احتجاج‘ مان لیا کہ آپ کا حق ہے‘مگر حق کیا کسی ضابطے کا پابند نہیں ہوتا؟
حرکت‘آپ کا بنیادی حق ہے مگر کیااس کا مطلب یہ ہے کہ آپ چہل قدمی فرماتے‘دوسروں کے آنگن میں جا نکلیں؟اظہارِ رائے آپ کا حق ہے مگر کیا اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو آپ کے منہ میں آئے‘آپ کہہ گزریں؟دشنام‘تہمت‘ استہزا‘گالی‘کیا ہم انہیں آزادیٔ رائے کا ثمرمان لیں؟آزادی اور لاقانونیت میں کیا کوئی فرق نہیں ہوتا؟ جمہوری معاشرہ کیا مادر پدر آزاد ہو تا ہے؟
ہم انسان کے تہذیبی سفر سے بچھڑا ہوا معاشرہ ہیں۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا۔ ٹیکنالوجی اورعالمگیریت کا جبر کہتا ہے کہ ہم زمانے سے ہم قدم ہوں۔ ہمارے ہاں مگر ارتقا کی بہت سے کڑیاں غائب ہیں۔ ہم اس ہم قدمی پر مجبور کر دیے گئے ہیں مگر راستے کے آداب سے واقف ہیں نہ سنگ ہائے میل سے۔ پڑاؤ سے نہ منزل سے۔ مبہم تصورات اور ان کی اَن گنت تعبیریں۔
نئے دور نے ہمیں یہ تو سکھادیا ہے کہ انسان آزاد ہے۔ جمہوریت ہے۔ بنیادی انسانی حقوق ہوتے ہیں۔ خواتین اور مرد برابر ہیں۔ ہم نے سب لیا اور ہم ایمان لے آئے۔ ہم مگر یہ نہیں جانتے کہ انسانی حقوق کا قافلہ یہاں تک کیسے پہنچا؟خواتین اگر آج مردوں کے کندھے سے کندھا ملائے ہوئے ہیں تووہ کل کہاں کھڑی تھیں؟سیکولرازم بہت خوش نما ہے لیکن اس کے آنے سے پہلے سماج ا ور کلیسا میں کیا کشمکش ہوئی؟بادشاہ طاقت کے مرکز سے محض علامت کیسے بنا؟ سرمایہ داری کی کوکھ سے فلاحی ریاست نے کیسے جنم لیا؟
'حق‘ ایک دوطرفہ عمل ہے۔ ہم اسے یک طرفہ سمجھتے ہیں۔ حق کی تعریف ایک سیاق وسباق میں کی جا تی ہے۔ سیاست میں جب ہم احتجاج کو اپنا بنیادی حق کہتے ہیں تو یہ خود بخود واضح ہے کہ اس کا تناظر وہ عمرانی معاہدہ ہے جو شہریوں اور ریاست کے درمیان ہے۔ اسے آئین کہتے ہیں۔ اس میں ایک طرف عوام ہیں اور دوسری طرف ریاست۔ احتجاج کا یہ حق‘ لازم ہے کہ ریاست کی اس ذمہ داری سے متصادم نہ ہو جس کا تعلق عوام کے اجتماعی تحفظ سے ہے۔ اگر ایک گروہ احتجاج کے نام پر راستے پر قبضہ کر لے گا تو لازم ہے کہ دوسروں کی آزادانہ نقل وحرکت مجروح ہو‘جو اُن کا بنیادی حق ہے۔ یہ حق دلانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ 'احتجاج‘ کو ایک روزمرہ کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی ریاست اس طرح نہیں چل سکتی۔ احتجاج کسی مطالبے کو منوانے کے لیے کیا جا تا ہے۔ ہر مطالبہ ایک اجتماعی نظام کے تحت ہی مانا جاتا ہے۔ مطالبہ بھی اس نظام یا سسٹم کو قبول کر کے ہی کیا جاتا ہے۔ چند دن پہلے پی ٹی آئی نے احتجاج کیا۔ عدالت نے اس کے لیے آداب مقرر کر دیے۔ جیسے جگہ اوراحتجاج کے دورانیے کا تعین‘ یا جیسے یہ کہ کوئی راستہ بند نہیں کیا جا ئے گا۔ اب احتجاج کرنے والوں کے لیے لازم ہو گیا کہ وہ اس کی پابندی کریں۔
اس کی ایک فرع یہ ہے کہ احتجاج روزانہ نہیں ہو سکتا۔ آپ نے پوری کوشش کی کہ بیس لاکھ افراد جمع کریں اور کاروبارِ ریاست کو معطل کردیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی ریاست اس کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اس نے لوگوں کو جمع ہونے سے روکنا تھا۔ اگر عوام فی الواقع اتنی بڑی تعداد میں عمران خان صاحب کے ساتھ نکلتے تو حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اس کا راستہ روک سکتی۔ پھر ریاستی نظام مفلوج ہوجا نا تھا۔ نتیجتاً حکومت باقی نہ رہتی۔ دوسری صورت یہ تھی کہ حکومت اس کو ناممکن بنا دیتی۔ اس نے بنا دیا۔
اب کیا پی ٹی آئی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ نادر شاہ کی طرح بار بار دارالحکومت پر حملہ آور ہوتی اوردلّی پر اس کے حملوں کا ریکارڈ توڑنے کی کوشش میں لگی رہے ؟کیا اس طرح کوئی نظام چل سکتا ہے؟کیا قانون اور عقل کا یہ تقاضا نہیں ہو گا کہ احتجاج کو آداب کا پابند بنایا جائے؟مولانا فضل الرحمن نے بھی سابقہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا مگر اسے ختم کرنے میں ناکام رہے۔ کیا ان کا یہ حق مان لیا جاتا کہ وہ اسلام آباد پر ہفت روزہ یلغار کریں؟ چند ہزار افراد کے اجتماع سے حکومتیں نہیں گرائی جا سکتیں لیکن روزمرہ زندگی مفلوج کی جا سکتی ہے۔ اس سے عام آدمی متاثر ہو تا ہے۔ بڑے شہروں میں ہمارا روزانہ کا مشاہدہ ہے کہ دو گاڑیاں ٹکرا جائیں تو ٹریفک اتنی درہم برہم ہوتی ہے کہ اَن گنت لوگوں کی منزل کھوٹی ہو جاتی ہے۔
تیسری بات یہ کہ سسٹم ریاست کے اس اختیار کو تسلیم کرتاہے کہ وہ عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے‘چاہے تو کوئی اقدام کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر دفعہ144 یا 16 ایم پی اوکا نفاذ۔ اجتماع کی آزادی آپ کا حق ہے لیکن یہ نظام حکومت کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ پانچ افراد سے زیادہ کے اجتماع پر پابندی عائد کردے۔ یا اگر کوئی ہجوم بے قابو ہو جائے تو اس کے شر سے عوام کے جان و مال کومحفوظ رکھنے کے لیے طاقت کا استعمال کرے۔
یہ ممکن ہے کہ قانون حکومت کو جو حق دیتا ہے‘وہ اس کے استعمال میں حد سے تجاوز کرے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی سیاسی جماعت احتجاج کے نام پر قانون کو پامال کرے۔ کیا اس سسٹم میں اس تجاوزیا قانون کی پامالی کو روکنے کا کوئی طریقہ موجود ہے؟ اس کا جواب اثبات میں ہے۔ یہ حل عدلیہ تجویز کرتی ہے۔ وہ فریقین کو پابند بناتی ہے کہ وہ اپنی حدود میں رہیں اور دوسروں کے وجود کو تسلیم کریں۔
عالمی تہذیبی قافلے سے بچھڑنے کے باعث‘پاکستانی معاشرہ فکری انتشار کا شکار ہے۔ لوگ نہیں سمجھ رہے کہ کوئی حق قانون اور سماجی روایات سے ماورا نہیں ہوتا۔ احتجاج جمہوری حق ہے لیکن اس کے بھی آداب ہیں۔ مجھے اُس پاکستانی پر حیرت ہے جو برطانیہ جیسے ملک میں رہتا ہے اور پاکستانی سفارت خانے کے ذمہ داران کو اس ان پڑھ دیہاتی کی طرح تڑی لگاتا ہے جسے جمہوریت اور سیاسی اداروں کے بارے میں رتی برابر علم نہیں ہوتا۔ یہی حال اس طبقے کا ہے جو احتجاج کواس طرح پیش کرتا ہے جیسے یہ حق کسی قانون ضابطے کا پابند نہیں۔
احتجاج کو روزمرہ نہیں بنایا جا سکتا۔ لازم ہے کہ یہ حق بھی کسی قانون کا پابند ہو۔ دیگربنیادی حقوق کی طرح‘اسے بھی استحکام اوردیگر سماجی ضروریات و آداب کے تابع کیا جائے۔ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتمادکی تحریک پیش کر نا اپوزیشن کا حق ہے۔ یہ تحریک مگر ایک بار ناکام ہو جائے تو اگلے چھ ماہ تک دوبارہ نہیں پیش کی جا سکتی۔ کیوں؟ اس لیے کہ نظام کو چلنا ہو تا ہے۔ اگر آئے دن اس طرح کی تحریکیں پیش ہو تی رہیں تو حکومتیں عدم استحکام کا شکار ہوتی ہیں اور نتیجتاً ریاست۔
آج لازم ہے کہ احتجاج کے لیے بھی اسی طرح کا قانون بنا دیا جائے۔ اسلام آباد کی فتح کے لیے‘احتجاج کاایک وار اگر ناکام ہو جائے تو اگلے چھ ماہ کوئی دوسرا حملہ نہیں کیا جا ئے گا۔ سیاست کو بچوں کا کھیل نہیں بنانا چاہیے اور نہ ہی ریاست کو کسی ضد کے حوالے کیا جا نا چاہیے۔ عدالت یا قانون کسی فردِ واحد کی خوشنودی کے لیے نہیں‘ اجتماعی مفاد کے لیے ہوتے ہیں۔ پاکستان آج کسی نادر شاہ ثانی کا متحمل نہیں ہو سکتا جو آئے دن اسلام آباد پر حملہ آور ہوتا رہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved