تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     17-08-2013

نااہلی‘ نالائقی اور ناکامی کا ’’حسین‘‘ امتزاج

اسلام آباد کے ہائی سکیورٹی زون میں پانچ ساڑھے پانچ گھنٹے تک چلنے والا فلمی ڈرامہ ٹائپ معاملہ ایک سویلین سیاستدان زمردخان کے باعث غیرمتوقع طورپر جلد ختم ہوگیا۔ میں نے غیرمتوقع کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس یا ایسے معاملات سے نپٹنے والے دیگر اداروں کی نااہلی دیکھتے ہوئے پانچ ساڑھے پانچ گھنٹوں کے بعد بھی اس معاملے کے اختتام کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔ اس ساری تاخیر کا باعث مسلح شخص کی ذات نہیں تھی بلکہ معاملات کو ہینڈل کرنے والوں کی نااہلی اور نالائقی تھی۔ جس طرح آخر کار ساری گولیاں چلاکر اپنی رائفلیں خالی کردینے اور غیرمسلح ہوجانے کے بعد بھاگتے ہوئے ایک شخص کو پولیس نے ’’بہادری‘‘ سے گولیاں ماریں اور اس کے گرنے کے بعد اردگرد کھڑے ہوئے شیرجوانوں نے سینکڑوں رائونڈ فائر کرکے ایسے معاملات کو ہینڈ ل کرنے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا وہ واقعتاً شرمناک ہے۔ اس سارے واقعے نے جہاں اسلام آباد میں سکیورٹی کا پول کھولا ہے وہاں ایک بار پھر ہمارے قانون نافذ کرنے اور دہشت گردی سے نپٹنے والے اداروں کی کارکردگی کا پول بھی کھول کررکھ دیا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ایسا ہربار ہوا ہے لیکن آفرین ہے ہم پر۔ ہم نے کبھی گزشتہ واقعے سے‘ ناکامی سے اور نااہلی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ ایسے واقعات سے نپٹنے کی صلاحیتوں سے عاری ہونے کا مظاہرہ ہم عرصے سے کرتے آرہے ہیں اور ہربار پہلے سے زیادہ بری کارکردگی دیکھنے میں آتی ہے۔ پاکستان میں اس قسم کی کسی صورت حال میں ہربار ٹامک ٹوئیاں ماری جاتی ہیں۔ ہر بار مناسب تربیت کی کمی دیکھنے میں آتی ہے۔ ہربار مناسب آلات کی غیرموجودگی کا احساس ہوتا ہے اور ہربار ایسی صورت حال میں کسی معاملہ فہمی اور قوت فیصلہ کی عدم موجودگی نظرآتی ہے۔ پانچ ستمبر 1986ء کو پین ایم ایئرلائن کی فلائٹ نمبر 73ممبئی سے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ نیویارک براستہ کراچی‘ فرینکفرٹ جارہی تھی۔ کراچی ایئرپورٹ پر پانچ مسلح افراد ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کی وردیوں میں ملبوس ہوکر ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کی طرز کی بنائی گئی نقلی گاڑی میں سوارہوکر رن وے پر پہنچے اوردندناتے ہوئے جہاز میں داخل ہوگئے۔ ان مسلح اغواکاروں کا تعلق ابوندال آرگنائزیشن سے تھا۔ اس کے بعد معاملے کو ہینڈل کرنے میں ناکامیوں اور نااہلیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ آخر کار اغواکاروں نے جہاز میں فائر کھول دیا ۔ بائیس مسافر ہلاک ہوگئے۔ اس افراتفری میں مسافروں نے ایمرجنسی گیٹ کھول دیے اور ازخود جہاز سے بھاگنا شروع کردیا۔ اغواکاراس افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسافروں میں شامل ہوگئے اور جہاز سے نکل بھاگے تاہم مسافروں کی نشاندہی پر لائونج اورروانگی والے دروازوں پر پکڑے گئے۔ انہیں پہلے سزائے موت ہوئی جو بعد ازاں عمرقید میں تبدیل ہوگئی۔ پاکستان میں پین ایم کا فضائی آپریشن بند کردیا گیا۔ بعدازاں دیگر غیر ملکی ایئرلائن کمپنیوں نے بھی آہستہ آہستہ پاکستان کا روٹ ختم کردیا۔ پاکستان سے رہائی کے بعد دواغوا کاروں کو 28ستمبر 2001ء میں، یعنی پندرہ سال بعد امریکی تحقیقاتی ایجنسی ایف بی آئی نے بنکاک ایئرپورٹ پر پاکستان سے واپسی پر گرفتار کرلیا اور انہیں امریکی شہریوں کے قتل اور دیگر جرائم میں ایک سوساٹھ سال کی قید سنادی۔ امریکی حکومت نے باقی تین اغواکاروں کی گرفتاری میں مدد دینے کے لیے پانچ ملین ڈالر کے انعام کا اعلان کیا۔ ایک اغواکار جنوری 2010ء کو امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا ۔ امریکی ابھی تک بقیہ دواغواکاروں کو تلاش کررہے ہیں۔ ہمارے ہاں نہ کوئی قومی پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی مربوط نظام۔ نہ ہی کوئی یکسوئی ہے اور نہ ہی کوئی عزم وارادہ ۔ بس نااہلی ہے اور نالائقی۔ اسلام آباد میں زلزلے کے باعث مارگلہ ٹاور گر گیا تو پتہ چلا کہ دارالحکومت میں ملبہ اٹھانے اور ہٹانے کے لیے کوئی بھاری مشینری ہی نہیں ہے۔ کراچی میں بلند عمارت میں آگ لگی تو جان بچانے کی غرض سے عمارت سے کودنے والا نوجوان محض اس لیے جان سے گزر گیا کہ نیچے کسی کے پاس اس کی جان بچانے کے لیے جال نہیں تھا۔ ایل ڈی اے پلازہ لاہور میں آتشزدگی ہوئی تو پتہ چلا کہ بلند منزلوں پر پانی پھینکنے کے لیے صوبائی دارالحکومت میں کوئی بندوبست ہی نہیں ہے۔ وہاں موجود لوگوں نے جان بچانے کے لیے کھڑکیوں میں آکر دہائی دی تو علم ہوا کہ اونچی سیڑھی ہی موجود نہیں جس سے ان لوگوں کو عمارت سے نکالا جاسکتا۔ نیچے کودنے والے جان سے گئے کہ نیچے کوئی جال نہیں تھا۔ امریکی ایبٹ آباد میں آکر آپریشن کرکے واپس چلے گئے مگر کوئی سسٹم کام نہ آیا۔ غرض ہرایمرجنسی میں‘ ہرمصیبت میں اور ہربری صورتحال میں ہمارا سارا نظام اپنی تمام تر نااہلی اور نالائقی کے ساتھ بری طرح آشکار ہوامگر ہم ہیں کہ ہر بار نیا تجربہ کرتے ہیں اور نئی طرح سے ناکام ہوتے ہیں۔ چلیں یہ بات تو ماننے والی ہے کہ فیملی کے ساتھ اسلام آباد کے حساس علاقے میں دورائفلوں کے ساتھ داخل ہوا جاسکتا ہے کیونکہ یہ عملی طورپرممکن ہی نہیں کہ ہرگاڑی کی مکمل تلاشی لی جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو سارا اسلام آباد جام ہوجائے۔ ہزاروں گاڑیاں پھنس جائیں اور ٹریفک کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے لیکن اس معاملے سے نپٹنے کی حکمت عملی میں مکمل ناکامی اصل غورطلب معاملہ ہے۔ وہ شخص گھنٹوں موبائل فون پر باتیں کرتا رہا۔ پانچ منٹ میں موبائل جیمر کے ذریعے موبائل فون سروس جام کی جاسکتی تھی۔ بیہوش کرنے والی رائفل سے مسلح شخص کو بیہوش کیا جاسکتا تھا۔ مذاکرات کے لیے بار بار آنے والی اس کی بیوی کو یرغمال بناکر اسے سرنڈر پر مجبور کیا جاسکتا تھا۔ ادھر ادھر بھاگنے والے اس کے بچوں کو اپنی تحویل میں لے کر اس کی پوزیشن کمزور کی جاسکتی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو کام زمرد خان نے پانچ گھنٹے بعد کیا وہ ایس ایس پی پانچ گھنٹے پہلے کرسکتا تھا مگر یہ حقیقت ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں تھا اس موقعہ پر کیا کرنا چاہیے۔ سب کا زور اس بات پر تھا کہ اس کے ساتھ بیوی بچے ہیں لہٰذا اس کے خلاف ایکشن نہیں لیا جاسکتا۔ ہیومن شیلڈ کی حدتک یہ بات کسی حدتک درست ہے لیکن دنیا بھر میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ ایک مسلح شخص پورے علاقے کے لیے خطرے کا باعث بنا ہواور اسے غیرمعمولی رعایتیں دی جائیں۔ وہ احمق شخص پورے پانچ گھنٹے تک ایک انتہائی آسان اور اوپن ٹارگٹ کے طورپر گاڑی میں اور گاڑی کے باہر ہرلمحہ موجود رہا اور اسے کسی چڑیا سے بھی زیادہ آسانی سے سنائپرز کے ذریعے زخمی بھی کیا جاسکتا تھا اور آسانی سے مارا بھی جاسکتا تھا مگر نااہل افسروں پر انسانی ہمدردی طاری تھی۔ انہیں علم نہیں کہ ان کی اس نااہلی اور نالائقی نے سکیورٹی کے کتنے کمزور پہلو آشکار کیے ہیں اور اس سے کتنے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور ان کے حوصلوں کو کتنی تقویت پہنچی ہے۔ گربہ کشتن روزاول کے مطابق اسلام آباد کی انتظامیہ کے پاس دہشت گردوں کو پیغام دینے کا یہ ایک نادر موقعہ تھا جو نہ صرف انہوں نے کھودیا بلکہ الٹا اپنے لیے مستقبل کی ایک مصیبت مول لے لی ہے۔ پاکستان اس وقت جس دہشت گردی اور عدم استحکام کا شکار ہے اس میں مصلحت کی یا نرمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ پوری دنیا میں ایسے معاملات سے نپٹنے کا جورائج طریقہ ہے وہ ایسے مسلح شخص کی فوری ہلاکت ہے۔ یہ دوسروں کے لیے ایک پیغام بھی ہوتا ہے اور باعثِ عبرت بھی مگر ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ سارا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور دارالحکومت کی ساری انتظامیہ ایک انتہائی غیرتربیت یافتہ اور احمق شخص کو پانچ گھنٹوں میں قابو نہیں کرسکی ۔ طاقت کے استعمال سے اجتناب کی بات کرنے والوں نے اس پر اس وقت طاقت استعمال کی جب نہ تو اس کی ضرورت تھی اور نہ ہی کوئی اہمیت باقی بچی تھی۔ اسلام آباد کا حالیہ واقعہ ہماری نااہلی، نالائقی اور ناکامی کا ’’حسین‘‘ امتزاج ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved