(پردہ اٹھتا ہے)
مولا جٹ گنڈاسا لے کر شہر کے وسط میں کھڑا ہے۔ سونے کی کڑھا ئی والا لمبا سیاہ کُرتا اس پر خوب سج رہا ہے۔ کرتا اس کے ٹخنوں تک لمبا ہے۔ نیچے سفید لٹھے کا تہمد ہے اور پا ئوں میں ملتانی کھسہ‘ جس کا رنگ خون جیسا لال ہے۔ اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔ کبھی وہ اپنے خوفناک دانتوں کی نمائش کے بہانے منہ اوپر اٹھا کر زور کا لمبا قہقہہ لگاتا ہے‘ کبھی اپنے گنڈاسے کی دھار کو دیکھتا ہے۔ جب وہ قہقہہ لگاتا ہے تو اس کے پیلے دانتوں کی ریخیں تک نظر آتی ہیں۔ اس کے کانوں کی مندریاں چاندی کی ہیں‘ جو الگ جھلکارے مار رہی ہیں۔ اس کے بال گردن تک لمبے ہیں۔ غور سے دیکھیں تب بھی پتا نہیں چلتا کہ یہ بال اصلی ہیں یا اس نے وِگ لگا ئی ہو ئی ہے۔
مولا جٹ کا شہر میں پھیرا سال کے سال لگتا ہے۔ بہت سارے ایک سال کا عرصہ چین سے گزارتے ہیں اور بہت سارے خوفزدہ ہو کر کہ سال گزرنے کا پتا بھی نہیں چلتا۔ یوں لگتا ہے کہ کل ہی تو مولا جٹ آیا تھا‘ آج پھر آ گیا ہے۔ مولا جٹ سال بہ سال آ کر لوگوں کو اپنی شکل دکھا کر غائب ہو جاتا ہے۔ مقصد اس کا یہی ہوتا ہے کہ شہر میں اس کی دہشت قا ئم و دا ئم رہے۔ شہر کے لوگ اس سے ڈر کر چھپ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مولا جٹ جب بھی اس حالت میں لوگوں کے سامنے آتا ہے تو اس کا مقصد لوگوں کو ڈرانا ہی ہوتا ہے۔ کچھ اس کے لمبے سیاہ کرتے سے ڈر جاتے ہیں‘ کچھ اس کی وگ والے بالوں سے خوف کھاتے ہیں۔ وہ عارف لوہار سٹا ئل میں بالوں کو جھٹکاتا ہے اور گرج دار آواز میں اپنے ویریوں اور دشمنوں کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ آج 'اخیر‘ کر دوں گا۔ خواتین کو حکم دیتا ہے کہ اپنے دروازے بند کر لیں‘ کو ئی گھر سے باہر نہ نکلے‘ اپنے بچوں کو گھروں کی دہلیز سے باہر نہ آنے دیں۔ کسی قسم کی حکم عدولی کی کو ئی گنجا ئش نہیں۔ مولا جٹ ایک قدم اٹھاتا ہے۔ وہ اپنے دا ئیں با ئیں دیکھتا ہے‘ سب اس سے خوف کھا کر چھپ چکے ہیں۔ کہیں کو ئی ذی روح نظر نہیں آتا۔ خوف اور دہشت کا عالم ہے‘ وہ مونچھوں کو تا ئو دیتا ہے اور سب دشمنوں کو للکارتا ہے کہ کہیں کوئی ہے؟ ایسے لگتا ہے کہ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ ہے کوئی جو سامنے آ ئے؟ سب مر گئے کیا؟وہ ایک فلک شگاف قہقہہ لگاتا ہے۔
سارا شہر چپ ہے مگر دو لوگوں کو نہ اس کی دہشت کی پروا تھی نہ اس کے دادا گیری والے لباس کی۔ ان میں ایک مجذوب ہے اور ایک چھوٹا سا بچہ۔ اسے بھی مجذوب ہی سمجھیے کہ بچہ بھی مجذوب ہی ہوتا ہے۔ ان دونوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ مولا جٹ کون ہے؟ دہشت، خوف اور کسی آدمی کا رعب سوچنے سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ کو ئی کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہو تو لوگ اس سے ڈرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر کو ئی فا ئدہ پہنچا سکتا ہو یا آپ کی کسی مسئلے میں مدد کر سکتا ہو تو آپ اس کے فریفتہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ نقصان اور فا ئدہ ہی لوگوں کا ترازو ہے۔ اسی میں سارے تُلتے ہیں۔ میں‘ آپ اور مولا جٹ۔ مجذوب اور چھوٹے بچے کا معاملہ یکسر مختلف تھا۔ نہ ان کو کو ئی فا ئدہ پہنچا سکتا تھا اور نہ ان کو کو ئی نقصان پہنچا سکتا تھا‘ کہ وہ دونوں نفع نقصان کے ترازو سے واقف ہی نہ تھے۔ مجذوب کا برا کریں یا بھلا‘ اس نے ہنسنا ہی ہے۔ اور معصوم بچہ نفع نقصان جاننے کی عمر ہی میںنہ تھا؛ البتہ جسمانی گزند ان دونوں کو پہنچ سکتی تھی۔ مولا جٹ ان دونوں کو جسمانی طور پر نقصان پہنچا سکتا تھا مگر وہ دونوں اس احساس سے بھی عاری تھے کہ وہ انہیں گزند پہنچا ئے گا یا نہیں۔ دونوں اس معاملے میں بے نیاز اس کی جانب افتاں و خیزاں بڑھتے چلے آ رہے تھے۔
اس بسیط خاموشی میں اچانک مولا کی گرج دار آواز گونجتی ہے: او ئے مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مر سکدا۔ یہ آواز اور اس کا ارتعاش شہر میں پھیلتا ہے۔ گھروں میں‘ بوڑھوں میں‘ جوانوں میں‘ دلوں میں اور دلوں کی دھڑکنوں دھک دھک کی جگہ 'مولا جٹ جٹ‘ کی آواز آتی ہے۔ مجذوب اس کے سامنے عین سامنے آ جاتا ہے۔ جیسے مجذوب مولا جٹ پر جھپٹنے والا ہو۔ جیسے اسے اُس کا کو ئی خوف نہ ہو، جیسے اس نے اُس کا سیاہ کرتا دیکھا ہی نہ ہو۔ جیسے اس کے نزدیک چمکتے ہو ئے گنڈاسے کی وقعت صفر ہو۔ ایک دروازے کے پیچھے ایک بوڑھا کھڑا ہے‘ جس کو باہر نکلنے کا حوصلہ نہیں ہے، نہ وہ مولا جٹ کا سامنا کر سکتا ہے نہ وہ منظر دیکھنے کی ہمت پاتا ہے۔ یہ منظر کئی بار اس کے سامنے دہرایا گیا۔ اب اس کی پراسراریت اور اس کا تجسس اس کے لیے ختم ہو چکا ہے۔ اب نہ اسے مولا جٹ کے دانتوں کی نما ئش سے خوف آتا ہے نہ وہ مجذوبیت سے متاثر ہوتا ہے اور نہ ہی اسے بچے کی معصومیت ہانٹ کرتی ہے۔ بوڑھا پڑھا لکھا آدمی ہے اور پڑھا لکھا آدمی تھوڑا بزدل ہوتا ہے‘ وہ کسی کو للکارنے کی جرأت نہیں کرتا۔ اسے کسی کے خلاف بولنے کی تربیت نہیں دی گئی ہوتی۔ یہی اس بوڑھے آدمی کا المیہ ہے۔ وہ جس کلاس سے تعلق رکھتا ہے وہ کسی کو غلط سمجھتے ہو ئے اس کو روکنے کی کوشش ہی نہیں کرتی۔ اسے ہمیشہ ایک ایسے آدمی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے پیچھے وہ چل سکے۔ یہ کلاس خود آگے آنے کے متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہ ارتقا ئی پروسیس پر یقین رکھتی ہے۔ اصل میں وہ ڈارون کے پیروکار ہوتے ہیں جس میں مادہ کو لاکھوں‘ اربوں سال درکار ہوتے ہیں تب کہیں 'بوزنہ‘ انسان بنتا ہے۔
دروازے سے لگے اس بوڑھے کو ایک پرانی کہانی یاد آتی ہے۔ یہ کہانی تو ڈَچ مصنف 'ہینز اینڈرسن‘ کی لکھی ہو ئی تھی۔ یورپ کے کسی ملک کا کو ئی بادشاہ تھا۔ تمام لوگ اس بادشاہ کے ظلم سے تنگ تھے۔ اصل میں اس نے تمام بااثر لوگوں اور گروہوں کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ ان کو لوگوں کی دولت لوٹنے اور زمینوں پر قبضے کی اجازت تھی۔ وہاں نوشیرواں تو تھا نہیں کہ انصاف کرتا۔ بادشاہ کا انصاف اپنے لوگوں سے شروع ہوتا اور انہی پر ختم ہو جاتا تھا۔ بادشاہ کے دوستوں کے پیٹ اور گھر دولت سے بھر گئے۔ دوستوں کے دوستوں کو نوازنے کا کام شروع ہوا۔ اجازت دی گئی کہ جو بادشاہ کا ساتھی ہے‘ اسے ہر قسم کی لوٹ مار کی اجازت ہے۔ بہت سارے لوگوں کا تربیت یافتہ گروہ اس کام پر مامور کر دیا گیا کہ عام آدمی کے کانوں میں یہ بات ڈالنی ہے کہ بادشاہ معصوم ہے‘ اس سے کسی قسم کی غلطی کا امکان نہیں‘ جو وہ کہتا ہے سچ کہتا ہے‘ جو وہ کرتا ہے عین قومی مفاد میں کرتا ہے‘ اس کے دل میں قوم کے درد کے سوا کچھ نہیں ہے‘ اسے رموزِ مملکت اور سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں‘ وہ صرف قوم کی خاطر اس منصب پر بیٹھا ہے ورنہ اس کے نزدیک مال و دولت و دنیا اور رشتہ و پیوند کی پرِ کاہ کے برابر حیثیت نہیں‘ اس کے نزدیک یہ سب کچھ بتانِ وہم و گماں ہیں‘ اسے بادشاہی سے قطعاً سروکار نہیں۔ بوڑھے نے یاد کیا کہ بادشاہ نے ''سچ کا لباس‘‘ بنوایا اور پہن لیا۔ اب وہ صرف اس کو نظر آ سکتا تھا جو اس کے سامنے خم ٹھونک کر سامنے آئے۔ باقی سبھوں کی نظروں سے وہ اوجھل ہو گیا۔ ساری مخلوق بادشاہ کے سامنے آتی اس کے سامنے کورنش بجا لاتی۔ کسی کو کیسے معلوم ہو کہ بادشاہ ننگا ہے اور اس کی طاقت اس کے سچ کے لباس میں پوشیدہ ہے۔ بوڑھا دل کڑا کر کے مولا جٹ کے سامنے آنے کے لیے دروازہ کھول دیتا ہے۔ مولا جٹ کی حقیقت اس پر آشکار ہو چکی ہے۔
وہ ایک کمزور آدمی ہے‘ اس کی طاقت بدمعاشی والے کرتے اور تہمد میں چھپی ہے‘ وہ ریت کا ایک بت ہے۔ بوڑھے کو پتا چل جاتا ہے کہ مولاجٹ ایک فلمی اداکار ہے‘ اس نے جو حلیہ بنایا ہوا ہے وہ اصل نہیں ہے۔ لمبے سیاہ کرتے میں وہ فرد نہیں جس کو وہ ظاہر کر رہا ہے۔ وہ ایک سکرپٹ کا بندہ ہے۔ اس کی اصل وہ ہدایت کار ہے جو اس کے پیچھے کھڑا ہے۔
دروازے سے لگا بوڑھا اچانک دروازہ کھول دیتا ہے۔ مولا جٹ کے سامنے آ کر پھیپھڑوں کا سارا زور لگا کر قہقہہ لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ قہقہہ ضعف اور بڑھاپے کی وجہ سے حلق سے باہر نہیں آ پاتا۔ مولا جٹ اپنی لال آنکھوں نکالتا ہوا بوڑھے کی جانب دیکھتا ہے پھیپھڑے پھاڑ کر قہقہہ لگاتا ہے۔ گنڈاسا چمکنے لگتا ہے۔
(پردہ گرتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved