طرزِ حکمرانی کیسے کیسے رنگ بدل رہی ہے کہ عوام کا رنگ بھی کہیں پیلا اور کہیں نیلا ہوتا چلا جارہا ہے۔ کہیں مہنگائی کا جن دھمال ڈالے چلا جارہا ہے تو کہیں قیمتوں کا دہکتا ہوا الاؤ عوام کی قوتِ خرید کو بھسم کررہا ہے۔ ہر طرف چیخ و پکار اور افراتفری کا عالم ہے۔ کیک پیسٹری تو درکنار دو وقت کی روٹی کا حصول بھی محال ہو کر رہ گیا ہے۔ڈالر اورپٹرول کو آگ کیا لگی بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں سے بھی چنگاریاں نکلتی نظر آتی ہیں۔کوئی سود پر قرضہ لے کر علاج کروا رہا ہے تو کوئی گھر کا زیور بیچ کر‘ کوئی خود کو گروی رکھ رہا ہے تو کوئی عزتِ نفس پر سمجھوتا کیے ہوئے ہے۔ جس طرزِ حکمرانی میں ہسپتالوں میں شفا نہ ہو‘ تھانوں میں داد رسی نہ ہو‘ جان و مال محفوظ نہ ہو اور بنیادی ضروریات کی چادر سر سے پاؤں تک چھوٹی پڑ جائے‘ یوٹیلیٹی بلز دیکھ کر غشی کے دورے پڑنے لگیں‘ بچوں کی اچھی تعلیم حسرت بن کر رہ جائے‘ اقتصادی اصلاحات ٹھنڈے چولہے گرم کرنے سے قاصر ہوں‘ اس حشر کے سماں میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جبر اور مسلسل سمجھوتوں پر چلتا ہوایہ نظام کسی پریشر ککر کی طرح پھٹنے کو ہے۔
بدقسمتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے سبھی مردم شناسی اور گورننس جیسی بنیادی خصوصیات سے نہ صرف عاری پائے گئے ہیں بلکہ انہی خصوصیات کے برعکس اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر ڈٹے دکھائی دیتے ہیں کہ ان سے بڑا کوئی عقل ِکُل نہیں۔ تختِ پنجاب میں انتظامی تبادلوں کے سیلاب میںکیسے کیسے گوہر نایاب دریا برد کردیے گئے ہیں وہیں پتھروں کو نگینے بنا کر اہم ترین عہدے ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔ایوانِ وزیراعلیٰ میں براجمان ایک سرکاری بابو اپنی پسند اور ناپسند کے ساتھ دوستیاںاور تعلق نبھانے کے علاوہ پرانے بیر بھی خوب نکال رہے ہیں۔نہ ماضی میں انہوں نے کوئی توپ چلائی اور نہ ہی اب ان سے کوئی توقع کی جاسکتی ہے۔منفی رجحانات کے حامل فیصلہ ساز اپنی انااورضد کے آگے اس قدر بے بس اور مجبور ہوجاتے ہیں کہ محض اپنی تسکین کے لیے ایسے فیصلے بھی کروا ڈالتے ہیں جو گورننس اور میرٹ کے معنی الٹانے کے ساتھ قابل انتظامی افسران میں بددلی پھیلانے کا بھی باعث ہیں۔
تعجب ہے بزدار سرکار میں آنکھ کا تارا بن کر موجیں مارنے والے اکثر افسران آج بھی اہم اور کلیدی عہدوں پر فائزاس لیے نظر آتے ہیں کہ وہ نوکری کرنے کا ڈھب اور ہنر جانتے ہیں۔انہیں معلوم ہے کہ حاکمِ وقت کو کس طرح شیشے میں اتارنا ہے اور کس طرح ممکنہ حکمرانوں کے سامنے اپنی مجبوریوں اور بے بسی کا رونا رو کر انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلانا ہے۔بدقسمتی سے مخصوص سرکاری بابوئوں کی بریفنگ اور ڈی بریفنگ کی بھینٹ چڑھنے والے اکثر افسران بزدار سرکار میں بھی زیرِ عتاب رہے اور آج بھی انہیں کھڈے لائن لگا کر حکومتِ پنجاب کو قابل اور ڈلیور کرنے والے افسران سے محروم کرنے کے لیے باقاعدہ ایک حکمت عملی تیار کی گئی ہے جسے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز بھی ہضم کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ہر دور میں ایسے سر چڑھے چند سرکاری بابوموافق اور وفادار افسران کی نشاندہی کی ذمہ داری کچھ یوں نبھاتے ہیں کہ ساری بدنامی حکومت کے گلے پڑ جاتی ہے اور وہ خود صاف بچ نکلتے ہیں۔بزدار سرکار میں ایک پرنسپل سیکرٹری تقرریوں اور تبادلوں میں اپنی دنیا اس طرح سنوارتے رہے ہیں کہ انصاف سرکار آج بھی ان الزامات کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ اسی طرح آج بھی تختِ پنجاب کی تبادلہ پالیسی کی بھینٹ چڑھنے والے افسران کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سارا چمتکار ان سرکاری بابوئوں کا ہے جو بزدار سرکار میں بھی اہم عہدوں پر فائز تھے اور آج بھی حکومتِ وقت کے ساتھ وفاداریاں نبھانے کی آڑ میں گورننس اور میرٹ کی ایسی تیسی پھیر رہے ہیں۔
ابھی کالم یہیں تک پہنچا تھا کہ واٹس ایپ پر ایک درد ِدل رکھنے والے اہم اور ذمہ دار عہدیدار کی طرف سے بھیجا گیا ایک وڈیوکلپ موصول ہوا جس میں وزیرخزانہ غلام اسحاق خان اور پیپلز بینک آف چائینہ کے نائب گورنر کے مابین مذاکرات میں پاکستان کی طرف سے چین کو بینکنگ کے شعبے میں تعاون اور مطلوبہ امداد فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی۔ اس موقع پر چینی وفد کے سربراہ مسٹر لی فنگ نے گورنر سٹیٹ بینک کو دورۂ چین کی دعوت بھی دی۔پی ٹی وی کے خبرنامے کے اس ویڈیو کلپ نے کالم کو اصل موضوع اور ردھم سے بھٹکا ڈالا۔
کہاں دیوارِ چین جیسے شاہکار عجوبہ کی مرمت و بحالی کے لیے مالی معاونت کرنے والا پاکستان اور کہاں وطنِ عزیز کی موجودہ صورتِ حال۔ مقامِ گریہ ہے۔یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ایک زمانے میں چین میں پاکستانی سفارتخانہ ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ پاکستان سے ادیبوں‘ شاعروں اور فنونِ لطیفہ سے متعلق دیگر شخصیات کو مدعو کیا جاتا تھا۔ اکثر تو پاکستانی سفیر اپنی رہائش گاہ بھی ان مہمانوں کے طعام و قیام کے لیے پیش کر دیا کرتے تھے۔
ہمالیہ سے اونچی‘ سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی پاک چین دوستی کو کوئی نظرلگ گئی یا حکمرانوں کی نیت بدل گئی۔ہمالیہ سے اونچی اس دوستی میں ہم کہاں کھڑے ہیں‘ سمندر کی گہرائیوں میں ہم کس تہہ پر اور شہد سے زیادہ میٹھی اس دوستی میں ہماری مٹھاس کی مقدار اور اوقات کیا ہے؟ انتہائی دکھ بھری اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاک چین دوستی کے اس سفر میں ہماری حیثیت مخمل میں ٹاٹ کے پیوند کا منظر نامہ پیش کرتی نظرآتی ہے۔علم وہنر سے لے کر جدید ترین ٹیکنالوجی تک‘ معاشی استحکام سے لے کر عالمی منڈیوں میں اجارہ داری تک‘ محنت کی عظمت سے لے کرذہانت اور دیانت تک وہ سبھی شعبوں میں ممتاز‘ معتبر اور ثابت قدم نظرآتے ہیں۔دوستیاں تو برابری اور مشترک قدروں کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ہم چین سے دوستی کا دم تو بھرتے ہیں لیکن بھرم نہیں رکھ پاتے۔چین کی غیرمعمولی ترقی اور اجارہ داریاں کسی نے انہیں پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیں۔ اس کے لیے انہوں نے مسلسل محنت‘ دیانت اور ذہانت کو اپنا شعار بنایا ہے اور شارٹ کٹ کے بجائے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی مفادات سے ہم آہنگ مستقل پالیسیاں‘ سماجی و معاشرتی انصاف اور بے رحم احتساب کو نصب العین بنا کر ہی اقوامِ عالم میں ممتاز ترین مقام حاصل کیا ہے۔بدقسمتی سے ہم پاک چین دوستی کا جھنڈا اٹھائے توپھرتے ہیں لیکن ہم نے کبھی ان کی ترقی کا راز جاننے کے باوجود اسے اپنانے کی کوشش تو درکنار‘ نیت بھی نہیں کی۔
جس ملک میں گورننس اور میرٹ کو مصلحتوں اور مفادات کی بھینٹ چڑھایاجاتا ہو‘ قانون اور ضابطے حکمرانوں کے آگے بے بس اور سرنگوں ہوں‘مینڈیٹ بیچے جاتے ہوں‘آئین اور حلف سے انحراف پر شرمندگی کے بجائے نازاں اور اترائے پھرتے ہوں‘ ملک و قوم کے مفاد پر بندہ پروری اور کنبہ پروری کو فوقیت ہو‘مفادِ عامہ کے منصوبے اللوں تللوں میں اڑائے جاتے ہوں‘ قرض کی قسط ادا کرنے کیلئے بھی قرض لیے جاتے ہوں‘حقیقی آمدن شاہانہ طرزِ زندگی کا منہ چڑاتی ہو۔چور بھی چور چور کا شور مچاتے ہوں۔وہاں دوستی نبھانا تو درکنار اکثر ممالک تو اس کا سوچتے بھی نہیں۔خدا جانے کس زعم اور کس مغالطے میں زبانی دعوے کرنے پر آج بھی تلے ہوئے ہیںجبکہ ہمالیہ سے اونچی دوستی سی پیک منصوبے میں بھٹک رہی ہے۔شہد سے میٹھی دوستی میں شہد کے بجائے شیرا اور سکرین برآمد ہونا شروع ہوگئی ہے اور سمندروں سے گہری دوستی خدا جانے کس پاتال میں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved