پچھلے ہفتے کے دن پشاور میں عمران خان سے ملاقات میں یوںمحسوس ہوا کہ ان کا غصہ کچھ کم ہو ا ہے۔ چند دن پہلے وہ ایک ایسے پہلوان کی طرح دکھائی دیتے تھے جو اپنے حریفوں سے اکھاڑے کے باہر بھی نمٹنے کیلئے تیار ہے‘ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ وہ تصادم کو حدمیں رکھتے ہوئے کسی حکمت عملی کی تیاری میں ہیں۔ انہیں وہ دھوکے یاد ہیں جو انہوں نے کچھ دوستوں سے کھائے تھے مگر مشکل وقت میں بہت سے دوستوں کا ساتھ کھڑے رہنا ان کے حوصلے کا باعث ہے۔ پہلے وہ اپنے ساتھیوں کوپسندیدہ اور مجبوری کے درجوں میں رکھا کرتے تھے‘ اب وہ اپنے ساتھ والوں کی درجہ بندی ان کے خلوص اور معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت پر کرنے لگے ہیں۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد وہ اپنے سیاسی حریفوں کو غصے سے نام دیتے تھے ‘ اب نام رکھنے میں وہ ایک خاص طرح کا مزا لیتے ہیں۔ پہلے کچھ خاص معاملات میں بات کرتے ہوئے ان کے لہجے میں حقارت نمایاں ہوتی تھی‘ اب بات کرتے ہیں تو حقارت کے بجائے لہجہ افسوس کا تاثر لیے ہوتا ہے۔
پشاور میںہی یہ معلوم ہوا کہ عمران خان کے علاوہ تحریک انصاف کی قیادت ہر سطح پر حکومت اور نظام کے دیگر فریقوں کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے۔ان کی پوری کوشش ہے کہ طویل سیاسی تحریک کے بجائے نئے الیکشن کیلئے راستہ مذاکرات کے ذریعے ہی نکل آئے۔ خان صاحب کے ایک معتبر ساتھی ہیئت مقتدرہ کے اہم ترین افراد کے ساتھ رابطے پیدا کرچکے ہیں ‘ جن کی بنیاد پر ان کا دعویٰ ہے کہ عمران خان تھوڑی سی لچک دکھائیں تو معاملات آگے چل سکتے ہیں۔تحریک انصاف کے ان مذاکرات کاروں کی سب سے بڑی مشکل ہے کہ عمران خان اسمبلیاں توڑنے کی تاریخ کا تعین کیے بغیر کسی پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں۔ پاکستان میں طاقت کے سبھی فریق چاہتے ہیں کہ پہلے سابق وزیر اعظم اپنا لہجہ اورموقف نرم کریں مگر اب تک انہیںمنایا نہیں جاسکا۔ بداعتمادی کی اس فضا میں ایک لطیفہ کہہ لیجیے یا تقدیر کی ستم ظریفی کہ 25 مئی کے دھرنے پر پارٹی کے کئی لوگوں کے تحفظات تھے۔ ان تحفظا ت کے باوجود جب 25اور 26 مئی کی درمیانی رات خان صاحب ڈی چوک کے پاس پہنچ گئے تو پس پردہ بات چیت بھی چل رہی تھی۔ ایک سابق وفاقی وزیر اس حوالے سے متحرک تھے اور ان کے مطابق گفتگو کافی آگے بڑھ چکی تھی۔ انہوں نے حکومت کی طرف سے بات چیت میں شامل لوگوں پر دباؤ ڈال رکھا تھا کہ اب دھرنا ختم نہیں ہوگا۔ حکومت دھرنے کی وجہ سے دباؤ میں آکر بہت کچھ تسلیم کرنے کیلئے تیار تھی لیکن اچانک عمران خان نے آئندہ چھ دن کی تاریخ دے کر دھرنا ختم کردیا۔ بغیر کوئی بات منوائے دھرنے کا التوا تو حکومت کو سب سے بڑی رعایت دینے کے مترادف تھا۔ حکومت پر دباؤختم ہوگیا ‘ لہٰذا بات چیت جہاں تھی وہیں ختم ہوگئی۔بغیر کسی مشاورت کے دھرنا ختم کرنے پر وہ رہنما کافی ناراض ہوئے اور انہوں نے خان صاحب کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں اپنی ناراضی کا اظہار بھی کیا۔
دھرنا ختم کرنے کے بارے میں خان صاحب الگ وجوہات بیان کرتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ حکومت جمہوری حدود کے اندر رہتے ہوئے دھرنے کو روکنے کی کوشش کرے گی۔ جب حکومت کی طرف سے تحریک انصاف کے کارکنوں کو بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی گاڑیاں توڑی جانے لگیں تو کارکنوں کا غصہ بڑھنے لگا۔ اسی ہنگامے کے دوران سپریم کورٹ میں ہونے والی کارروائی سے یہ تاثر پیدا ہوگیا کہ اب راستے کھل جائیں گے اور تشدد بھی ختم ہوجائے گا۔ یہ خبر جب اس کنٹینرمیں پہنچی جس پر عمران خان خود سوار تھے‘ تو وہاں اتنی خوشی منائی گئی کہ لوگ ایک دوسرے کو مبارک دینے لگے۔ شاداں و فرحاں یہ قافلۂ برہان پہنچا تو پنجاب پولیس نے راستہ روک لیا۔ آنسو گیس‘ ربڑ کی گولیاں اور لاٹھیاں برسنا شروع ہوئیں تو تحریک انصاف کو اندازہ ہوا کہ حکومت نے عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔ بلا امتیاز حکومتی تشدد نے ان نوجوانوں کو شدید غصہ دلا دیا جو اسلام آباد کی طرف آرہے تھے۔ جب یہ قافلہ اسلام آباد پہنچا تو راولپنڈی کے بعض نوجوان ازخود ہی اپنے لیڈر کی حفاظت کے لیے پستولیں جیب میں ڈال کر لے آئے۔ عمران خان کو اس صورتحال کا پتا اس وقت چلا جب وہ ڈی چوک پہنچے۔ ان کا اندازہ تھا کہ پولیس دراصل نوجوانوں کو بھڑکانے کیلئے تشدد کی ہر انتہا تک جارہی ہے۔ ایسی صورت میں کوئی ایک گولی بھی چلی تو پھرحالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔ خان صاحب بتاتے ہیں کہ ان کے سامنے دو راستے تھے‘ پہلا ملک کو انتشار سے بچانے کیلئے واپس جانے کا اور دوسرا خطرہ مول لے کر وہیں جم جانے کا۔ انہوں نے پہلا راستہ اختیار کیا اورواپس چل پڑے۔ وہ بتارہے تھے کہ انہیں پندرہ سال تک قائل کیا جاتا رہا کہ کراچی میں سیاست کیلئے کوئی مسلح تنظیم بنائی جائے۔اس تجویز پر انہوں نے ہمیشہ ایک ہی جواب دیا کہ ایک بار تحریک انصاف کی طرف سے کوئی گولی چلی تو پھر یہ جماعت گولی چلانے والوں کے ہاتھ میں ہی چلی جائے گی۔ گولی چلنے کا یہی خدشہ انہیں اسلام آباد سے پشاور لے گیا۔
عمران خان اپنے سیاسی حساب کتاب کے مطابق نظام پر اتنا دباؤ ڈال چکے ہیں کہ انہیں نکال کر بنائی جانے والی حکومت کچھ بھی کرلے‘ چل نہیں سکتی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کی بنیادی وجہ حکومت کی تبدیلی ہے جس نے دنیا بھر میں پاکستان کے حوالے سے کمزوری کا تاثر دیا ہے۔ ان کے خیال میں معیشت درست کرنے کیلئے پوری آزادی کے ساتھ روس سے تیل خریدنے جیسے بنیادی نوعیت کے فیصلے کرنا پڑیں گے جو یہ حکومت نہیں کرسکتی۔
بات عالمی سیاست کی طرف مڑی تو میں نے پوچھا‘ آپ نے امریکا سے لڑائی کر ہی لی مگر چین کے ساتھ کیوں الجھنیں پیدا کیں؟ اس پر انہوں نے پوچھا: اس کی کوئی ایک مثال دیں۔ میں نے کہا‘ یہ کسی ایک مثال پر منحصر نہیں‘ مجموعی تاثر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثرایک سازش کے تحت پھیلایا گیا ہے‘ صدر شی جن پنگ نے کورونا وبا میں کمی کے بعد جو پہلی تین ملاقاتیں کی تھیں ان میں سے ایک میرے ساتھ بطور وزیراعظم پاکستان ہوئی تھی۔ ابھی یہ بات چل رہی تھی کہ وہاں بیٹھے ایک سابق وفاقی وزیر نے چین اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدو ں کے حوالے سے کچھ معلومات دیں۔ ان کے مطابق کم ازکم ان معاہدوں پر ہمیں چین سے دوبارہ بات کرنی چاہیے کیونکہ اس طرح کے معاہدے افراد یا کمپنیوں کے فائدے میں ہوسکتے ہیں‘ ملکوں کے مفاد میں نہیں ہیں۔وفاقی وزیر کے چین کے ساتھ معاہدوں پر اعتراضات بڑے منطقی تھے۔ وہ بولتے رہے اور سب سنتے رہے‘ ان کی بات ختم ہوئی تو عمران خان بولے:اگر ہماری حکومت دوبارہ آتی ہے تو چین ہمارا سب سے بڑا دوست ہوگا کیونکہ اسے پتا ہے کہ ہماری حکومت کیسے نکالی گئی ہے۔
پشاور سے واپسی پر مجھے یاد آیا کہ عمران خان کی حکومت کاابھی دوسرا سال تھا کہ مجھے مسلم لیگ (ن) کے ایک جید رہنما نے کہا کہ اب ہم عمران خان کو کام نہیں کرنے دیں گے‘ چاہے یہ کچھ بھی کرلے۔ اس رہنمانے مجھے جو بتایا ‘ وہی ہوا۔ سیاسی اتحاد بننے لگے‘ جلسے جلوس ہونے لگے اور تحریک انصاف کی حکومت کیلئے کام کرنا مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ عمران خان سے ملاقات کے بعد میرا تاثر یہی ہے کہ اب وہ بھی یہی کررہے ہیں۔ وہ حالات یہاں تک لے آئے ہیں کہ چاہے خاموش رہیں یا تقریریں کریں‘ جلسے کریں یا نہ کریں‘ دھرنے دیں یا نہ دیں‘ ہر صورت میں کھیل ان کے ہاتھ میںچلا گیا ہے۔ان کا سارا زور اس بات پر ہے کہ یہ حکومت جلسے چاہے کرتی ر ہے‘ کام نہ کر پائے۔کام کیلئے اس حکومت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اس کے سیاسی جواز پر کوئی تصدیق کی مہر لگائے۔ ظاہر ہے جواز کی یہ مہر عمران خان کے پاس ہے اور وہ اس نظام کو اعتبار دینے کیلئے تیار نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved