مصر وہ سرزمین ہے جہاں مٹّی کے نیچے بھی اسرار ہیں اور زمین کے اوپر بھی۔نیل کی اس زرّیں اور زرد زمین نے دنیا کو حیران کر رکھا ہے۔ابھی تک میری آنکھوں کا مصر دیکھنے کا خواب پورا نہیں ہوا لیکن اس تشنگی کے باوجود مصر‘اس کی تاریخ اور اکتشافات سے میری دلچسپی بڑھتی گئی ہے۔مصر سے مراد تفریحی پارک‘ شاپنگ پلازا‘ساحل وغیرہ نہیں‘میں بالائی مصر نیل ڈیلٹا کے علاقے میں ' ' گوشن‘‘گیا جہاں بنی اسرائیل مصر میں آکر قیام پذیر ہوئے تھے۔اور جہاں ان رہائش گاہوں کے آثار برآمد ہوئیـ‘ جو مصر کے مقامی تعمیری انداز سے الگ ہیں۔میں ' ' رعمسیس اور فیثوم‘‘ سے گزرا جہاں تاریخی روایات کے مطابق عبرانیوں سے پر مشقت تعمیرات کا کام لیا گیا تھا۔ بادشاہوں کی وادی میں ملکہ ' ' نفر تیتی اور ہت شیپ ست‘‘کے مقبرے دیکھے اور قاہرہ کے قریب غزامیں ابوالہول اور تین سر بفلک اہرام کا مشاہدہ کیا۔
مصر کے بارے میں باقی حیرت انگیز دریافتوں کو چھوڑ یے‘ اہرام کی ہی بات کریں تو غزا کے اہرام مصر پر بنیادی سوالوں کے تسلی بخش جواب آج تک نہیں مل سکے ہیں۔خوفو (2509-2483 قبل مسیح)کا ہرم سب سے بڑا اور خفرے اور منکرے کے اہرام نسبتاً چھوٹے ہیں۔خوفو کے ہرم میں 23 لاکھ سے زیادہ پتھر کے بلاک لگے ہیں جن میں ہر ایک کا وزن دوٹن سے30 ٹن کے درمیان ہے۔اور کچھ بلاک 50 ٹن وزنی ہیں۔ لق و دق ریتیلے صحرا میں جہاں کوئی پہاڑ نہیں اتنے پتھر کہاں سے آئے؟ایک غیر تسلی بخش قیاس موجود ہے جس کے مطابق یہ پتھرقریبی علاقوں اور یوگنڈا وغیرہ کے پہاڑوں سے تراشے گئے اور دریائے نیل کے بہاؤ پر غزا لائے گئے۔ سوال یہ ہے کہ مصریوں کی لوہے کی دریافت سے پہلے اور پہیے کی ایجاد سے قبل محض تانبے کی چھینیوں اور ہتھوڑیوں سے کیا یہ کام ممکن تھا؟ خوفو کا ہرم 481 فٹ بلند تھا اور اسے لنکن ٹاور‘ لندن کی تعمیر سے پہلے 3800 سال تک یہ شرف حاصل رہا ہے کہ یہ روئے زمین پر انسان کی بنائی ہوئی بلند ترین تعمیر تھی۔اتنی اونچائی تک اتنے وزنی پتھر کیسے لے جائے گئے ؟ ان پتھروں کو اتنی خوبی سے تراش کرجوڑا گیا ہے کہ دو پتھروں کے درمیان کاغذ بھی داخل نہیں کیا جاسکتا۔بے وسائل انسانی ہاتھوں نے یہ ہنر کس طرح حاصل کیا؟ پتھروں کا جوڑنے والا مسالا پتھر سے بھی زیادہ سخت اور مضبوط ہے اور آج تک پتھروں کو جوڑے ہوئے ہے۔اس مصالحے کے اجزا کا موجودہ دور میں تجزیہ کیا جاچکا ہے لیکن اسے بنایا نہیں جاسکا۔آخر کیوں؟عام زندگی میں بھی اہرام کی مخروطی شکل میں رکھی ہوئی چیز زیادہ دیر تک محفوظ کیسے رہتی ہے اور مصری کیسے اس سے واقف تھے؟خوفو کی ممی کے لیے پتھر کا جو تابوت کنگز چیمبر میں موجود ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ موجودہ راستوں سے نہیں لے جایا جاسکتا؛چنانچہ لامحالہ یہ پہلے سے وہاںرکھ دیا گیا ہوگا۔جس بڑے پتھر سے یہ تابوت بنایا گیا اسے تراشنے اور سوراخ کرنے کے لیے غیر معمولی برمے درکار ہیں۔وہ کہاں سے مصریوں کے پاس آئے ؟ اہرام کی تعمیر کے بعد یہ ڈھانچہ ایک لاکھ چوالیس ہزار نہایت چمک دار پالش والے ڈھانپنے والے چونے کے پتھروں سے ڈھکا ہوا تھا۔ا ندازہ ہے کہ سورج کی شعاعیں منعکس کرکے یہ اہرام ہیرے کی طرح جگمگاتے ہوں گے اور شام اور فلسطین کے پہاڑوں سے بھی دیکھے جاسکتے ہوں گے۔ یہ روشنی اتنی زیادہ ہوگی کہ چاند سے بھی نظر آسکتی ہوگی چنانچہ قدیم مصری اسے ' ''اکھیت‘‘ یعنی عظیم روشنی کے نام سے بجا طور پر پکارتے تھے۔یہ منظر کیسالگتا ہوگا اور کیا یہ دوبارہ دیکھا جاسکتا ہے ؟اہرام کے کونے کے پتھر بال اینڈ ساکٹ اصول کے مطابق جوڑے گئے ہیں تاکہ تپش میں پھیلاؤ اور زلزلوں میں بھی ان کا کچھ نہ بگڑ سکے۔یہ اصول مصریوں کو ہزاروں سال قبل کیسے معلوم ہوا؟
غزہ کے تینوں اہرام ستاروں کے جھرمٹ جوزا یعنی اورین (Orion) کے تین روشن ترین ستاروں کی عین سیدھ میں ہیں۔جوزا قدیم مصری عقائد کے مطابق حیات بعد الممات کی دیوی اوسیرس (Osiris) سے وابستہ تھا۔بڑے ہرم کا رخ ٹھیک قطب شمالی کی طرف ہے۔مقناطیسی قطب شمالی نہیں بلکہ حقیقی قطب شمالی۔آج کے دور میں جدید ترین آلات کی مدد سے اہرام کے قطب شمالی کے رخ کا تعین کیا گیا تو اہرام کے رخ میں زاویے کی صرف 0.056 درجے کی غلطی ہے ا ور یہ بھی دراصل غلطی نہیں بلکہ قطب شمالی سرکتا اور اپنی جگہ بدلتا رہا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ مصری قطب شمالی کے رخ کا درست ترین تعین کرنا جانتے تھے۔لیکن کیسے؟ ادھر ہر کچھ دن بعد کوئی ایسا اکتشاف سامنے آجاتا ہے جو ذہن کو پھر متجسس کردیتا ہے۔ چند ماہ پیشتر ایک نئے مقبرے کی دریافت ہوئی جہاں سے انیس حنوط شدہ ممیاں برآمد ہوئیں یا اکتوبر 2017میں تعمیراتی کھدائی کے دوران ایک تالاب میں ڈوبے ہوئے رعمسیس کے دو حصوں میں منقسم سنگی مجسمے کی دریافت۔یا بڑے اہرام مصر کے اسرار کے بارے میں کوئی نئی دریافت۔
نومبر 2017میں خوفوکے ہرم کے تعمیراتی ڈھانچے کے بارے میں ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا۔جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال سے پتا چلا کہ کنگز چیمبر جہاں خوفو کی ممی رکھی گئی تھی کے عین اوپر ہرم میں ایک بڑا خلا موجود ہے۔153 فٹ لمبا اور 26 فٹ اونچایہ خلا عین گرینڈ گیلری کے سائز کا ہے جو کنگز چیمبر میں پہنچنے کا راستہ تھا۔ مزید یہ کہ ٹنوں وزنی پتھروں کو توڑے بغیر اس خلا تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں۔سائنس دان اسے کمرے یا گیلری کا نام دینے کے بجائے محتاط انداز میں خلا کہہ رہے ہیں۔ کیوں کہ انہیں ان سوالوں کے جواب معلوم نہیں جو اس خلا سے متعلق پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی اس خلا کا مقصد کیا ہے ؟کیا اس میں کچھ اشیا یا اجسام موجود ہیں ؟ آیا یہ ایک خلا ہے یا اسی کے اندر ایک سے زائد؟ وغیرہ۔یہ دریافت میون ریڈیوگرافی تکنیک کی مدد سے کی گئی۔یہ ٹیکنالوجی کیا ہے۔یہ بذات ایک دلچسپ میدان ہے لیکن اس پر بات پھر کبھی سہی۔مختصراً یہ کہ وہ کا سمک ایٹمی ذرات جو کائنات سے زمین پر بارش کی طرح ہر وقت برستے ہیں۔ان کی نقل و حرکت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔یہ ذرات خالی جگہ سے آسانی سے اور ٹھوس جگہ سے کم تعداد میں گزرتے ہیں اور ان کے مشاہدے کے ذریعے کسی تعمیر میں خالی جگہوں کا تعین کیا جاسکتا ہے۔خوفو کے ہرم میں یہی تکنیک استعمال کی گئی اور ہرم کے اندرون میں اس خلا کا علم ہوا۔اس سے پہلے مختلف اہرام میں شافٹس یا تنگ راستے معلوم تھے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ہوا پہنچانے کے راستے ہیں۔ اگرچہ بہت سے لوگ اس نظریے سے اختلاف رکھتے ہیں۔وہ لوگ جو ان اہرام کو صرف مقبرے نہیں سمجھتے ان کی حیرت انگیز تعمیری خصوصیات کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ فلاں راستہ فلاں ستارے کی سیدھ میں ہے اور جس زاویے پر ہے اس کا دراصل مقصد کیا ہے۔وہ اہرام کے انحناء سے زمین کا نصف قطرنکالتے ہیں اور چاروں کونوں کے ٹھیک وسط سے سورج کا نصف قطرماپتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ زمین کے مرکز سے اہرام کا فاصلہ ٹھیک اتنا ہی ہے جتنا قطب شمالی سے اہرام کا۔پھراہرام جس نقطے پر واقع ہیں وہ حیرت انگیز ہے۔شرقا غرباً عرض البلد (Parallel)اور شمالاً جنوبا طول البلد (Meridian) دنیا میں صرف دو مقامات پر اس طرح ملتے ہیں۔ ایک مقام سمندر میں ہے اور دوسرا بڑے ہرم کے بیچوں بیچ واقع ہے۔پوری زمین پر خشکی کے بڑے ٹکڑے کے عین بیچوں بیچ ان اہرام کا محل وقوع ہے۔بتایا جاتا ہے کہ جیومیٹری اور ریاضی پر مصریوں کو اتنا عبور تھا کہ وہ پائی (pi) اور فائی(phi)کی مقداریں درست طور پر جانتے تھے۔ یہ مقداریں اہرام کے زاویوں سے ٹھیک ٹھیک نکل آتی ہیں۔
اللہ اللہ! اس بے کنار کائنات کو تو الگ رکھیے‘ اس نیلے سیّارے کو تو چھوڑیے‘انسان خود کتنا جانتا ہے اپنے بارے میں ؟ اپنے ماضی کے بارے میں ؟ خود اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی چیزوں کے بارے میں؟
یہی جانا کہ کچھ نہ جانا ہائے؍ سو بھی اک عمر میں ہوا معلوم
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved