جب بھی وطن میں کچھ ایسا ہوا کہ میرے ہم وطنوں پر آنچ آئی‘ ان پر ظلم ہوا تو تکلیف مجھے ہوتی ہے۔ آنسو بے اختیار بہنا شروع ہوجاتے ہیں۔ جب بھی احتجاج ہو‘ دھرنے ہوں‘ جلسے ہوں‘ ایک عجیب سا ماحول بن جاتا ہے۔ سڑکیں بند ہوجاتی ہیں‘ ہر طرف کنٹینرز لگ جاتے ہیں۔ جلائو گھیرائو شروع ہو جاتا ہے۔ گاڑیوں کے شیشے توڑے جاتے ہیں‘ املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے الجھ جاتے ہیں؛ باہم دست و گریبان ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کیوں؟ اس لیے کہ ایک دوسرے سے سیاسی اختلافات ہیں؟ جمہوریت تو نام ہی اختلافِ رائے کو احسن طریقے سے برداشت کرنے کا ہے۔ سب کے نظریات کا احترام کرنا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، اے این پی، ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتیں اسی ملک کی جماعتیں ہیں۔ محض اختلافات کی بنا پر نفرت کی آگ مت پھیلائیں۔ ذاتی طور پر مجھے دھرنے پسند نہیں کیونکہ ان سے سڑکیں بلاک ہوجاتی ہیں اور لوگوں کی زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے؛تاہم یہ سب کا جمہوری حق ہے کہ وہ اپنی بات کر سکتے ہیں‘ احتجاج کرسکتے ہیں۔ البتہ احتجاج اور جلسوں کے کچھ آداب ہونے چاہئیں‘ اور ہوتے بھی ہیں۔ ہمیں خود بھی یہ خیال کرنا چاہیے کہ احتجاج میں عام لوگوں کے لیے سڑکیں بلاک نہیں کی جائیں گی‘ کسی جگہ پر آگ نہیں لگائی جائے گی‘ خاص طور پر ٹائر نہیں جلائے جائیں گے کیونکہ یہ شدید ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح کسی بھی طرح کا تشدد نہیں کریں گے‘ دکانوں، گاڑیوں اور عوامی مقامات کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا‘ دھرنوں اور جلسوں میں شریک عوام‘ خاص طور پر خواتین اور بچوں‘ کا احترام کیا جائے گا، قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کیا جائے گا اور سرکاری بالخصوص پولیس اہلکاروں کا احترام کیا جائے گا، سیاسی مخالفین کی کردار کشی نہیں کی جائے گی۔
دوسری طرف حکومت اور پولیس کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کو پُرامن احتجاج کرنے دیں‘ ان کے راستے بلاک مت کریں۔ کنٹینرز مت لگائیں‘ ان پر لاٹھی چارج مت کریں اور آنسو گیس کا استعمال ترک کردیں۔ ہم نے ڈھائی سال کورونا کی وبا میں گزارے ہیں‘ جن افراد کو کورونا ہوا‘ ان میں قوتِ مدافعت خاصی کم ہو چکی ہے۔ یہ آنسو گیس کورونا متاثرین اور دمہ و الرجی کے مریضوں کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔ میں نے دورانِ رپورٹنگ کئی بار آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا سامنا کیا ہے، مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ ان کے زخم اور اثرات بہت عرصے بعد زائل ہوتے ہیں۔ لاٹھی چارج سے ہونے والے فریکچرز اور زخم کئی ماہ بعد بھرتے ہیں۔ اسی طرح آنسو گیس سے گلے‘ ناک‘ آنکھوں اور پھیپھڑوں پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ ان سے معتدد دیگر بیماریاں ہونے کا خدشہ لاحق ہوجاتا ہے۔ آنسو گیس ماحول کے لیے بھی خطرناک ہے اور آلودگی کا باعث بنتی ہے۔ پولیس جب سیاسی مظاہرین پر تشدد کرتی ہے‘ ان کو حوالات میں بند کردیتی ہے تو اس سے عوام پولیس سے متنفر ہوجاتے ہیں۔ پولیس کا سیاسی استعمال اب بند ہونا چاہئے۔ خود پولیس اہلکاروں کا بہت استحصال ہو رہا ہے، ان سے 18‘ 18 گھنٹے کام کرایا جاتا ہے اور ان کی تنخواہیں‘ مراعات اور سہولتیں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے حوالے سے جو کچھ پورے ملک میں دیکھنے میں آیا‘ بہت افسوس ناک تھا۔ ہر اس چیز کی مذمت کرنی چاہئے جو تشدد کے زمرے میں آتی ہے اور ہر اس واقعے پر افسوس کرنا چاہیے جس میں کسی شہری کا نقصان ہوا۔ لاہور میں ڈاکٹر یاسمین راشد کی گاڑی پر ''گلو بٹوں‘‘ نے حملہ کیا، یہ کون لوگ ہیں؟ کیا یہ پولیس کے ساتھ ہوتے ہیں یا یہ کوئی بدمعاش جتھہ ہے جو سادہ کپڑوں میں لوگوں پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور جس کا مشغلہ گاڑیوں کے شیشے توڑنا ہے۔ شاید ہماری سیاسی اشرافیہ کو یہ بات معلوم نہیں کہ ایک گاڑی خریدنے میں عوام کی ساری زندگی لگ جاتی ہے‘ اس کو اگر کوئی توڑ دے یا آگ لگا دے تو لوگوں کو ساری عمر کا صدمہ لگ جاتا ہے۔ اسی طرح پولیس کی طرف سے عوام پر تشدد لوگوں کو سکیورٹی اداروں سے دور کررہا ہے، خدارا عوام کو پُرامن احتجاج کرنے دیں۔
جب آزادی مارچ شروع ہوا تو پولیس نے ہر جگہ ناکہ بندی کردی‘ بہت سی جگہوں پر لاٹھی چارج ہوا‘ آنسو گیس کا تو ایسے استعمال ہوا جیسے یہ سیاسی ورکرز نہیں‘ وطن دشمن ہوں۔ 48گھنٹے سے زائد پورا ملک میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کرتا رہا۔ پی ٹی آئی کوئی کالعدم تنظیم نہیں جو اس کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا۔ اس کی برسوں پہ محیط جدوجہد اس بات کی گواہ ہے کہ یہ پڑھے لکھے طبقے کے پُرامن لوگ ہیں اور قانون کو ہاتھ میں نہیں لیتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک زیادہ تکلیف دہ محسوس ہوا۔
پنجاب میں پولیس نے رات کے اندھیرے میں لوگوں کے گھروں میں گھسنے کی کوشش کی۔ بار ہا اعلیٰ حکام کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ دہشت گردی جیسے سنگین الزامات کے علاوہ دن میں‘ وارنٹ کے ساتھ ہی گرفتاری کی جائے گی لیکن عملی طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ سیاسی مخالفین کو بھی رات کے پچھلے پہر گرفتار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ عوام کو ہراساں کیا جائے۔ سیاسی ورکرز کوئی دہشت گرد تو نہیں جو یوں ان کے گھروں پر چھاپے مارے جائیں۔ سوشل میڈیا پر درجنوں وڈیوز موجود ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خواتین اور بچے پولیس کے یوں دھاوا بولنے پر روتے چیختے رہے۔ حد تو یہ ہے کہ مصورِ پاکستان علامہ اقبال کے خاندان کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید کے گھر میں پولیس گھس گئی، ان کے گھر کا دروازہ بھی توڑ دیا گیا اور چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ ایسے ہی اقدامات کی وجہ سے عوام میں بددلی اور خوف و ہراس پھیلتا ہے۔ یہ بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اسی طرح رات کے چھاپے کے دوران ایک پولیس اہلکار کو ایک شہری نے گولی مار دی، یہ بہت افسوس ناک واقعہ تھا۔ پی ٹی آئی کے دو ورکرز بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ سب پاکستان کے بیٹے تھے۔ ایک سیاسی احتجاج کئی لوگوں کی جان لے گیا۔ ان کے گھر والے بے آسرا ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہلاک ہونے والے افراد کی موت پر خوب سیاست ہوئی‘ خوب فوٹوشوٹ ہوئے لیکن کچھ دن بعد سب انہیں بھول جائیں گے لیکن ان کے اہلِ خانہ اور گھر والے تڑپتے رہیں گے۔ مجھے عوام کے ساتھ ساتھ پولیس پر بھی ترس آتا ہے۔ یہ ایسی فورس ہے جس کے پاس زیادہ مراعات نہیں، لمبی ڈیوٹی اور کم تنخواہ، کوئی کھانے پینے کا بندوبست نہیں۔ نچلے رینکس کے بہت سے پولیس والے اسی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کو اپنی اصل ڈیوٹی کے بجائے سیاسی ڈیوٹیاں کرنا پڑتی ہیں جبکہ حقیقت میں وہ عوام کے مددگار ہیں۔ عوام کو پولیس کے ذریعے ہراساں کرنا ایک جرم ہے‘ آخر ہماری سیاسی اشرافیہ کو کب عقل آئے گی کہ وہ عوام اور اداروں کو مدمقابل مت لائیں‘ ان کو آپس میں مت لڑوائیں۔جو کچھ گزشتہ ہفتے ہوا ‘ہم سب کو اس پر سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ مسائل کا حل بات چیت سے نکالیں‘ ہنگامہ آرائی سے نہیں۔ ایک وزیر اعظم‘ ایک حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیں۔
جمہوریت ہمیں اختلافِ رائے کا حق دیتی ہے۔ اگر پُرامن طریقے سے احتجاج کرنا ہر سیاسی جماعت کا آئینی و قانونی حق ہے تو پھر یہ گرفتاریاں‘ یہ چھاپے کیوں؟ تشدد اور آنسو گیس کا استعمال کیوں؟ آخر حکومت اتنی تنگ دل کیوں ہورہی ہے؟ اس وقت حکومت کی ساری توجہ اپوزیشن سے نمٹنے پر ہے۔ اپوزیشن کو احتجاج کرنے دیں اور خود حکومتی اور عوامی معاملات پر توجہ دیں۔اپوزیشن اور حکومت‘ دونوں ایک دوسرے سے لڑ رہی ہیں۔ چاہے جلسے ہوں یا پریس کانفرنسز یا پھر سوشل میڈیا‘ ایک دوسرے پر الزامات کی بارش جاری ہے۔ یہ ملک ہم سب کا ہے‘ ہم سب محب وطن ہیں۔ اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے‘ لوگوں سے بات کرنے کی آزادی مت چھینیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved