تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     17-08-2013

آتشِ رفتہ کا سراغ

تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ افراد مر جاتے ہیں‘ ملک اور معاشرے زندہ رہتے ہیں۔ یہ مگر یاد رہے کہ جہاں جدوجہد نہ ہو وہاں مقدرات حکومت کرتے ہیں۔ زمرد خان بیت المال کے نگراں ہوئے تو دور ایک گائوں میں کسی سے ملنے گئے۔ اتفاق سے طالب علم بھی وہیں پہنچا۔ ان کی موجودگی میں کسی نے مجھ سے کہا: ایک کالم تمہیں ان پر لکھنا پڑے گا۔ سرما کی صبح‘ دھوپ سے بھرا ہوا چھوٹا سا میدان اور سنہری کرنوں کا مدہوش کر دینے والا جادو۔ سوچا کہ اچھا آدمی ہے مگر کالم کیا ضروری ہے۔ اب وہ لہجہ‘ مجھے یاد آیا اور دل نے کہا‘ فقیر فرمائش نہیں کیا کرتے۔ علم جب یقین میں ڈھلتا ہے تو گاہے کشف کا لمحہ وارد ہوتا ہے۔ جنہوں نے دیکھا اور برتا ہے وہ جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے ان کے لیے کسی شب کے بعد کوئی سحر ہوتی ہے اور نہ اُجالے کے بعد تاریکی۔ سوچا کبھی اس سے بات کریں گے‘ کبھی لکھیں گے۔ شاید کسی دن وہ خود ہی اپنے درد کی داستان کہہ دے۔ شاید کبھی مکروہات دنیا سے دلِ زار کو فرصت نصیب ہو۔ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی چھپے رہتے ہیں اور کسی صبح‘ کسی شام میں ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ سچائی جو کسی بے معنی ہجوم کی بے سمت آوازوں میں کھو گئی تھی۔ ادنیٰ امنگوں‘ معمولی خواہشات اور آرزوئوں کے بے ہنگم جلوس میں پوشیدہ تھی‘ اچانک طلوع ہوتی ہے اور جلوہ کرتی ہے۔ اب یہ دوسروں پر ہوتا ہے کہ کیا اخذ کرتے ہیں۔ کتنا فہم اور کتنا ظرف ہے۔ کبھی کبھی تو خود تماشائی بھی واشگاف ہو جاتے ہیں‘ جس طرح اس دن رضا ربّانی۔ فرمایا: یہ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کا فیض ہے۔ کیا کہنے‘ کیا کہنے‘ سبحان اللہ‘ سبحان اللہ۔ سیاسی لیڈر کب سے شخصیات کے تارپود بننے لگے؟ کب سے کردار سازی کرنے اور معجزے دکھانے لگے؟ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کا یہاں کیا ذکر؟ ایک نے تو چودھری نثار علی خان کا تذکرہ بھی فرمایا۔ ان کی حکمت عملی کامیاب رہی۔ کون سی حکمت عملی؟ انہوں نے فقط حکم صادر کیا تھا۔ حکمت عملی کا سلیقہ ہوتا ہے‘ تدابیر کا قرینہ۔ ایک کے ساتھ دوسری متبادل تجویز۔ صلاحیت میں نثار علی خان‘ اپنے ہم نفسوں میں شاید سب سے بہتر ہیں مگر جو انہیں جانتے ہیں‘ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بحران کے وہ آدمی نہیں۔ دلاوری ان کا وصف نہیں۔ ذہین اور طباع ہیں لیکن حمایت اگر کارفرما رہے‘ پشت پناہی پوری ہو۔ وہ نصیر اللہ بابر نہیں۔ کوشش تو ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے بھی کی اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر کی۔ وہ بھی ایک ہیرو ہیں۔ سرکاری ملازم ہیں آزاد ہوتے تو ممکن ہے کہ وہ بھی زمرد خان کی طرح جھپٹتے کہ زندگی کے زیاں پر آمادہ تھے۔ جان گھر چھوڑ کر تو نہیں آئے تھے‘ ہتھیلی پہ رکھ لی تھی۔ نصیر اللہ بابر کو جو مردان کار ملے‘ وہ آزاد انسانوں کو نصیب ہوتے ہیں‘ جو اپنے خوف پر قابو پا چکے ہوں۔ معلوم نہیں دہشت گرد انہیں قتل کرنے کا فیصلہ نہ کر سکے یا ہمّت اور موقعہ نہ پا سکے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کس ٹھاٹ سے وہ زندہ رہے۔ کیسی یاد رہنے والی ظفر مندی پائی اور کیسا تاریخی معرکہ انہوں نے سر کیا تھا۔ دہشت گردی ختم کرنی ہے تو انہی کی پیروی کرنا ہوگی۔ نصیر اللہ بابر کے ساتھیوں میں سے چند ایک کو میں جانتا ہوں۔ دارالحکومت میں جب یہ سنسنی خیز اور اعصاب شکن ڈرامہ جاری تھا تو ان میں سے ایک کا خیال آیا۔ جی چاہا کہ ان سے بات کروں‘ پھر خیال آیا کیوں انہیں آزردہ کروں‘ ڈاکٹر شعیب سڈل کو؟ اب ان کے اختیار میں کیا ہے؟ نوازشریف یا عمران خان دانا ہوتے تو کوئی ذمہ داری اساطیری کردار کے اس آدمی کو سونپتے‘ جاپانی اور بھارتی پولیس نے جس سے بہت کچھ سیکھا۔ نادیدنی کی دید سے ہوتا ہے خونِ دل بے دست و پا کو دیدۂِ بینا نہ چاہیے ٹیکس کے وفاقی محتسب کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحب کے آخری ایّام تھے۔ ایک زمانے سے ان کی آرزو تھی کہ جرمیات (Criminalogy) پڑھانے کے لیے ایک جامعہ قائم کریں۔ انہیں یہ موقع ملا۔ پھر انہوں نے انکار کیوں کردیا؟ کیسا شاندار موقعہ تھا۔ پولیس اور عدالتوں کے لیے عصر رواں کے تقاضوں کا ادراک رکھنے والے ماہرین تیار کریں اور لوحِ زماں پہ کبھی نہ مٹنے والا ایک اور نقش چھوڑ جائیں۔ پتہ چلا کہ یہ ایک کھیل تھا‘ وفاقی ٹیکس محتسب کا ادارہ ہتھیانے کا۔ اس کے سربراہ کو دستوری تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ صدر یا وزیراعظم اسے مامور تو کر سکتے ہیں‘ برطرف نہیں۔ الیکشن سے قبل ایک کارندہ مقرر کردیا جاتا تو نئے وزیراعظم کو انہیں گوارا کرنا پڑتا‘ جس طرح وزیراعظم گیلانی کے طے کردہ آڈیٹر جنرل پاکستان رانا بلند اختر کو حالانکہ ان کے بارے میں جو شکایات ہیں‘ وہ زمین سے اٹھ کر ستاروں کو چھو رہی ہیں۔ ایک ایک کر کے اس طرح کے کتنے ہی ادارے برباد ہو گئے۔ سیاست‘ ٹیکس وصولی‘ پولیس۔ رحمن ملک نے آئی ایس آئی پر بھی ہاتھ صاف کرنا چاہا تھا۔ بعض اعتبار سے فوج بچ رہی ہے یا میڈیا اور سپریم کورٹ۔ سیاست میں بھٹو اور شریف خاندان کو اولیاء کے خاندان بنا دیا گیا۔ رضا ربانی اور احسن اقبال ایسے مجاور پیدا ہو گئے۔ بیگم نصرت بھٹو کی اللہ مغفرت کرے۔ انہوں نے کہا تھا: Bhuttos are born to rule۔ بھٹو خاندان کے بچے حکمرانی کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ ایک بات انہیں معلوم نہ تھی۔ 1960ء کے اوائل میں ایک سفارت کار نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے وزیر خارجہ کے بارے میں لکھ ڈالا تھا: \"He is born to be hanged\"۔ بھٹو خاندان ختم ہوا اب زرداری صاحب ہیں۔ شریف خاندان کب تک رہے گا؟… جتنی سزا اس قوم کے مقدر میں لکھی ہے! کل اسلام آباد کے درو بام پر موت اور بے بسی کے سائے تھے۔ ٹی وی والوں نے اس بے بسی کو پورے ملک پر مسلط کردیا تھا لیکن پھر ایک زندہ آدمی اٹھا۔ دو ہزار کلو میٹر کی وسعت میں پھیلے خوف کے مارے‘ 20 کروڑ لوگوں کو اس نے رہائی دلادی۔ درویش نے کہا تھا: اللہ کو ہجوم کی ضرورت نہیں ہوتی‘ ایک آدمی کافی رہتا ہے۔ بھٹو نہ ہو سکے۔ شریف خاندان ہو سکتا ہے؟ زمرد خان کا کام ختم ہوا۔ حمیّت اور ایثار کی ایک چنگاری نے پھر ہمیں یاد دلایا کہ حکومت مر گئی مگر یہ معاشرہ ابھی زندہ ہے۔ اس طرح کی چنگاریوں سے الائو سلگا سکتے ہو تو سلگا لو‘ وگرنہ چپ چاپ سلگتے جائو‘ مرتے جائو۔ بسورتے رہو‘ دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے جائو۔ لے یہاں تازہ شکستوں کی لکیریں رقم کر تو نے جو اس ہاتھ پر لکھا ہوا تھا‘ ہو گیا زمرد خان کی جسارت نے نصیر اللہ بابر کی یادیں تازہ کردیں۔ جون 1995ء میں کراچی شہر سے ہر روز اوسطاً دس لاشیں اٹھا کرتیں۔ پورا ملک بیچارگی کی تصویر تھا۔ سات ہفتوں میں دہشت گرد پسپا ہو گئے۔ سات ماہ میں جنگ جیت لی گئی۔ کچھ عرصے میں نوازشریف برسر اقتدار آئے تو انہوں نے مجرموں سے مصالحت کرلی۔ ریاست کے باغیوں کو بے گناہ مانا۔ ان کے ورثا کو 25 کروڑ روپے مالی معاوضہ ادا کیا۔ جو کچھ بویا اور پروان چڑھایا تھا‘ سب کچھ برباد ہو گیا۔ کراچی سے طورخم تک اب دہشت گردوں کی کئی نسلیں پھیل گئی ہیں کہ قانون کا خوف نہ رہے تو جرم ہی پھلتا پھولتا ہے۔ گھوڑا حاضر ہے اور میدان بھی۔ چودھری نثار اگر چاہیں تو نصیر اللہ بابر بنیں‘ چاہیں تو رحمن ملک ہو جائیں۔ اخباری مضامین سے تمغے تو مل سکتے ہیں مگر شجاعت ارزاں نہیں ہوتی۔ آدمی خود کو دھوکہ دے سکتا ہے‘ اپنے مقدر کو نہیں۔ کئی بار گرنے کے بعد چین پھر سے عالمی طاقت ہے‘ ایک ہزار برس کے بعد غلام بھارت شوکت کا خواب دیکھتا ہے‘ ترکوں نے آتشِ رفتہ کا سراغ پا لیا ۔ مصر اپنے لہو میں نہا کر زندہ ہو رہا ہے۔ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ افراد مر جاتے ہیں‘ ملک اور معاشرے زندہ رہتے ہیں۔ یہ مگر یاد رہے کہ جہاں جدوجہد نہ ہو وہاں مقدرات حکومت کرتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved