ڈارون کے نظریے کو ماننے والے کسی سائنسدان کے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ رچرڈ ڈاکنز (Richard Dawkins) نے الہامی مذاہب کی نفی کرتے ہوئے شہرت حاصل کی۔ ان کی کتابیں، جیسا کہ ’’The Selfish Gene ‘‘ نے انہیں مذاہب سے انکار کرنے والوں کی صف میں لا کھڑ ا کیا ہے۔ وہ لوگ جو اس کے نظریات کو مانتے ہیں اور وہ بھی جو ان کا انکار کرتے ہیں، ڈاکنز کے مذہب پر شدید حملے اور دہریت کی پُرزور الفاظ میں وکالت پر حیران رہ جاتے ہیں۔ متنازعہ نظریات رکھنے والے ڈاکنز نے سوشل میڈیا کی دنیا میں ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا جب اُس نے ٹویٹر پر اپنے 777,000 فالورز کو یہ پیغام بھیجا۔۔۔’’ اگرچہ مسلمانوں نے قرون وسطیٰ میں اعلیٰ درجے کا تحقیقی کام کیا گیا لیکن آج دنیا بھر کے مسلمانوں میں نوبل انعام حاصل کرنے والوںکی تعداد ٹرینیٹی کالج کیمبرج کے نوبل انعام یافتگان سے بھی کم ہے‘‘۔ اس کے جواب میں اوون جونز (Owen Jones) نے ٹویٹر پیغا م بھیجا، جس کا گارڈین نے بھی حوالہ شائع کیا۔۔۔’’تم اپنی تنگ نظری کو لادینیت کا نام کس طرح دیتے ہو؟ تمہیں اپنے رویے پر شرم آنی چاہیے‘‘۔ بی بی سی کے چینل فور کے فیصل اسلام نے کہا۔۔۔’’ میرا خیال تھا کہ سائنسدان صحافیوں سے ناراض رہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ صحافی بے بنیاد مواد کی مدد سے پہلے سے ہی نتائج نکالنے کے عادی ہوتے ہیں‘‘۔ بہرحال اعدادوشمار یہ ہیں کہ کیمبرج کے ٹرینیٹی کالج سے تعلق رکھنے والے 32 افراد نوبل انعام یافتہ ہیں جبکہ تمام اسلامی دنیا میں نوبل انعام حاصل کرنے والوںکی تعداد دس ہے۔ یہ تعداد نو ہو سکتی ہے اگر ڈاکٹر عبدالسلام کو ان کے مسلک کی بنا پر مسلمان نہ سمجھا جائے۔ چنانچہ صحافیوںکی طرف سے اس پر کی جانے والی تنقید کے باوجود ڈھاکنز کا پیغام سچائی پر مبنی محسوس ہوتا تھا۔ نسل پرستی کے الزام کے خلاف اپنا دفاع کرتے ہوئے ڈھاکنز نے کہا۔۔۔ ’’میں حیران ہوں کہ کچھ لوگ اسلام کو ایک مذہب کی بجائے ایک نسل قرار دیتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر مجھ پر نسل پرستی کا الزام درست ہے، لیکن نسل تو بدلی نہیں جا سکتی لیکن کوئی بھی شخص اسلام قبول کر سکتا ہے یا اسے چھوڑ سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ایک نسل نہیں بلکہ ایک مذہب ہے‘‘۔ پروفیسر ڈھاکنز کی آدھی بات درست ہے کیونکہ کوئی مسلمان اپنے عقیدے کو ترک نہیں کر سکتا ہے، ہاں دیگر عقائد چھوڑ کر دائرہِ اسلام میں داخل ہونے والوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ مختلف ممالک میں آباد 1.5 بلین مسلمان ایک امت تو تشکیل دیتے ہیں لیکن وہ ایک نسل سے نہیں ہیں۔ چنانچہ ڈھاکنز پر نسل پرستی کا الزام درست نہیں ہے۔ ایک اور بات، جب بھی عقیدے کے بارے میں بحث کی جاتی ہے تو اس میں منطق کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ عام طور پر مسلمان اپنی معاشی اور سائنسی پسماندگی کے حوالے پر بہت حساس ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ جب ڈھاکنز اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہودیوں نے مسلمانوں سے زیادہ نوبل انعام حاصل کیے ہیں تو معاملہ مزید سنگین ہو جاتا ہے۔ افسوس، ہم حقائق کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جب بھی دنیا حقائق کی بات کرتی ہے، ہم عقائد کے پیچھے پناہ لے لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے جدید تعلیم کا راستہ ترک کر دیا ہے اور وہ اپنی دقیانوسی سوچ کے کیپسول سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جب ہم مغربی افکار کو جدید یت قرار دیتے ہیں تو ہمارا خیال ہے کہ ہم جدیدیت کو رد کر کے ہی اچھے مسلمان بن سکتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ تھی جس نے پرنٹنگ پریس، جب یہ ایجاد ہوا، کو اپنے ہاں لگانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اس کی وجہ سے قرآنِ پاک کو مشینی انداز میں چھاپ دیا جائے گا۔ اُن کا خیال تھا کہ مقدس کتاب کو صرف ہاتھ سے ہی لکھا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی اس خیال کی جمالیاتی پیمانے پر حمایت کرے (اُس وقت چھاپہ خانے نستعلیق خط نہیں چھاپ سکتے تھے) کیونکہ چھپائی بہرحال خطاطوںکا مقابلہ نہیںکر سکتی تھی لیکن اس کی وجہ سے دیگر کتب کی چھپائی بھی نہ ہو سکی اور علم سے دوری کی وجہ سے عثمانیہ سلطنت کمزور ہو گئی۔ آج بھی نائیجیریا میں انتہا پسندگروہ باکو حرم (Boko Haram) تعلیمی اداروں پر حملہ کر کے طلبہ کو ہلاک کرتا ہے کیونکہ وہ مغربی تعلیم کے خلاف ہے۔ ہمارے ہاں جہادی گروہ بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ جب افغانستان میں طالبان حکومت میں تھے تو اُنھوں نے فرمان جاری کیا کہ سکولوں میں دینی کتب کی تعلیم ہی جائز ہے اور وہ بھی صرف لڑکے ہی پڑھنے آ سکتے ہیں۔ زیادہ تر اسلامی دنیا میں یہی سوچ کارفرما ہے کہ صرف دینی علم ہی اصل علم ہے۔ چنانچہ اس بات پر کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ اب تک مسلمانوں نے صرف دس (معاف کیجیے، نو) نوبل انعام حاصل کیے ہیں۔ بدقسمتی سے زیادہ تر مسلمان اس بات کی تفہیم سے قاصر ہیں کہ سائنسی علوم نہ ’’اسلامی ہیں اور نہ ہی مغربی‘‘ یہ پوری نسل انسانی کا مشترکہ روثہ ہیں۔ ہر قوم نے ان میں حصہ ڈالا ہے۔ اس کا مذہبی عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ تمام انسانوںکا عقیدہ ایک کبھی بھی نہیں رہا۔ اس پر صرف اسلام کی اجارہ داری بھی نہیں ہے۔ درحقیقت، سائنسی مفروضات، مشاہدات، تجربات اور نظریات کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہماری ترقی میں ایک اور رکاوٹ آمریت اور آمرانہ سوچ ہے۔ گھروں اور سکولوں میں نوجوانوں کو سوالات، خاص طور پر عقائد کے متعلق، پوچھنے کی آزادی نہیں ہے۔ اب بات یہ ہے کہ جب تک شک نہ ہو، سوال نہیں پوچھے جا سکتے اور جب تک سوال نہ پوچھے جائیں، تحقیق نہیں ہو سکے گی۔ یہ نکتہ سائنسی ترقی کی بنیاد ہے۔ باقی دنیا تو تبدیل ہوتے ہوئے حقائق کو تسلیم کرنا سیکھ گئی ہے لیکن ہم ابھی یہ طرز فکر نہیں اپنا سکے ہیں۔ رچرڈ ڈھاکنز نے اپنی کتابوں اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے ڈارون کے نظریات کی وضاحت کی ہے اور سائنسی طرزِ فکر رکھنے والی دنیا ان نظریات کو کسی حد تک تسلیم کرتی ہے۔ برطانیہ میں رہنے والے مسلمان اس کے بیان پر غصے میں آ گئے تھے، حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام الہامی مذاہب کی مخالفت کرتا ہے۔ برطانیہ میں رہنے والے عیسائی اس بات پر تلخی محسوس کرتے ہیں کہ ان کے مذہب کی مخالفت تو بی سی سی جیسے چینلز پر کھلے عام کی جاتی ہے لیکن مسلمانوںکے بارے میں بات کرتے ہوئے محتاط رویہ اپنایا جاتا ہے۔ میں ایک اور بات پر حیران ہوتا ہوں کہ بہت سے ایشیائی ممالک، جیسا کہ چین، جاپان اور جنوبی کوریا نے مغربی تعلیم حاصل کرکے زبردست ترقی کر لی ہے لیکن ہم اسے رد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ایشیا میں رہ کر بھی ترقی کی گنجائش موجود ہے، اس کے لیے مغربی ممالک کی فضا ضروری نہیں۔ اصل بات عقائد کی ہے کہ اگر آپ اس دنیا کی زندگی کو اہمیت نہیں دیتے اور آپ کی توجہ کسی اور زندگی کی طرف رہتی ہے تو پھر آپ اس زندگی کی بہتری کے لیے کام نہیں کریںگے۔ اس نکتے سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ ہم اپنے ہاں رائج نظامِ تعلیم کو ’’اسلامی‘‘ کیوں قرار دیتے ہیں۔ آج ہم ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہان میڈیسن سے لے انجینئرنگ اور خلائی سفرتک، ہر میدان میں سائنس نے بہت سے امکانات کے دروازے کھول دیے ہیں۔ سائنسی طرز فکر بہت سے مسائل کو حل کر رہی ہے لیکن آج بھی ہم بے کار بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہم ابھی تک عقائد پر بحث جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں انتہا پسند عقائد کی آڑ میں قتل وغارت کا کھیل رچائے ہوئے ہیں اور ہم ان کی حمایت میں دلائل دے رہے ہیں۔ جب تک عوام کی سوچ تبدیل نہیںہوتی، ہم صرف صارفین ہی بنے رہیںگے، ہمارے لیے ترقی کے دروازے نہیںکھلیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved