گوجر۱نوالہ میں ٹوٹی پھوٹی اشیابیچ کر زندگی کی گاڑ ی دھکیلنے والا نوجوان‘ بھرے بازار میں قتل کردیاگیا۔ آپ جانتے ہیں‘ اس کے قاتل کون ہیں؟میں انہیںجانتا ہوں۔
برسوں پہلے پاکستان ٹیلی وژن نے اشفاق احمد کا لکھاہوا‘ طویل دورانیے کا ایک ڈرامہ دکھایاتھا: ''فہمیدہ کی کہانی: استانی راحت کی زبانی‘‘۔ چھتیس برس بیت گئے‘ ابھی تک دل پہ نقش ہے۔ یوٹیوب پہ یہ ڈرامہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر آپ نے دیکھ رکھا ہے تو آپ بتا سکتے ہیں کہ گوجرانوالہ میں بے گناہ مارے جانے والے اٹھائیس سال کے محمد اشرف کا قاتل کون ہے؟
محمد اشرف مشتعل ہجوم کی نفسیات کا شکار ہوا۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ یہ نفسیات کون پیدا کر تا ہے؟ہجوم مشتعل کیوں ہوتا ہے؟لوگ کیوں اپنی باگ جذبات کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں؟انسان لمحہ بھر میں کیسے شرفِ انسانیت سے اترتا اور جانوروں میں شامل ہو جاتا ہے؟انسانی جان کیسے بے معنی ہو جاتی ہے؟مذہب‘ اخلاق‘ قانون‘ سود وزیاں‘ ہر شے کیسے نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے اور انسان اندھا ہو جاتا ہے؟ انسان کی بینائی کون چھین لیتا ہے؟
یہ کام ہر وہ رہنما اور گروہ کرتا ہے جومذہب کا استحصال کرتااورانسان کی باگ دستِ خداوندی سے لے کر جذبات کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے۔ جو فرد کو خدا کے سامنے جواب دہی سے بے نیاز کر دیتا ہے اور اسے مذہب کہتا ہے۔ یہ کام وہ مذہبی دانشورکرتا ہے جو ایسے کرداروں اور گروہوں کو مذہب کا حقیقی نمائندہ بنا کر عوام کے سامنے پیش کر تا اور ان سے دادِ تحسین کا خراج چاہتا ہے۔
یہ کام وہ سیاست دان کرتا ہے جو اقتدار کے کھیل کو مذہبی اصطلاحات میں بیان کرتا‘ اسے جہاد اور اللہ کاحکم کہتا اورلوگوںکو تشددپر ابھارتا ہے۔ جو خود کو خدا کا نمائندہ اور مسیحا بنا کر پیش کرتا اور ہر مخالف کی توہین اور تذلیل کرتا ہے۔ جو لوگوں کے جذبات کو ابھارتا‘ انہیں مسلسل ہیجان میں مبتلا رکھتا اور انہیں سوچنے سمجھنے کی مہلت نہیں دیتا۔ یہ کام ٹی وی سکرین پر دکھائی دینے والا نام نہاد دانشور کرتا ہے جو ایسے سیاسی کرداروں کو گلیمرائز کرتا اور عوام کے لیے ان کے بت تراشتا ہے تاکہ وہ ان کی پوجا کریں۔
یہ کام وہ قلم کار کرتا ہے جو تشدد کی زبان لکھتا اور لوگوں کومسلسل اشتعال دلاتا ہے۔ جوریاست اور نظام کے خلاف زہر اگلتا اورعوام کو توڑ پھوڑکی ترغیب دیتا ہے۔ جو اقتدار کے ایوانوں کو آگ لگانے کی تبلیغ کرتا ہے۔ جو لوگوں کو کبھی سماج کی حقیقی تصویر نہیں دکھاتا اور ان کے ذہنوں کو مخاطب نہیں کرتا۔ جو فساد کو اصلاح بنا کر پیش کرتا اور انقلاب کے نام پر معاشرے کو انتشار میں مبتلا کرتا ہے۔
یہ کام وہ نظامِ ظلم کر تا ہے جومظلوم کی داد رسی نہیں کرتا۔ جو ظالم کا مددگار ہوتا ہے۔ جو انصاف تک رسائی کے تمام قانونی راستے بند کر دیتا اور ایک خاص طبقے کے ہاتھوں میں یرغمال بن جاتا ہے۔ جو عام آدمی کو مایوسی کی اس سطح تک پہنچا دیتا ہے جہاں اسے نجات کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ نظام جوطبقۂ اشرافیہ کی غلامی کرتا اور عوام کا حاکم بن جاتا ہے۔ جوایک طرف امیروں کی تجوریاں بھرنے میں لگا رہتا اوردوسری طرف عوام میں افلاس اور بھوک تقسیم کرتا ہے۔
یہ سب مل کر اس مشتعل ہجوم کو جنم دیتے ہیں جو محمد اشرف جیسے بے گناہوں کو قتل کرتا اور اس میں نفسیاتی آسودگی محسو س کرتا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنے جرم کا اعتراف نہیں کرے گا۔ وہ خود کو بے گناہ کہے گا۔ عدالت بھی اس کو بے گناہ مان لے گی کہ اس کے خلاف کوئی ایسی شہادت موجود نہیں جو عدالت میں قابلِ قبول ہو۔ دوسری طرف ہم‘ ان سب کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ محمد اشرف کو قتل کر رہے ہیں۔ ہم سب بے بس ہیں کہ قاتل کو سزا دلا سکتے ہیں نہ مظلوم کی داد رسی کر سکتے ہیں۔
ان سب لوگوں نے مل کر اس ملک میں انتہا پسندی کا زہر بویا۔ اس زہر سے ہزاروں اشجارِ خبیثہ نے جنم لیا۔ ان کی انگنت شاخیں ہیں۔ سب ان کا پھل کھا رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔ یوں کہیے کہ قتل کیے جا رہے ہیں۔ ستم در ستم یہ کہ مقتولین کو پتا ہی نہیں کہ انہیں قتل کیا جا رہا ہے۔ یہ اپنے قاتلوں کا ہاتھ چوم رہے ہیں۔ انہیں کندھوں پہ بٹھا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے بے تاب ہیں۔ ان کے کالم‘ مضامین پڑھتے‘ ان کے ٹی وی پروگرام دیکھتے اور انہیںداد دیتے ہیں۔ ان کے لیے تالیاں بجاتے اور انہیں اپنا مسیحا سمجھتے ہیں۔ ان کے جھوٹ کو سچ مان کر ان کی بجائی ہوئی دُھن پر رقص کر رہے ہیں۔
کوئی توجہ دلائے‘ عقل کی بات کرے‘ اس کیفیت سے نکالنا چاہے تو ایسے دوست کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ کہنے والا کہتا ہے: لوگو ہمارے جذبات احکامِ الٰہی کے تابع ہیں۔ خدا کا حکم یہ ہے کہ مذہب کے نام پر بھی تم کسی کی جان نہیں لے سکتے۔ دین تزکیے کانام ہے۔ خدا کے سامنے جوابدہی کے احساس میں جینے کا نام ہے۔ جذبات کو لگام دینا اور صبر‘ دینی ہدایات میں غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ جو یہ کہتا ہے‘ اسے دھتکار دیا جاتا ہے۔ اسے منحرفین میں شمار کیا جاتا اور جذبات فروشوں کاہاتھ تھام لیا جاتاہے جو مشتعل نفسیات کو جنم دیتے ہیں۔
منادی کرنے والا آواز دیتا ہے:سیاست اقتدار کا کھیل ہے۔ اس میں کوئی مسیحا نہیں۔ یہ جہاد ہے نہ خدا کا حکم کہ فلاں سیاسی جماعت میں شامل ہو جاؤ اور فلاں سے گریز کرو۔ اہلِ سیاست اچھائی اور برائی کا مجموعہ ہیں۔ آپ کو یہ حق ہے کہ جسے بہتر سمجھتے ہیں تو اس کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیں‘ یہ سمجھتے ہوئے کہ نہ آپ انسانوں میں سے فرشتے کا انتخاب کر رہے ہیں اور نہ دوسری طرف شیاطین ہیں۔ کوئی لیکن اس آواز پر کان نہیں دھرتا۔ کہنے والوں کو دشنام کا ہدف بنایا اوران کی نیت پر شبہ کیاجاتا ہے۔
یہ سیاست ہویا مذہب‘ انتہا پسندی ہمارے سماج میں سرایت کر چکی ہے۔ سب نے مل کر مشتعل ہجوم کی نفسیات کو پیدا کیا ہے۔ ہدایت کیا ہے اور خدا کے حضورمیں پیشی‘ کس طرح کی آزمائش ہے؟ انسان غور کرے تو خوف سے لہورگوں میں جم جائے۔ اہلِ مذہب کی تعلیمات میں مگر اس بات کا کہیں گزر نہیں۔ آئین کیا ہے اور قانون کسے کہتے ہیں؟یہ سوال اہلِ سیاست کے لیے بے معنی ہو چکا۔ عوام اہلِ مذہب اور اہلِ سیاست کا کشتہ ہیں۔
آج سماج کو بچانے کے لیے اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔ عوام کو خود سوچنا ہوگا کہ ان کے لیے کیا درست ہے اورکیا غلط۔ رہنمائی جن کا فریضہ تھا‘ وہ خرابی میں اضافے کا سبب ہیں۔ اس کام کا آغاز عوام کی ذہنی آزادی سے ہوگا۔ سب سے پہلے اس بات کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ ختمِ نبوت کے بعد‘ اب کوئی مذہبی یا سیاسی رہنما ایسا نہیں جو خدا کی طرف سے لوگوں کی قیادت پر مامور ہو۔ انسانوں کواپنا ہاتھ کسی فرد کے بجائے‘ اپنی عقل کے ہاتھ میں دینا ہوگا۔ افراد کے بجائے اقدار کو معیار ماننا ہوگا۔ سچ کا سچ ہونا کچھ معیارات کا تابع ہے نہ کہ کسی غیر نبی کی زبان کا۔
انسانی عقل یہ کہتی ہے کہ انتہا پسندی‘ مذہبی ہو یا سیاسی‘ ایک سماج کو برباد کر د یتی ہے۔ محمد اشرف کے قتل میں وہ سب لوگ شریک ہیں جوکسی پہلوسے بھی‘ سماج کو انتہا پسند بنانے کے ذمہ دار ہیں۔ جس دن یہ بات ہماری سمجھ میں آگئی‘ محمد اشرف قتل ہونا بند ہو جائیں گے۔ اگرآپ اس بات کی مزید تفہیم چاہتے ہیں تو اشفاق احمد کا ڈرامہ ضرور دیکھیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved