ایک واقعہ ان گنت قومی المیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ پہلے زمرد خان‘ ان کی جرأت کو سلام لیکن یہ وہی بہادری ہے جس کا مظاہرہ ایک خود کش حملہ آور کرتا ہے۔اندھیرے میں چھلانگ۔ سکندر کی مہربانی کہ اس نے گولی نہیںچلائی ورنہ… میں یہ سوچ کر لرز جاتا ہوں۔ ایک غیر تربیت یافتہ آدمی ہی پھسل سکتا ہے جیسے زمرد خان پھسلے اور گرے۔یہ اگر ایسا ہی بچوں کا کھیل ہوتا تو دنیا بھر میں سلامتی کے ادارے اعلیٰ تربیت یافتہ افراد کو ایسی ذمہ داری نہ سونپتے۔ مجھے اس پولیس افسر پر بھی حیرت ہے جس نے انہیں وہاں جانے دیا، لیکن انتظامیہ اور ریاستی اداروں کی بات ہم بعد میں کرتے ہیں۔سرِ دست تو یہ عرض کرنا ہے کہ بہادری اور حماقت کے مابین ایک باریک لکیر کا خیال ہی اصل بہادری ہے… جرأت اصلاًبصیرت کی بہن ہے لیکن کم لوگ اس رشتے سے باخبرہیں۔ اب آئیے انتظامیہ کی طرف! ایک تویہی بات کہ زمردخان کو ایسے مخبوط الحواس کے پاس جانے کیوں دیاگیا؟ یہی نہیں تماش بینوں کا جو گروہ پانچ گھنٹے جمع رہا اسے وہاں سے ہٹایا کیوں نہیں؟ جب پولیس اور دوسرے اداروں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ مجرم کی ذہنی کیفیت کیا ہے، اس کے پاس اسلحہ کتنا ہے؟وہ اکیلا ہے یا اردگرداس کے ساتھی بھی ہیں تو پھر لوگوں کو وہاں جمع کیوں ہونے دیا؟ اگر وہ کسی مسلح گروہ کا نمائندہ ہوتا جس کے ساتھی اور افراد بھی ہوتے اور وہ سب لوگوں کو یرغمال بنا لیتے تو انتظامیہ کیا کرتی؟ ان سب سوالات کے ساتھ اہم تر سوال یہ ہے کہ کیا ان کے پاس اتنی مہارت نہیں تھی کہ وہ ایک شخص پر قابو پاتے؟ جو اقدام زمرد خان نے کیا، وہ ایک تربیت یافتہ کمانڈو کر سکتا تھااور اس کے نتائج بالکل مختلف ہوتے۔ پولیس اور دوسرے اداروں کویہ تاثر دینا چاہیے تھا کہ وہ اعلیٰ تربیت یافتہ اور جری ہیں۔ اگر کوئی غیر قانونی قدم اٹھائے گا تو وہ ہر وقت فیصلہ کن اقدام کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ہمت بھی۔ افسوس کہ یہ ثابت نہ ہو سکا۔ یوں ریاست کا وجود ایک بار پھر اپنی عدم موجودگی کا اعلان کرتا رہا اور ساری دنیا دیکھتی رہی۔ ہمارے میڈیا کے تعاون سے، بغیر پیسوں کے۔ اب کچھ بات میڈیا کی! میڈیا نے اپنی روایت نبھائی۔کاتا اور لے دوڑی۔ یہی نہیں سراسیمگی کا کاروبار بھی جاری رہا۔ایک مجہول شخص کا اقدام جسے میڈیا نے غیر معمولی بنا دیا۔میں ایک ٹی وی اینکر کو دیکھ اورسن رہا تھا جس نے کم و بیش بیس منٹ سکندر کی اہلیہ سے بات کی۔ اسے کہا کہ وہ اپنے مطالبات بتائیں‘ ہم نے ایک وفاقی وزیر بٹھا رکھا ہے‘ یہ وعدہ کرے گا اور ہم ضمانتی ہوں گے۔مزید کہا کہ وہ اٹھارہ کروڑ میں سے کسی ایک فرد کا نام لیں، ہم اسے بھی پیش کر دیں گے۔ کیا یہ لوگ اس ’’پروٹوکول‘‘ کے مستحق تھے؟ کیا آپ لوگوں کو یہ ترغیب دینا چاہتے ہیں کہ اپنی بات منوانے کا یہی آسان اور مؤثر راستہ ہے؟ یہ اﷲ کا شکر ہے کہ اسی پروگرام میں بیٹھے میڈیا ہی سے متعلق لوگوں نے اس رویے کا نوٹس لیا اور بتا دیا کہ یہ کردار کتنا مضحکہ خیز اور غیر تعمیری ہے۔دنیا ٹی وی پر محمد مالک صاحب نے یہ خبر دی تھی کہ پیمرا ٹی وی چینلز کو براہ راست مناظر دکھانے سے روک رہا ہے۔لیکن ایسا کچھ ہوا نہیں۔ ہر چینل یہ کہہ رہا تھا کہ ’’بچے نہ دیکھیں‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ بڑے کیوں دیکھیں؟میرا خیال ہے کہ اب میڈیا کو سوچنا ہو گا کہ سماج کی تعمیر میں اس کا کردار کیا ہے؟یہ عذر اب قابل قبول نہیں کہ میڈیا ابھی نوخیز ہے۔ اب میڈیا کو بالغ ہو جانا چاہیے۔یہ واقعہ جس طرح دکھایا گیا،اس کے بعد لازم ہو گیا ہے کہ میڈیا اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرے اور کمرشل ازم کے حصار سے نکل کر اس سوال پر غور کرے کہ قومی تعمیر کے حوالے سے اس کا کردار کیا ہے؟ آخر میں سکندر! سکندر بطور فرد ممکن ہے مخبوط الحواس ہو لیکن سچ یہ ہے کہ اس وقت اکثریت کا نقطہ نظر یہی ہے۔یہاں ہر آدمی یہی سمجھتا ہے کہ ہمارے ملک کے مسائل کا حل ا سلامی نظام میں ہے۔اس کا خیال ہے کہ یہ کوئی گولی ہے یا کیپسول جو ایک دن اگروزیر اعظم کو کھلا دی جائے تو اگلے دن راوی یا چناب کے کنارے کتا بھی بھوکا نہیں مرے گا۔اس ملک میں واعظین اور مبلغین نے ہمیں یہی سمجھایا ہے۔اس نقطہ نظر کی ترویج میں بہت محنت کی گئی ہے۔سکندر اپنے موقف میں منفرد نہیں ہے۔آخری اقدام سے چند منٹ پہلے سکندر کی اہلیہ ایک چینل پر براہ راست قوم سے خطاب فرما رہی تھیں۔سچ یہ ہے کہ اینکر کو اس نے لا جواب کر دیا تھا۔ اس نے کہا کہ اس ملک میں اصل مسئلہ یہی ہے کہ یہاں اسلام نافذ نہیں ہے۔اینکر نے جواباً کہا کہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام آپ کے ہم نوا ہیں۔آپ اس مطالبے میں منفرد نہیں ہیں۔خاتون نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر ملک میں اسلام نافذ کیوں نہیں؟اینکر کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اب رہی بات طرز عمل کی تو اس باب میں بھی سکندر کے ہم آواز لوگ موجود ہیں۔ آخر طالبان کیا رہے ہیں؟ان کا مطالبہ کیا ہے؟وہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں اسلام نافذ کرو۔امریکا کا ساتھ چھوڑو۔اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو پھر ہم بندوق کے زور پر اپنی بات منوائیں گے۔تم مانو گے یا مار دیے جاؤ گے۔تاریخ کی جن شخصیات کو اس معاملے میں ہیرو مانا جاتا ہے،ان کی سیرتوں سے بھی یہی استدلال کیا جاتا ہے جو سکندر نے کیا۔وہ کیا کہہ رہاہے؟علما کی زبان میں اس نے پوری قوم کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ہے۔اٹھنا تو پوری قوم کو چاہیے لیکن جب ایسا نہیں ہوا تو ظاہر ہے کوئی تو ہو جو یہ فرض ادا کرے ؎ موسم آیا تو سرِ دار پہ میر سرِ منصور ہی کا بار آیا مذہبی رہنماؤں کی تقریروں میں ، دانش وروں کے کالموں میں، مسلح افراد کے اقدام میں آخر وہ کیا بات ہے جو سکندر کے نقطۂ نظر اور طرزِ عمل سے مختلف ہے؟ جب قوم کی فکری و سیاسی تربیت ایسی ہوگی تو پھر صرف سکندر پیدا ہوں گے۔ سکندر کو مطعون کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ سماج پر ایک نگاہ ڈال لی جائے۔ ممکن ہے ہمارے قلم اور زبانیں کچھ لکھنے اور بولنے سے رک جائیں۔ یہ ایک واقعہ ہے لیکن بہت سے قومی المیوں کا عنوان ہے۔ معاملہ محض رفو کا نہیں ہے۔ قومی پیرہن اب اتنا بوسیدہ ہوچکا ہے کہ ٹانکا لگانے سے کام نہیں چلے گا۔ جہادِ افغانستان سے سکندر تک، اس ملبوس پر اتنے پیوند لگ چکے کہ اسے بدلے بغیر چارہ نہیں۔ اب برہنگی چھپ نہیں سکتی۔ یوں بھی پانچ گھنٹے کی ’’ براہِ راست‘‘ نشریات کے بعد کیا چھپا ہے؟ ایک ٹی وی چینل نے ’’ بریکنگ نیوز‘‘ دی۔ ’’ ناظرین! سکندر جھاڑیوں میں چھپ رہا ہے۔‘‘ کیمرہ اس کا پیچھا کرتا ہوا وہاں جا پہنچا۔ قوم نے دیکھا کہ وہ ازار باندھ باندھتے ہوئے اُٹھ رہا ہے۔ اے میری قوم تیرے حسنِ کمالات کی خیر
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved