حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''بنی اسرائیل کی سیاست کاری (نظمِ اجتماعی کی تدبیر) انبیائے کرام انجام دیتے تھے، جب ایک نبی کا وصال ہو جاتا تو اس کے بعد دوسرا نبی آتا اور یقینا میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، سو (میری امت کے نظمِ اجتماعی کی تدبیر و تنظیم کا فریضہ انجام دینے کے لیے) خلفاء ہوں گے‘‘ (صحیح بخاری: 3455)۔ اس حدیث کی شرح میں علامہ بدر الدین عینی حنفی لکھتے ہیں: ''سیاست سے مراد اُن امور کا اہتمام کرنا جن میں امت کے لیے صلاح و فلاح ہو اور یہ اس لیے کہ جب بنی اسرائیل میں فساد برپا ہوتا تو اللہ تعالیٰ دفعِ فساد کے لیے نبی بھیجتا جو اُن کے معاملات کو راستی پر قائم رکھتا اور تورات کے احکام میں جو تحریف وہ کر چکے ہوتے‘ اُن کا ازالہ فرماتا‘‘ (عمدۃ القاری، جز: 16، ص: 43)۔
انبیاء کرام کی سیاست کاری کی مندرجہ بالا حکمت بیان کرنے کے بعد اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانی مزید لکھتے ہیں: ''اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رعایا کے لیے اس امر کا اہتمام ضروری ہے کہ اُن کے (نظمِ اجتماعی کے) معاملات کو قائم رکھا جائے اور انہیں راستی پر جاری رکھا جائے اور مظلوم کو ظالم سے انصاف دلایا جائے، نبی کریمﷺ کے اس فرمان: ''بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اگر میرے بعد نبی کا آنا ممکن ہوتا تو بنی اسرائیل کی طرح میری امت میں (آنے والے زمانوں میں) برپا ہونے والے فساد کی وہ نبی اصلاح کرتا (لیکن میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا)، سو انبیائے بنی اسرائیل کا نظمِ اجتماعی کی صلاح و فلاح کا کام سرانجام دینے کے لیے خلفاء ہوں گے‘‘ (فتح الباری: ج: 6، ص: 497)۔
اس سے معلوم ہوا کہ ملک و ملّت اور امت کے نظمِ اجتماعی اور مصالح کی تدبیر و تنظیم ضروریات میں سے ہے، کیونکہ اس کے بغیر انتشار و تفریق ہو گی، فساد برپا ہوگا، امن غارت ہو جائے گا، باطل کا غلبہ بھی ہو سکتا ہے، ظلم کا دور دورہ ہو سکتا ہے اور مظلوم کی داد رسی نہ ہو پائے گی۔ اسی لیے حدیث پاک میں ہے: ''حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص اپنے ماتحت لوگوں کی طرف سے جواب دہ ہے، سربراہِ ملک نگہبان ہے اور وہ اپنے ماتحت لوگوں کی طرف سے جواب دہ ہے، مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور وہ اپنے گھر والوں کی طرف سے جواب دہ ہے، عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے اور وہ اپنے ماتحت لوگوں کی طرف سے جواب دہ ہے، نوکر اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور وہ اپنے زیر تصرف چیزوں کی طرف سے جواب دہ ہے اور میرا گمان ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: مرد اپنے باپ کے مال کا نگہبان ہے اور اپنے زیر تصرف چیزوں کی طرف سے جواب دہ ہے اور تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کے ماتحت لوگوں کے متعلق سوال کیا جائے گا‘‘ (صحیح بخاری: 893)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''ان لوگوں کو اگر ہم زمین میں اقتدار عطا فرمائیں تو (لازم ہے کہ) وہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے‘‘ (الحج: 41)۔ اس سے معلوم ہوا کہ نظامِ صلوٰۃ و نظامِ زکوٰۃ کے قیام اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکَر کے نفاذ کے لیے بھی تمکین یعنی ''زمین کے کسی حصے پر اقتدار‘‘ چاہیے۔ ہماری دینی درسیات میں فلسفے کی تعریف یہ بتائی جاتی تھی: ''فلسفہ چیزوں کی حقیقت و ماہیت کو، جیساکہ وہ ہیں، جاننے کا نام ہے‘‘۔ پھر اس کی تین قسمیں ہیں: (1) تہذیبِ نفس، یعنی فرد کی اپنی اصلاح اور علم کے حصول کا اولین مقصد بھی نفس کی اصلاح ہے‘ تہذیب کے لفظی معنی ہیں: ''مختلف جہات میں پھیلی ہوئی درخت کی بے ہنگم شاخوں کی کانٹ چھانٹ کرنا تاکہ درخت زمین سے نمی کی صورت میں جو توانائی حاصل کرتا ہے‘ وہ منقَسم ہوکر ضائع نہ ہو اور درخت صحیح سَمت میں پروان چڑھتا رہے‘‘۔ پس تہذیبِ نفس کے معنی بھی یہی ہیں: ''انسان کے نفس کو خواہشاتِ باطلہ کی جھاڑ جھنکار سے پاک و صاف کر کے صحیح نشو و نما کا موقع دیا جائے تاکہ وہ نفسِ لوّامہ سے ارتقاکرکے نفسِ مطمئنّہ کی منزل کو پا سکے‘‘۔ (2) تدبیرِ منزل: اس سے مراد ہر ایک کاخاندان سے لے کر اداروں تک اپنے دائرۂ کار و اختیار میں حُسنِ تدبیر اختیار کرنا اور احسن طریقے سے معاملات کو چلانا، جیساکہ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اکرمﷺکو فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اُس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، حاکمِ وقت سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور ملازم اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے، اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، یہ باتیں میں نے رسول اکرمﷺ سے سنیں اور میرا خیال ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: اور آدمی اپنے باپ کے گھر کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، پس ہر ایک (کسی نہ کسی درجے میں) نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘ (صحیح بخاری: 2409)۔
(3) سیاستِ مُدَن: ''یعنی رعایا کی صلاح و فلاح اور بہبود کے لیے مملکت و ریاست اور حکومت کے نظمِ اجتماعی کی احسن طریقے سے تدبیر کرنا، بندے کے خَلق اور خالق کے ساتھ روابط کو صحیح سَمت میں استوار کرنا، یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی رعایت کرنا، معاشرے میں عدلِ اجتماعی کو قائم کرنا، جیسا کہ رسول اللہﷺ کے پہلے خلیفۂ راشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اوّلین خطبۂ خلافت میں فرمایا تھا: ''لوگو! مجھے تم پر حاکم بنا دیا گیا ہے، حالانکہ میں اس بات کا دعویدار نہیں ہوں کہ میں تم سب سے بہتر ہوں، پس اگر میں راہِ راست پر چلوں توتم پر میری مدد کرنا لازم ہے اور اگر (بالفرض) میں راہِ راست سے بھٹک جائوں تو تم مجھے سیدھا کر دو، سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے، تم میں سے جو کمزور ہے، وہ میرے نزدیک طاقتور ہے تاوقتیکہ میں ظالم سے اس کا حق چھین کر اسے لوٹا دوں اور تم میں سے جو طاقتور ہے‘ وہ میرے نزدیک کمزور ہے تاوقتیکہ میں اس سے مظلوم کا حق چھین لوں، ان شاء اللہ تعالیٰ، جس قوم میں فحاشی فروغ پاتی ہے، اللہ اس پر آفتیں نازل فرماتا ہے اور جو قوم شعارِ جہاد کو چھوڑ دیتی ہے، اس پر ذلّت مسلّط کر دی جاتی ہے، سو اگر میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تو تم پر میری اطاعت لازم ہے اور اگر (بالفرض) میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں ہے، کیونکہ کسی ایسے معاملے میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے، جس میں اللہ کی نافرمانی لازم آئے۔
اس خطبے میں ریاستِ اسلامی کے سارے فلسفے اور حکومت کے فرائض کو بیان کر دیا گیا ہے کہ حکومت کی اولین ذمہ داری عدلِ اجتماعی کا قیام ہے، ظلم کی طرف بڑھنے والے ظالم کے ہاتھ کو جھٹکنا ہے اور مظلوم کی داد رسی کرنا ہے، معاشرے میں عفّت، حیا اور تقوے کو فروغ دینا ہے، جہاد کے شِعار کو جاری رکھنا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو جادۂ مستقیم پر کاربند رہنا ہے۔
الغرض سیاست یعنی امت کے نظمِ اجتماعی کی تدبیر و تنظیم فریضۂ نبوت ہے، شِعارِ نبوت ہے، مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کی ضرورت ہے، اس کے لیے کوئی معیار بھی ہونا چاہیے، حدیث پاک میں ہے: ''حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم!) آپ مجھے (کسی علاقے کا) حاکم کیوں نہیں بنا لیتے؟ آپﷺنے میرے کندھے پر اپنا ہاتھ مار کر فرمایا: اے ابوذر! بے شک تم کمزور ہو اور اِمارت (وحکمرانی) ایک امانت ہے اور یہ قیامت کے دن رسوائی اور شرمندگی (کا باعث) ہو گی، سوائے اس کے کہ جو اس کا حق ادا کرے اوراس کی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا کرے‘‘ (صحیح مسلم: 1825)۔
مگر اب ہمارے ہاں سیاست دشنام ہے، اتّہام ہے، الزام ہے، مفادات کا سمٹائو ہے، اختیارات کو اپنی ذات میں مرکوز کرنا ہے، دجل ہے، فریب ہے، عیّاری ہے، اسی لیے کوئی کسی سے دجل وفریب کرے تو اردو کا محاورہ بن گیا ہے: ''میرے ساتھ سیاست نہ کرو‘‘، گویا سیاستِ دوراں دیانت وامانت کی ضد ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُن کے حقداروں کو ادا کرو‘‘ (النسآء: 158)۔ حدیث پاک میں ہے: رسول اللہﷺ سے سوال ہوا: قیامت کب آئے گی؟ آپﷺ نے فرمایا: جب امانت ضائع کر دی جائے گی۔ سائل نے پوچھا: امانت کیسے ضائع ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا: جب مسلمانوں کے (نظمِ اجتماعی) کے امور نااہلوں کے سپرد کر دیے جائیں، تو قیامت کا انتظار کرو۔ (صحیح بخاری: 59)۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: مکر و فریب والے سال آئیں گے، ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا، خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن اور اس زمانہ میں رُوَیْبِضَۃ بات کرے گا، آپ سے سوال کیا گیا: رُوَیْبِضَۃ کیا ہے؟ آپﷺنے فرمایا: حقیر اور کمینہ آدمی‘ وہ لوگوں کے عام انتظام میں مداخلت کرے گا۔ (سنن ابن ماجہ: 4036)۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved