘ جلوس اور احتجاج کررہی ہوگی تو حکومت کے اس دعوے کو کون مانے گا؟ معاشی استحکام تو سیاسی استحکام کی ضمنی پیداوار ہے‘ جب سیاسی استحکام ہی نہیں ہوگا تو معیشت میں بہتری کے منصوبے کاغذوں سے آگے نہیں بڑھتے اور سیاسی استحکام سوائے انتخابات کے ممکن نہیں ہوتا۔
انتخابی سیاست کے ایک طالبعلم کے طور پر میں یہ عرض کرسکتا ہوں کہ انتخابات کے نتائج کبھی کسی پارٹی کی توقع کے مطابق نہیں ہوتے‘ لہٰذا ان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت ہوتی ہے نہ غیرمعمولی کامیابی کی امید لگانے کی۔عین ممکن ہے کہ جب انتخابی مہم چلے تو عمران خان اپنی مقبولیت کی لہر برقرار نہ رکھ پائیں یا کچھ ایسا ہوجائے جو موجودہ حکومتی اتحاد کیلئے فائدہ مند ثابت ہو۔ دنیا کی جمہوری تاریخ میں یہ اصول بھی آزمودہ ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ملکوں کو ہمیشہ آگے کی طرف لے کر جاتے ہیں اور ان سے انکار کرنے والی طاقتیں آخرکار کہیں کی نہیں رہتیں۔ اگر ہماری حکومت الیکشن سے دامن بچاتی رہے گی تو عمران خان کا دھرنا چلتا رہے گا اور وہ تشنج بھی بڑھتا جائے گا جس میں یہ جوڑ جاڑ کر بنائی گئی حکومت مبتلا ہوچکی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved