یاد نہیں پڑتا کہ میں پاک بھارت کشیدگی کا موجودہ ڈرامہ پہلے کتنی مرتبہ دیکھ چکا ہوں۔ یہ پرانا سلسلہ ہے‘ جو ہر دوچار سال کے بعد دیکھنے میں آتا ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور حکمران طبقے جب بھی مشکل میں پڑتے ہیں‘ تو انہیں اپنے لئے آسانی پیدا کرنے کاآسان طریقہ یہی نظر آتا ہے کہ باہمی کشیدگی کا سہارا لے کر اپنی آزمائش کا وقت گزارلیں۔ اب ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجہ تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ وجہ کوئی ہے ہی نہیں۔ بس اچانک ضرورت آن پڑی۔ بہانہ پیدا کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔ لائن آف کنٹرول کے روزمرہ واقعات ‘ جنہیں کبھی میڈیا میں جگہ نہیں ملتی‘ اچانک اخبارات اور ٹیلیویژن میں نمایاں جگہ پانے لگے۔ اس کھیل کی ابتدا چونکہ بھارت نے کی ‘ اس لئے کشیدگی بڑھانے کی ذمہ داری بھی بھارت کے حکمران طبقوں نے خود اٹھائی اور میڈیا نے جو سلسلہ شروع کیا تھا‘ سیاستدانوں نے آگے بڑھ کر اس میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا اور ان دنوں بھارت میں یہ اعلیٰ ترین سطح پر پسندیدہ شغل بن چکا ہے۔ بھارتی صدر نے اپنے یوم آزادی پر روایتی خطاب کے دوران پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ صبر کی بھی حد ہوتی ہے اور ہمارا صبر اپنی حد سے آگے نکل رہا ہے۔بھارتی وزیراعظم نے اپنی لال قلعے کی تقریر میں بھی پاکستان پر مہربانی کی اور فرمایا کہ ’’پاکستان جب تک بھارت مخالف سرگرمیاں نہیں روکتا‘ اس کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہو سکتے۔‘‘ وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے اپنے روایتی انداز میں پاکستان کو سبق سکھانے کی بات دہرائی۔ پاکستان کے حکمران طبقے اس مرتبہ کشیدگی میں اپنا کچھ فائدہ نہیں دیکھ رہے۔ اس لئے وہ بھارت کی تقلید کرنے کی بجائے ‘ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لیکن کب تک؟ بھارت کی طرف سے مسلسل اشتعال انگیزیاں آخر کار یہاں بھی ردعمل پیدا کریں گی اور امن کے گیت گانے والے سیاسی رہنمائوں کو آخر کار بھارت کی بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزیوں کے جواب میں اپنے شعلہ نوائی کے فن کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ دونوں ملکوں کے پاس ایک دوسرے کے خلاف الزامات کا بھاری سٹاک موجود ہے۔ لیڈر جب چاہیں اور جتنے چاہیں اپنے ذخیرے میں سے الزامات نکال کر انہیں دہرا سکتے ہیں۔ اس مرتبہ کشیدگی کی زیادہ ضرورت بھارت کے حکمران طبقوں کو ہے۔ وہاں دو ریاستی انتخابات سر پہ ہیں اور اگلے برس عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ حکمران جماعتوں اور اپوزیشن ‘ دونوں کے پاس بیچنے کے لئے کچھ نہیں۔ حکومت نے عوام کی مشکلات اور مسائل میں کوئی کمی نہیں کی اور نہ ہی ان کے حالات میں کوئی بہتری آئی ہے۔ اس کے برعکس نااہلی اور کرپشن کا شور برپا ہے۔ اپوزیشن اور میڈیا نے کرپشن کے ایسے ایسے قصے کہانیاں عوام کو سنائے ہیں کہ حکومت کے لئے اپنا دفاع کرنا دشوار ہو گیا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن‘ حکمران جماعتوں پر الزام تراشیوں کے سوا اور کچھ نہیں کر سکی۔ اس نے اپنی طرف سے کوئی ایسا پروگرام یا منصوبہ پیش نہیں کیا‘ جس سے عوام کو متاثر کیا جا سکے۔ اس کا زیادہ انحصار حکمران جماعتوں کی کرپشن پر ہو گا۔ لیکن یہ کھیل بھارتی عوام کے لئے نیا نہیں۔ عرصہ ہوا ہر الیکشن میں بھارتی عوام کو یہی کچھ پیش کیا جاتا ہے۔ وہ کرپشن اور الزامات کی تکرار سے بور ہو چکے ہیں۔ ایک بار پھر آزمودہ نسخہ استعمال میں لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ پاکستان کسی بھی اعتبار سے بھارت کے لئے خطرہ نہیں رہ گیا اور ہماری حکمران قیادت ‘ بھارت کے حکمران طبقوں کو کسی طرح کی ’’سہولت‘‘ مہیا نہیں کر رہی۔ اشتعال انگیزیوں کا جواب تحمل اور برداشت سے دیا جا رہا ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا آخر کار اسے بھی وہی لہجہ اختیار کرنا پڑے گا‘ جس کے لئے بھارتی قیادت پورا زور لگا رہی ہے۔ یہاں کی انتہاپسند جماعتیں اور لیڈر‘ عوام میں اپنا اثرورسوخ کھو چکے ہیں اور دہشت گردوں کی حمایت کر کے‘ وہ عوام میں اپنے رہے سہے اثرات بھی ختم کرتے جا رہے ہیں۔ ان کے پاس اپنی حیثیت ثابت کرنے کے لئے بھارت دشمنی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے بھارت دشمنی کا سودا بیچنے کے لئے بڑھ چڑھ کر شور مچانا شروع کر دیا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں بھی وہی بولی سنائی دے گی‘ جو بھارت میں بولی جا رہی ہے۔ پھر وہی دھمکیاں۔ ایک دوسرے کو سبق سکھا دینے کے نعرے۔ قومی سلامتی کو لاحق خطرات کے چرچے۔ پرانے الزامات کی تکرار۔ بھارت ‘پاکستان میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔ بھارت‘ پاکستان کو تباہ کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔سرحدوں پر معاہدوں کی خلاف ورزیوں کے الزامات اور اگر بن پڑا تو فوجوں کی دو طرفہ نقل و حرکت۔ عوام یہ ساری باتیں بار بار سن چکے ہیں۔ وہ اب نہ غصے میں آتے اور نہ مشتعل ہوتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ یہ دونوں طرف کے سیاسی لیڈروںکا پرانا حربہ ہے‘ جسے وہ خود پر آئے ہوئے ہر کڑے وقت میں استعمال کرتے ہیں۔ بھارتی سیاستدانوں کو آنے والے انتخابات کے لئے پاکستان دشمنی کا بخار تیز کرنا پڑے گا۔ یہ کام انہوں نے شروع کر دیا ہے۔ پاکستانی قیادت کو اپنا بھرم رکھنے کے لئے جوابی بخار چڑھانے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ وہ جلد ہی اپنا حصہ ڈالتی نظر آئے گی۔ اب پاکستان کے عوام بھی بار بار دیکھے ہوئے اس ڈرامے سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ لیکن حکمران طبقوں کے پاس میڈیا‘ اقتداراور اداروں کی طاقت موجود ہوتی ہے۔ جس کا وہ پوری شدت سے استعمال کرتے ہیں اور جیسی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں‘ کر لیتے ہیں۔ عوام کے پاس کوئی وسیلہ نہیں ہوتا۔ وہ اپنی امن پسندی کا اظہار نہیں کر پاتے۔ عوام منظم بھی نہیں ہوتے۔ اس لئے خاموش اور غیرمتحرک رہتے ہیں۔ حکمران طبقے‘ عوام کی خاموشی کو یہ کہہ کر اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں کہ ’’پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔‘‘ حکمران طبقے کشیدگی میں اضافہ کرتے کرتے‘ ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ جنگ کے بادل منڈلاتے ہوئے نظر آنے لگیں۔ عوام کو مجبوراً باور کرنا پڑتا ہے کہ ’’دشمن‘‘ ان کے ملک پر حملہ کرنے والا ہے۔ ان کے شہروں پر بم اور میزائل برسیں گے۔ ان کی بستیاں تباہ ہوں گی۔ ان کے کاروبار برباد ہوں گے اور ان کے بھائیوں کو وطن کی حفاظت کرتے ہوئے شہادتیں دینا پڑیں گی اور اس طرح عوام اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کرتے ہوئے‘ حکمران طبقوں کی بھڑکائی ہوئی آگ کے خوف میں مبتلا ہو کر‘ مخصوص مقاصد کے لئے پیدا کی گئی فضا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ لیکن جب کشیدگی کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے اور حکمران طبقے معمول کی زندگی بحال کرنے میں اپنا مفاد دیکھتے ہیں‘ توعوام کو اپنے جذبات کے آزادانہ اظہار کا موقع میسر آ جاتا ہے اور جب انہیں ایک دوسرے کے ملک میں جانے کی اجازت ملتی ہے‘ تو وہ بے ساختہ اپنی امن پسندی کے مظاہرے کرنے لگتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لئے حکمران طبقوں کو کوئی کوشش نہیں کرنا پڑتی۔ آپ نے بارہا دیکھا ہو گا کہ جب بھی پاکستان اور بھارت کے عوام کو میل ملاپ کی سہولت ملتی ہے‘ تو وہ بے ساختہ انسانی رشتوں کی بحالی کے عمل میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ عوام عموماً امن پسند ہوتے ہیں۔ باہمی میل جول پر یقین رکھتے ہیںاور انسانی رشتے قائم کرنا پسند کرتے ہیں۔ انسانی محبت وہ جذبہ ہے‘ جو ازخود جنم لیتا اور نشوونما پاتا رہتا ہے۔ محبت کے جذبے کو پھیلانے اور بروئے عمل لانے کے لئے نہ ریاستی طاقت کی ضرورت پڑتی ہے‘ نہ میڈیا کی اور نہ حکمران طبقوں کی طرف سے فراہم کردہ سہولتوں کی۔ عوام یہ سب کچھ خود کرتے ہیں۔ کبھی غور کیجئے گا ‘ آپ کو واضح طور سے محسوس ہو گا کہ کشیدگی‘ محاذآرائی اور جنگوں کے لئے حکمران طبقے‘ عوام کو تمام وسائل استعمال کر کے تیار کرتے ہیں۔ جبکہ بھائی چارے اور محبت کے لئے کسی کو کوشش نہیں کرنا پڑتی۔ یہ سب کچھ بے ساختہ بلکہ بے تابانہ ہوتا ہے۔ نہیںمعلوم کب تک حکمران طبقے‘ عوام کی محبتوں کے درمیان دیواریں کھڑی کرتے رہیں گے؟ کب تک اپنے عوام کو امن سے محروم رکھیں گے؟ اور کب تک انہیں محاذآرائیوں اور جنگوں کا ایندھن بناتے رہیں گے؟لیکن امن میں بھی ‘ امن کب نصیب ہوتا ہے؟ حکمران طبقوں کو جنگ کی ضرورت نہیں رہتی‘ تو مذہب کے ٹھیکیدار متحرک ہو جاتے ہیںاور وہ اپنے انداز میں نفرتوں کے شعلے بھڑکانے لگتے ہیں۔ ہندو‘ مسلم‘ سکھ‘ عیسائی کے نام پر خونریزی کی گنجائش نہ رہے‘ تو فرقہ واریت کے نام پر خونریزی ہونے لگتی ہے۔ -------------
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved