پی ٹی آئی کی سیاسی اپروچ کے حوالے سے عوامی حلقوں میں تشویش پائی جاتی تھی کہ شاید دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے تصادم کی سیاست کی جا رہی ہے؛ البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سوچ بدلتی دکھائی دے رہی ہے۔ لانگ مارچ کو دھرنے میں تبدیل نہ کرنا اور سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق جلسہ کر کے واپس چلے جانا ایک سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے دانشمند لیڈر کا فیصلہ معلوم ہوتا ہے۔ شاید عمران خان نے 2014ء کے لانگ مارچ اور دھرنے میں ہونے والی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔ آج ان کے لب و لہجے میں وہ تیکھا پن اور کڑواہٹ نہیں ہے۔ ڈیجیٹل صحافیوں سے حالیہ ملاقات میں بھی طبیعت میں ٹھہرائو موجود تھا۔ اداروں سے متعلق بات بھی محتاط انداز میں کی گئی۔ کچھ یقین دہانیاں کرائے جانے کی اطلاعات بھی ہیں لیکن تھوڑا انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ وقت آنے پر حالات عمران خان کے حق میں پلٹا کھا سکتے ہیں۔ شاید اب سبھی حلقے اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی عدم استحکام ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو ان کا حصہ ملنا ضروری ہے۔
دوسری طرف آئی ایم ایف کی شرائط لاگو کرانے کے نتیجے میں عوامی ردعمل کو مزید ہوا دینے سے بچانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اب تک کے حالات کے مطابق اس میں کامیابی بھی ہوئی ہے۔ عمران خان کی خیبرپختونخوا میں رہائش کو بھی اسی تناظر میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ اکثر لوگ اعتراض کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ شاید رانا ثناء اللہ سے ڈر کر وہ خیبرپختونخوا میں بیٹھے ہیں۔ کچھ اسے بزدلی کا نام بھی دے رہے ہیںلیکن میرے مطابق یہ دانش مندانہ فیصلہ ہے۔ پنجاب میں خان صاحب کی گرفتاری کے امکانات بہت زیادہ ہیں لیکن ہمیں یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ ان کی گرفتاری ملکی معاشی ماحول کو اسی طرح متاثر کر سکتی ہے جیسے نواز شریف کی گرفتاری نے کیا تھا۔ یاد رہے کہ پچھلے پونے چار سال کی پی ٹی آئی کی حکومت میں پاکستان کی شرحِ نمو میں اضافے کی وجوہات بننے والی پالیسیاں نواز شریف کی بیرونِ ملک روانگی کے بعد ہی ممکن ہو سکی تھیں۔ اگر عمران خان کو گرفتار کیا جاتا ہے تو پاکستان میں حالات کیا ہوں گے‘ اس کا اندازہ کیا جانا بھی ضروری ہے اور اس کے لیے لانگ مارچ کے دوران ہونے والے تصادم اور مالی نقصانات کی تفصیلات ہی کافی ہیں۔ حکومت کو اس معاملے میں حد درجہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کے لانگ مارچ میں شریک افراد کے پاس اسلحہ موجود ہونے کے بیان کو بنیاد بنا کر وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی جانب سے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو ممکنہ طور پر خان صاحب کو گرفتار کرنے کے لیے راستہ مہیا کر سکتی ہے۔ اس طرح کے فیصلوں سے جتنا اجتناب کیا جائے‘ ملک و قوم کے لیے اتنا بہتر ہے۔ پہلے ہی حکومت کی معاشی کشتی بھنور میں پھنسی دکھائی دے رہی ہے۔ جب کشتی کنارے لگانے میں کامیاب ہو جائیں‘ تب اس طرح کے تلخ فیصلوں کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ وزیر پٹرولیم مصدق ملک صاحب فرما رہے ہیں کہ حکومت کے پاس زہر کھانے کو بھی پیسے نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر گیس کے نرخ نہ بڑھائے گئے تو گیس کمپنیاں دیوالیہ ہو جائیں گی۔ مفتاح اسماعیل صاحب فرما رہے ہیں کہ حکومتیں اور بڑے معاشی ادارے پاکستان کو قرض دینے میں محتاط ہو گئے ہیں۔ اب پاکستان اپنی کریڈیبلٹی پر قرض نہیں لے سکتا‘ صرف آئی ایم ایف اور اس کے معاون اداروں سے قرض مل سکتا ہے اور وہ بھی سخت شرائط پر۔ سرمایہ کار پاکستانی بانڈز لینے میں دلچسپی نہیں دکھا رہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز کی قیمت تقریباً 33 فیصد گر چکی ہے۔ پاکستان کو اگلے سال تقریباً 37 بلین ڈالرز قرض کی ضرورت ہے جس میں سے تقریباً 21 ارب ڈالرز قرضوں کی ادائیگی، تقریباً 11 ارب ڈالرز کرنٹ اکائونٹ خسارے کے لیے اور 5 ارب ڈالرز زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لیے چاہئیں جبکہ آمدن کی صورتحال یہ ہے کہ حکومت تقریباً 6 کھرب روپوں کا ٹیکس ہدف حاصل نہیں کر سکی۔ بین الاقوامی بینکوں نے پاکستان کی بیشتر آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو تیل کی درآمد کے لیے فنانسنگ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ تقریباً 500 ملین کے سات کارگوز روک دیے گئے ہیں۔ دو کمپنیوں کے علاوہ کسی بھی کمپنی کو مالی سہولت نہیں دی جارہی۔ پٹرولیم ڈویژن نے وزیراعظم کو جب اس حوالے سے اطلاع دی تو انہوں نے وجہ پوچھی‘ جس پر انہیں بتایا گیا کہ ہمارے پٹرولیم منسٹر اور وزیر خزانہ کے حالیہ غیر ذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے عالمی بینک فنانسنگ سے انکار کرنے لگے ہیں۔ جب وزیر پٹرولیم کہیں گے کہ ہمارے پاس زہر کھانے کے پیسے بھی نہیں ہیں تو بیرونی دنیا ہماری مالی پوزیشن پر کیسے اعتبار کرے گی؟ اطلاعات کے مطابق اب وزیراعظم صاحب نے کابینہ کو مایوس کن بیانات دینے سے روک دیا ہے‘ جو خوش آئند ہے۔ غیر ذمہ دارانہ بیانات سے اجتناب کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات کم ریٹ پر خریدنے کے حوالے سے بھی کام کیے جانے کی ضرورت ہے۔
حالیہ دنوں میں عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دو ڈالر فی بیرل کا اضافہ ہوا ہے جس سے فی بیرل تیل 120 ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ یورپ کی جانب سے روسی تیل پر تقریباً 90 فیصد پابندی کے فیصلے کے بعد مارکیٹ کی صورتحال کشیدہ ہو چکی ہے جس کا اثر پوری دنیا کی معیشتوں پر پڑ رہا ہے لیکن صرف یہ کہہ کر ذمہ داری سے بھاگا نہیں جا سکتا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت زیادہ ہے تو حکومت کیا کر سکتی ہے۔ ممکنہ طور پر حکومت روس سے سستا تیل خرید کر پاکستان کو کسی حد تک معاشی مسائل سے باہر نکال سکتی ہے۔ مفتاح اسماعیل نے اس حوالے سے اعلان تو کیا ہے لیکن یہ ناکافی دکھائی دیتا ہے۔ عملی میدان میں کچھ کر دکھانے کی ضرورت ہے لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اب بھی ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔ مفتاح اسماعیل کے مطابق روس کے بینکوں پر ادائیگی کے حوالے سے پابندی عائد ہے‘ اگر پاکستان روس سے تیل خریدتا ہے تو ادائیگی کیسے کرے گا۔وزیر خزانہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ اب بھی ادائیگی کے کئی راستے موجود ہیں۔ اگر بھارت روس کو ادائیگی کر سکتا ہے تو پاکستان بھی راستے نکال سکتا ہے۔ بھارت نے بھی سخت فیصلہ کر کے اپنے عوام کو ریلیف دیا ہے۔ بھارت میں تقریباً 9 روپے فی لٹر تک قیمت کم کر کے عوام کو ریلیف دیا گیا ہے۔ بھارت نے یوکرین جنگ کی شروعات سے لے کر اب تک روس سے تقریباً 34 ملین بیرل سستا تیل خریدا ہے۔ گو کہ بھارت اور پاکستان کی معاشی پالیسیوں میں فرق ہے لیکن کامیاب ڈپلومیسی سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مفتاح صاحب کے مطابق انہیں خدشہ ہے کہ امریکا پاکستان پر معاشی پابندیاں نہ لگا دے لیکن یہ جواز زیادہ مضبوط دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اگر پاکستان روس سے گندم خرید سکتا ہے تو تیل خریدنے کے لیے بھی راستے نکل سکتے ہیں۔
اگر بروقت مثبت اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے دن ملکی معیشت کے لیے مزید مشکل ہو سکتے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کے بعد یکم جولائی تک بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت 16 روپے سے بڑھ کر 23 روپے تک ہو سکتی ہے۔ مارکیٹ میں گھی کی قیمت میں 203 روپے فی کلو تک اضافہ ہو جانے کی اطلاعات ہیں۔ ماہانہ مہنگائی کی شرح 16 سے 18 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد حکومت کی مجبوری ہے لیکن روس سے سستا تیل خریدنے میں آئی ایم ایف رکاوٹ دکھائی نہیں دیتا۔ شاید اس معاملے کو سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ اس بنیاد پر روس سے تیل کی ڈیل نہ کرنا کہ اس کی شروعات عمران خان نے کی تھی‘ ایک نامناسب عمل ہے۔ وزیراعظم صاحب تو خود میثاقِ معیشت کی بات کرتے ہیں‘ شاید اس پر عمل کرنے کا یہ سب سے زیادہ مناسب وقت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved