غور کیجیے تو کسی بھی معاملے میں کوئی حد مقرر نہیں کی جاسکتی۔ جس طور خرچ کرنے کی کوئی حد نہیں‘بالکل اُسی طور کمانے کی بھی کوئی حد مقرر نہیں۔ کوئی اگر چاہے تو اپنی ہر سانس کو کمانے پر صرف کرے۔ بہت سے لوگ دن رات صرف کمانے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ یہ بھی زندگی بسر کرنے کا ایک طریق ہے۔ یہ طریق ہر ایک کو راس آئے‘ یہ ضروری نہیں۔ اِسی طور خرچ کرنا بھی زندگی بسر کرنے کا ایک طریق ہے۔ بہت سوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ جتنا کماتے ہیں‘ سب کا سب خرچ کر ڈالتے ہیں۔ یہ طریق اُنہیں تو راس آسکتا ہے‘ سب کو نہیں۔ ہر انسان کا اپنا فکری ڈھانچہ ہوتا ہے۔ کسی کو کچھ اچھا لگتا ہے اور کسی کو کچھ۔ سب کی اپنی اپنی زندگی ہے اور دوسروں کو اندازہ نہیں ہوسکتا کہ کس کی زندگی میں کتنی آسانی اور کتنی مشکلات ہیں۔ ساون کے اندھے کو ہرا ہی سوجھتا ہے۔ دوسروں کو دیکھ کر اپنے لیے کچھ طے کرنا ہر معاملے میں سودمند ثابت نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ نے سب کے لیے کچھ نہ کچھ طے کر رکھا ہے۔ ہر انسان کو اُس کے اپنے نصیب کا رزق ملتا ہے۔ اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے۔ جیسی نیت ویسی برکت۔ ہم زندگی بھر دوسروں کو دیکھ دیکھ کر اپنے بارے میں اَنٹ شنٹ رائے قائم کرتے رہتے ہیں۔ کسی کی غیر معمولی آمدن دیکھ کر ہم پریشان ہو اٹھتے ہیں کہ ہم اِتنا کیوں نہیں کمارہے۔ یہ معاملہ بہت عجیب ہے۔ جب دوسروں کو دیکھ دیکھ کر اپنے بارے میں رائے قائم کرنے یا رائے بدلنے کا مزاج پنپ جائے تو انسان کسی بھی کیفیت سے کماحقہٗ محظوظ نہیں ہو سکتا۔ آج کا ہمارا معاشرہ بہت سے معاشرتی علائق سے اَٹا ہوا ہے۔ لوگ عمل سے زیادہ ردِعمل کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کسی کی چمک دمک دیکھ کر اپنا وجود‘ اپنی زندگی پھیکی پھیکی سی لگنے لگتی ہے۔ جب کوئی یہ طے کرلے کہ دوسروں سے ہر معاملے میں متاثر ہونا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے چاہے کچھ بھی عطا ہو‘ دل کو سکون نہیں ملتا۔ ایسی حالت میں انسان صرف اور صرف ناشکرے پن کا شکار ہو رہتا ہے۔ یہ دنیا بہت رنگین ہے۔ ہونی بھی چاہیے کہ ہر انسان کا ایک اپنا ہی رنگ ہے۔ اِسی میں تو دنیا کی رنگارنگی ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ سب کو اپنے حصے کا رنگ ملتا ہے۔ ہمیں بھی ہمارے حصے کا رنگ ملا ہے۔ دنیا کو رنگین تر بنانے میں سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس کردار کے کماحقہٗ ادا کیے جانے ہی سے دنیا کی رنگینی بڑھتی ہے، معاشرہ مجموعی طور پر استحکام کی طرف گامزن رہتا ہے۔
ہر معاشرے میں طبقات پائے جاتے ہیں۔ کوئی بہت امیر ہوتا ہے تو کوئی بہت غریب۔ ضروری نہیں کہ جو امیر ہے وہ اپنی محنت ہی کی بدولت امیر ہوا ہو اور یہ بھی لازم نہیں کہ کسی کی خراب مالی حالت اُس کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہو۔ سب کو ایک حساب سے خلق کیا گیا ہے۔ سب کی تقدیر بھی مقرر کی گئی ہے۔ حالات بدلنے کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ کسی کو اُس کی محنت اور دیانت کی پوری جزا دینا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اور کسی کو اُس کی بُرائیوں پر خرابی سے دوچار کرنا بھی اصولِ قدرت ہے۔ ہم عمومی سطح پر یہ بھول جاتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے طے کردہ نظم یا نظام کے تحت ہو رہا ہے۔ ہمیں جو کچھ بھی ملتا ہے وہ بظاہر ہماری محنت کا نتیجہ ہے مگر درحقیقت اِسے اللہ تعالیٰ کا کرم و فضل گردانیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہی تو ہے جس نے اِس دنیا کو سنبھال رکھا ہے۔ انسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ اُنہیں تو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے ہی سے فرصت نہیں۔ بس میں ہو تو ہر انسان اپنے آپ کو سلامت رکھے اور باقی دنیا کو گلا گھونٹ کر مار ڈالے۔
کسی بھی انسان کو اگر کوئی وصف مطمئن، مستحکم اور خوش و خرم رکھ سکتا ہے تو وہ ہے تشکّر۔ تشکر ہی کی بدولت ہم اپنے رب کے احسان مند ہوتے ہیں۔ تشکّر ہی کے ذریعے ہم اپنی زندگی میں وہ استحکام پیدا کر پاتے ہیں جو بصورتِ دیگر محض خواب و خیال کی منزل میں اٹک کر رہ جاتا ہے۔ معاشرے میں بیشتر خرابیاں تشکّر کا وصف نہ ہونے سے پیدا ہوتی ہیں۔ ہم مانیں یا نہ مانیں‘ حقیقت یہ ہے کہ جب تک تشکّر کا وصف پیدا نہیں ہوتا تب تک انسان ادھورا رہتا ہے۔ اور یہ ادھورا پن اپنی ذات تک محدود نہیں رہتا۔ انسان جب اللہ تعالیٰ کا احسان مند نہ ہو اور اظہارِ تشکّر کا عادی نہ ہو‘ تب اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی خرابیوں کا سبب بنتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے شکر گزار نہیں ہوتے‘ وہ بات بات پر حالات کا رونا رونے بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ اپنی خرابی کے لیے‘ کسی جواز کے بغیر‘ دوسروں کو ذمہ دار قرار دینے سے بھی نہیں کتراتے۔ شکر گزار نہ ہونے سے انسان ہر معاملے میں صرف شکوہ و شیون کا عادی ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ کیفیت اُسے ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ حالات کا رونا روتے رہنے کی عادت انسان کو سوچنے، سمجھنے اور کچھ بامقصد کرنے کی منزل سے دور کردیتی ہے۔
آج کا ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے جو کسی بھی حوالے سے اللہ تعالیٰ کا شکر اُس طور ادا نہیں کرتے جو حق بنتا ہے۔ اگرچہ حق تو کبھی بھی ادا نہیں ہو سکتا کہ ہماری ہر سانس اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے اور ہمہ وقت اُس کے کرم کا شکر گزار رہنا چاہیے۔ اگر کسی کے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں، کوئی بڑی یا جان لیوا بیماری لاحق نہیں، کوئی ایسی معذوری بھی لاحق نہیں جو کام کرنے سے روکے اور کوئی قرض بھی چڑھا ہوا نہ ہو تو مزید کیا چاہیے؟ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے یہ بات کیا کم ہے کہ انسان اپنے بل پر جی رہا ہو، اور وہ بے جا طور پر کسی کے بارِ احسان سے گردن جھکانے پر مجبور نہ ہو! انسان اگر روتے دھوتے زندگی بسر کرنے کی ٹھان لے تو ایسے معاملات کی کمی نہیں جو اُسے بات بات پر شکوہ و شیون کی منزل تک پہنچاکر دم لیں۔ قدم قدم پر ایسے بہت سے معاملات ملتے ہیں جو ہمارے ذہن کو الجھاتے ہیں۔ یہ سب کچھ زندگی کا حصہ ہے۔ ہمیں الجھنوں سے بغل گیر نہیں ہونا بلکہ اُن سے بچنے کی کوشش کرتے رہنا ہے۔ کسی بھی ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو ذہن کو بھٹکانے پر تلا رہتا ہے۔ اگر انسان اپنے خالق کو بھول جائے اور تشکّر کی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھے تو قدم قدم پر صرف الجھنیں رہ جاتی ہیں۔ اس وقت سارا معاشرہ ایسی ہی الجھنوں سے اَٹا ہوا ہے۔ پوری دیانت اور محنت سے جو کچھ مل جائے وہی اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ محنت کے بغیر اور بد دیانتی کے بل پر ملنے والی کسی بھی چیز کو عطا قرار نہیں دیا جاسکتا۔
طبقاتی فرق کی بنیاد پر تشکر کی دولت سے محروم ہو رہنا انتہائے حماقت ہے۔ طبقات کا فرق بھی قدرت کے نظام کا حصہ ہے۔ پورا معاشرہ ایک طبقے پر مشتمل نہیں ہوسکتا۔ صلاحیت و سکت کا فرق معاشرے میں فرق پیدا کرتا ہے۔ کچھ لوگ زیادہ محنت کے عادی ہوتے ہیں اور کچھ تھوڑی کم محنت کر پاتے ہیں۔ کوئی اگر بہت کما رہا ہو تو اُسے مثال بناکر اپنی زندگی میں زہر گھولنے سے کیا فائدہ؟ کبھی کبھی محنت سے ہٹ کر محض اتفاق سے بھی کسی کو کچھ زیادہ ملتا ہے۔ یہ بھی قدرت ہی کے نظام کا حصہ ہے۔ ایسے معاملات کو اُصول بناکر پوری دنیا کا ڈھانچہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کسی نے کوئی ہنر سیکھا ہو اور اُس ہنر کی طلب غیر معمولی حد تک بڑھ جائے تو آمدن بھی زیادہ ہوگی۔ اِس معاملے کو بنیاد بناکر شعبہ نہیں بدلا جا سکتا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنے شعبے سے مطمئن نہیں ہوتا اور شعبہ بدلنے کے نام پر تجربے کرتا ہے اور آخر میں گھوم پھر کر کہیں کم تنخواہ یا آمدن پر دوبارہ اپنے شعبے کی طرف لوٹنا پڑتا ہے!
ہم جہاں ہیں وہاں مطمئن ہوکر بیٹھ رہنے کے بجائے کچھ نہ کچھ زیادہ کرنے اور زیادہ کمانے کی کوشش کی جانی چاہیے مگر جذبۂ تشکّر کے ساتھ‘ اللہ تعالیٰ کا احسان مند رہتے ہوئے۔ شکر گزار رہنے کی توفیق عطا ہوگی تو زندگی پھل پھول سکے گی۔ بصورتِ دیگر ؎
دردؔ کا حال کچھ نہ پوچھو تم
وہی رونا ہے، نت وہی غم ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved