سارے بخار کانتیجہ ہم نے دیکھ لیا‘ پی ٹی آئی نے زور بہت لگایا ‘ پنجاب کے شہر تو سب کے سب محصور ہو کے رہ گئے ‘ اُس دن لگتا یوں تھا کہ ملک ہل کر رہ گیا ہے لیکن دیکھنا تو نتیجے کو چاہئے۔ نتیجہ یہ تھا کہ عمران خان اپنی بات منوا نہ سکا اورپوری رات کے مارچ کے بعد صبح اسلام آباد سے مایوس ہوکر لوٹنا پڑا۔اس امر کو جو بھی رنگ روغن دیا جائے نتیجہ یہی نکلتا ہے۔
یہ بیکار کی باتیں ہیں کہ پولیس نے بربریت کی یا دیواریں پھلانگ کر گھروں میں داخل ہوئی۔یہ مقابلہ آئین یا قانون کا نہیں تھا بلکہ طاقت کا تھا۔ ماننا پڑے گا کہ نون کی سرکار ڈٹی رہی اور کسی ہتھکنڈے سے پیچھے نہیں رہی۔پی ٹی آئی والے اسلام آباد داخل ہونے میں کامیاب تو ہو گئے لیکن پہنچتے پہنچتے تعداد وہ نہ تھی جس سے دھرتی لرز جاتی۔حکومت کے ڈٹے رہنے کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ مقتدروں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ آگے سویلین سرکار پیچھے مقتدرہ‘ حمایت میں کوئی رخنہ آتا تو سرکار کے پیر بھی ڈگمگانے لگتے۔ یعنی 2018ء میں پی ٹی آئی کی کامیابی کی وجہ ایک پیج تھا اور مارچ والے دن پی ٹی آئی کی ناکامی کی وجہ بھی وہی ایک پیج تھا۔البتہ ایک پیج کی نوعیت بدل چکی ہے‘ پہلے عمران خان کے حق میں تھی اب مخالف ہے۔
اس سارے قضیے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ الیکشن اپنے وقت پر ہوں گے ‘ اُن کی ٹائمنگ عمران خان ڈکٹیٹ نہ کر سکیں گے اور مخلوط حکومت اپنے پیروں پر زیادہ اعتماد سے کھڑی ہوگی۔ عمران خان کی ایک اور ڈیڈ لائن بھی سامنے ہے ‘ مارچ ختم کرتے ہوئے اُنہوں نے حکومت کو چھ دن کی مہلت دی کہ اس دوران الیکشن کا اعلان کیا جائے۔مارچ والا دن پی ٹی آئی کیلئے آسان نہیں تھا‘ پورا دن پی ٹی آئی کے ورکروں پر آنسو گیس کے شیل برستے رہے ۔ جنہوں نے اس جبرکا سامنا کیا اُن کی ہمت کو داد دینا پڑتی ہے لیکن یہ بھی عیاں ہے کہ مختلف شہروں سے قافلوں کو روکنے میں پولیس بہت حد تک کامیاب رہی۔ ابھی تو سانس بھی نہیں سنبھلے ‘ چھ دن بعد کس نوعیت کی کال دی جاسکتی ہے؟ پی ٹی آئی کو اپنی حکمت عملی پر غور کرنا پڑے گا ۔ جلسے اور بات ہے تحریک چلانا یکسر مختلف چیز ہے اور تحریک چلائے بغیر حکومتوں پر پریشر ڈالنا مشکل ہو جاتا ہے۔
مارچ اپنے اہداف پورے کرتا اور حکومت دباؤ میں آ جاتی تو کیا یہ ممکن تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی جاتیں؟ لیکن یہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مارچ کے ایک دن بعد وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرتے ہیں اور لوگوں کے بڑبڑانے کی آواز تو آتی ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔یعنی قیمتیں بڑھیں اور اس بڑھوتی سے مہنگائی کا ایک اور طوفان اُٹھے گا لیکن جیسا کہ ظاہر ہے عوام الناس کے پاس کوئی اور چارہ نہیں سوائے اس بڑھوتی کو تسلیم کرنے کے ۔ اور یہ تو شروعات ہے‘ آگے جاکر قیمتوں نے مزید بڑھنا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا ۔ رونا دھونا بڑھ جائے گا ‘ہم لوگ جو ٹی وی سکرینوں پر آتے ہیں ہم چیختے چلاتے رہیں گے اور جوش و جذبات میں شاید مکے بھی لہرائیں لیکن بس یہی کچھ ہوگا۔
اب تو لگتا یوں ہے کہ عمران خان کچھ زیادہ جلدی کر گئے ۔ اسلام آباد پر مارچ کا مطلب یہ ہے کہ فیصلہ کن نتائج حاصل کرنے جا رہے ہیں ۔ ملک میں بدامنی پھیلتی پھر تو اور بات تھی ۔ ٹرانسپورٹ رک جاتی ‘ سڑکیں بند ہوتیں ‘ شہری زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتی‘ بازار شٹرڈاؤن کرتے۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوااور ایسا کچھ ہونے کا امکان بھی نہ تھا۔ تاجر برادری یا ٹرانسپورٹ والے حضرات کسی بغاوت کے موڈ میں نہیں ۔ کاروبار چل رہے ہیں‘ طبقات کے طبقات ہیں اُن کے حالات اچھے ہیں اور پیسے بنائے جا رہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے ہٹنے سے پڑھے لکھے طبقات میں بے چینی ضرور تھی اور اسی بے چینی کے اظہار کیلئے عمران خان کے جلسوں میں اُن کی شرکت بھرپور تھی۔لیکن جیسے عرض کیا ہے کہ جلسے اور چیز ہیں اور احتجاج اور ہنگامہ کرنا الگ اقدام ہیں ۔مزید چھ دنوں میں حکومت نے تو کچھ نہیں ماننا ۔ راناثنا اللہ ‘ حمزہ شہباز اور مریم نواز یہ سب لوگ تو ایک دوسرے کو تھپکیاں دے رہے ہوں گے کہ دیکھیں ہم ڈٹے رہے اور ہم نے پی ٹی آئی کے مارچ کوکرش کر دیا۔ پہلے اگر ان کا اعتماد ہلا ہوا تھا‘ اب اُس میں ٹھہراؤ پیدا ہوچکا ہوگا۔اب انہوں نے کس مطالبے پر کان دھرنے ہیں؟مشکل تو اب عمران خان کیلئے ہوگی کہ اب کیا کیا جائے۔ جلسے ہو گئے ‘ مارچ بھی ہو گیا اب مزید اور کیا؟مزید جلسے کئے جاتے ہیں‘ اُن میں پہلے والی بات نہ ہوگی ۔ بڑے بڑے جلوس روز روز نہیں نکالے جاتے۔ یعنی پی ٹی آئی کو کچھ غوروخوض کرنا پڑے گا‘ دیکھنا پڑے گا کہ اب اُس کے پاس کون سے آپشن ہیں۔
ایک اور بات بھی ہے کہ فوری الیکشن کا بخار ملک سہہ نہ سکے گا ۔ آج الیکشن کرائے جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نکلے گا کہ آپ سخت معاشی فیصلے نہ کرسکیں گے۔ اور ان فیصلوں کو کئے بغیر ملک کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ پاکستان دیوالیہ پن کے قریب کھڑا ہے۔ یہ جو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھی ہیں‘ ناگزیر تھیں۔ مزید بھی بڑھیں گی۔ الیکشن کے موسم میں ایسے فیصلے کہاں ہوسکتے ہیں ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کرپشن زدہ لوگوں کو اقتدار میں بٹھا دیا گیا ہے‘ ڈرائنگ روموں میں بیٹھنے والوں کیلئے کرپشن بڑا مسئلہ ہوگا لیکن عام پاکستانیوں کو کرپشن کی عادت سی پڑ چکی ہے۔ تھانوں میں جانا پڑے تو پیسے دے کر کام نکلوانا پڑتا ہے ۔ تحصیل میں کوئی کام پڑے پیسے کے بغیر ہو نہیں سکتا ۔ واپڈا والوں نے کھمبے اور تاریں لگانی ہوں تو وہاں بھی کچھ نہ کچھ چائے پانی دینا پڑتا ہے۔ بازار جائیں تو دکاندار من مانی کرتے ہیں۔ ٹرانسپورٹر حضرات اپنی من مانیاں کرتے ہیں ۔ ایسے میں کسی حکومت کو جائز ہٹایا یا ناجائز ہٹایا‘ ایک ادبی نکتہ رہ جاتا ہے۔
ہاں‘ اُس دن بیس لاکھ لوگ اسلام آباد آ جاتے اور وہیں بیٹھ جاتے تو اور بات تھی۔ اسلا م آباد کے باسی ہی اُس دن صحیح معنوں میں گھروں سے نکل آتے پھر بھی کوئی بات بنتی۔لیکن جو لوگ عمران خان کے ساتھ تھے وہ تو زیادہ تر خیبرپختونخوا یا اٹک وغیرہ کے اضلاع سے تھے۔ باقی جگہوں سے پولیس نے لوگوں کو آنے نہ دیا۔ تو بس پھر لگتا یوں ہے کہ سیاست میں ایک جمود سا پیدا ہو جائے گا۔ پچھلے ہفتوں کی ہلچل ماند پڑ جائے گی۔ لوگوں کے ذہنوں پر اب موضوع مہنگائی کا ہو گا ۔ پاکستان کودرپیش بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ معاشی حالت کسی طریقے سے سنبھلے۔ جو نئے آئے ہیں یا جنہیں لایا گیا ہے اُن کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن کے خلاف کرپشن کے حوالے سے بڑے بڑے مقدمات قائم ہیں۔ نیب قانون میں تو وہ ابھی سے ترمیم کربیٹھے ہیں۔ اُن کی پہلی ترجیح یہی ہوگی کہ یہ بدبخت مقدمات کسی طریقے سے ختم ہوں ۔
اگر ہماری قسمت ہی یہی ہے اس کا کیا کیا جائے ؟ یہی ہمارے پاس لیڈر ہیں ‘ یہی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ انہی سے کام چلانا ہے۔ عمران خان مختلف تھے لیکن اپنے دورِ اقتدار میں اِتنے کامیاب حکمران ثابت نہ ہوسکے۔ اب بھی وہ ایک بہت بڑی سیاسی حقیقت ہیں لیکن کچھ صبر سے کام لینا پڑے گا۔ عشق کی منزلیں اور بھی بہت ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved