تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     30-05-2022

20آدمی‘2 راتیں اور احمد فراز…(1)

1970ء کا عشرہ تھا جب یہ پیغام جاری ہو ا۔اسے یہاں تک پہنچتے پہنچتے نصف صدی سے بھی زیادہ برس بیت گئے۔ اس دوران احمد فراز سچے جہاں جا بسے۔ اُن کے بعد کی تیسری‘ بلکہ چوتھی نسل کو اب کے وہی تجربہ ہوا‘جو انہوں نے ان لفظوں میں تب بیان کیا۔
مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اس کے
فصیلِ شہر کے ہر برج ہر منارے پر
کماں بہ دست ستادہ ہیں عسکری اس کے
صرف ''20آدمیوں‘‘ نے عمران خان کے حقیقی آزادی مارچ میں آنا تھا‘ وہ بھی خالی ہاتھ۔پورے ملک سے‘اپنے ہی آزاد وطن کے مرکزی دارالخلافہ میں۔جی ہاں''یوکے سے آنے والی امپورٹڈ سرکار‘‘کے لندن پلان کے مطابق عمران خان کے ساتھ صرف 20آدمی نکلنا تھے۔امپورٹڈ کے سُچے اندازوں اور100فیصد Intel Infoنے کہا: ہمیں اپنے والا بندوبست کرنے دیا جائے‘تو یہ 20 آدمی بھی آدھے گھر رہ جائیں گے۔ماڈل ٹائون لاہور کے فنکار‘اور ہنر کاروں نے یہ سرکاری اعلان بھی کیا‘کہ صرف10 عدد ''برگر فیملیز‘‘ کے بچے اپنے کپتان کے جلسے میں آئیں گے۔اُن کا وہ کپتان جس نے اس وقت جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے بڑی عوامی بیداری کی مہم چلا رکھی ہے‘جس کی قیادت وہ پبلک کے اندر گھس کر خود کررہا ہے‘ معاف کیجئے گا‘یہ لذیذ الفاظ میرے نہیں بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن والی آئینی پٹیشن کی سماعت کے دوران یہ مؤقف ''امپورٹڈ سرکار‘‘ نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں خود پیش کیا۔
''امپورٹڈ سرکار‘‘ کا نکتہ نمبر 1:جناب یہ درست ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے سے باہر جانے اور اندر آنے والے تمام روڈز بند ہیں۔موٹر ویز‘شاہراہوں‘اور عوامی گزرگاہوں سمیت‘جگہ جگہ پرتار کول‘ کنٹینر‘ بجری‘ اینٹ‘سریا لادے ہوئے ٹریکٹر‘کانچ کے ٹنوں ٹکڑے‘بڑے بڑے کنٹینرز کی رکاوٹیں اور پنجاب پولیس‘پنجاب کانسٹیبلری‘پنجاب ڈولفن فورس‘پنجاب Anti Riotsپولیس‘ Quick Response پولیس۔ سفید پوش ڈنڈا بردار سپیشل برانچ‘ ساتھ اُسی لبادے میں گُلّو بٹ بریگیڈنے پنجاب سندھ‘پنجاب بلوچستان‘کے پی اور پنجاب اسلام آباد کے سارے راستے ہر طرح کی ٹرانسپورٹ کے لیے روک رکھے ہیں۔
امپورٹڈ سرکارکا نکتہ نمبر2:حکومت کی رِٹ بحال کرنے کے لیے صرف اور صرف محدود اور ضروری ''ریاستی طاقت‘‘ استعمال کی جارہی ہے۔ آئینی پٹیشن کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پی ٹی آئی کا مؤقف جاننے کے لیے مجھے طلب کیا گیا۔ اُس سے پچھلی رات اس محدود طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے مڈنائٹ جیکالز‘F-8/2میں میرے گھر آن پہنچے۔یہ 2بجے کے بعد کا وقت تھا۔ میرے گھر کو 2سٹریٹس لگتی ہیں‘جن میں سے ایک پارک روڈ کو ٹچ کرتی ہے۔گھر کے پڑوس میں لال مسجد کے بانی مولانا عبداللہ مرحوم کی نسبت سے بننے والی مسجد مجددیہ واقع ہے۔گھر کے باہر گاڑیوں کی قطاروں اور محافظوں کی للکاروں نے کچھ محلے دار نیند سے جگا دیے۔ کچھ وہ نمازی بھی‘جو تہجد گزاری کے لیے مسجد مجددیہ جارہے تھے‘وہ بھی ادھر کو آگئے۔لا محدود طاقت کے نشے میں بدمست ایک شخص نے ان حضرات سے پوچھا‘آپ کے پاس بابر اعوان کا ٹیلی فون نمبر ہے؟جواب آیا‘جی ہاں مگر بتائیں آپ یہاں کیوں شور شرابا کرنے آئے ہیں؟ مڈنائٹ ریڈ کے انچارج نے کہا :آپ اُنہیں فون کرکے بتائیں‘باہر سکیورٹی فورسز آپ کو لینے آئی ہیں۔اس پر تکرار شروع ہوگئی‘ نمازیوں نے کہا :آپ کا دماغ ٹھیک ہے‘کیا آپ ہمیں بے وقوف سمجھ رہے ہیں۔عین اُسی وقت اسد عمر کے گھر پہ بھی اسی محدود طاقت کا مظاہرہ ہورہا تھا۔
وفاقی دارلحکومت کے یہ دوگھر اُن ہزاروں گھروں میں شامل ہیں‘جن کی چادر اور چار دیواری دو راتوں میں تار تار کردی گئی۔یہ دو راتیں ایسی گزریں‘جن کی مثال اسکند رمرزا سے جنرل مشرف تک کہیںنہیں ملتی۔ ان دو راتوں میں آدھی رات کے وقت مسلح محافظ دیواریں پھلانگ کر لوگوں کی اپنی ذاتی پناہ گاہوں کے دروازے سرکاری گاڑیوں سے توڑ رہے تھے۔گھروں کے شیشے پاش پاش کر کے‘ کنڈیاں اور چٹخنیاں بھی‘ہمارے ہی پیسوں سے خریدی ہوئی‘ بندوقوں کے بٹ مار کر پاش پاش کررہے تھے۔ ریاستی طاقت کے اس محدود استعمال کا نشانہ بننے والے اکثر victim سویلین تھے۔مگر ماں جیسی اس ریاست کی رِٹ کی حفاظت کا شوق دوفوجی گھرانوں کی دیواریں پھلانگ کر بھی پورا کیا گیا۔
ویسے یاددہانی کے لیے یہ بتانا ضروری ہوگا 1997ء پاکستان کریمنل لاء جرنل میں رپورٹ شدہ عدالتی فیصلہ کہتا ہے‘ پولیس کسی گھر میں بغیر وارنٹ داخل نہیں ہوسکتی۔ اگر پولیس بغیر وارنٹ کسی گھر میں داخل ہوئی‘اور اہلِ مکان نے اُس پر تشدد کیا‘تو اہل مکان پر کوئی جرم نہیں بنتا۔ایک گھر میں بدمست امپورٹڈ پالیسی کے فیصلہ سازوں نے ایسا ہی وقوعہ کروا دیا۔دوسرا گھر ایک ریٹائرڈ میجر صاحب کا تھا‘ جہاں ایک ٹین ایجر بچی ماں جیسی ریاست کے دریدہ دہن محافظوں کے ہاتھوں اپنی بے حرمتی کا نوحہ آنسوئوں اور سسکیوں سے بیان کررہی ہے۔پلید ہاتھ اس عفت مآب بچی کے جسد پر کہاں تک دراز ہوئے‘ تفصیل کی وڈیو دیکھی نہیں جاتی۔
عمران خان کے حقیقی آزادی مارچ میں 20آدمی نکلنے تھے۔ دوسری جانب پبلک میں پاپولرٹی کے آخری آسمان کو چھوتے ہوئے حکمران ہیں۔اس قدر اہل کہ اگر پورے ضلع میں بارش کا ایک قطرہ نہ برسے تو(ن) لیگی جلسہ گاہ میں اتنے زور سے بادل برستا ہے کہ جلسہ کینسل ہوگیا۔ایسی اہلیت کی وجہ سے20لوگوں کو روکنے کے لیے 22ہزار مسلح پُلسیئے دوملین کی آبادی والے شہر کے اندر فصیلِ شہر کے ہر برج‘ہر منارے پر ایستادہ ہوئے۔
عوامی مزاحمت 100فی صد پُر امن رہی۔اگر چہ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان کرکٹ بیٹ ہے‘ مگر وہ بھی مظاہرین کے ہاتھ میں کہیں نظر نہ آیا۔آپ کو تاحیات نااہل سابق وزیر اعظم کی بیٹی کی نیب پیشی یاد ہوگی جس کے لیے رائیونڈ سے پتھروں کے بھرے بیگ سکیورٹی ڈالے میں رکھ کر لائے گئے‘ پھر لاہور میں نیب دفتر پر آزادانہ برسائے بھی گئے مگر کیا کہنے ''آزاد‘‘ سُخن وروں کے جنہیں خالی ہاتھ لڑکیاں لڑکے مجرم نظر آتے ہیں اور سپریم کورٹ سے نیب ہیڈ کوارٹر تک پتھر برسانے والے معصوم نہیں‘ بلکہ ڈیموکریٹ بھی لگتے ہیں۔
تم اہلِ حرف کہ پندار کے ثناء گر تھے
وہ آسمانِ ہنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اک مصاحبِ دربار کے اشارے پر
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں
احمد فراز کے محاصرہ کاذ کر کرنے لگا تھا‘ درمیان میں ایک اور لِیک فائونڈری کھل گئی...(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved