تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     03-06-2022

ہمارا دریا واپس کرو

پانی سے فطری طور پر سب مخلوق زندہ ہے‘ پانی نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ نہ درخت‘ پودے‘ کھیت اور نہ ہم۔ کوئی ذی روح کیسے سانسوں کا سلسلہ برقرار رکھ سکتا ہے اگر یہ میسر نہ ہو۔ مگر دنیا میں اس کی تقسیم یکساں نہیں۔ کہیں صحرا اور ریگستان ہیں تو کہیں بیابان اور بے برگ چٹیل میدان۔ دریا ہر ملک میں ہیں‘ چھوٹے بڑے‘ کہیں زیادہ کہیںکم۔ بارشیں ہرجگہ موسموں کی محتاج ہیں اور موسم اور آب و ہوا کا تعلق اس بات سے ہے کہ ہم کرئہ ارض کے کس حصّے میں رہتے ہیں۔ ایک ہی ملک میں‘ اگر رقبے کے لحاظ سے بڑا ہو تو کئی موسم ہو سکتے ہیں ۔ اس طرح ایک ہی ملک کے کچھ حصوں میں پانی زیادہ اور کہیں کم بھی ہو سکتا۔ جو کچھ قدرت نے ہمیں عنایت کیا ہے ہم صرف اس پر ہی اکتفا کر سکتے ہیں۔ نہ ہم موسم تبدیل کر سکتے ہیں نہ اپنا جغرافیہ۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ قدرتی وسائل ‘جن میں زمین‘ جنگلات‘ پہاڑ‘ دریا‘ ریگستان اور معدنیات ہیں ہم کیسے اپنی عقل استعمال کر کے استعمال میں لا سکتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وسائل اور آبادی کے درمیان توازن کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں آبی وسائل کی کمی نہ تھی۔ ایک وقت تھا جب پانچ تو بڑے دریا یہاں بہتے تھے اور اس کے ساتھ سینکڑوں موسمی اور کچھ مستقل چھوٹے ندی نالے بھی۔ آزادی کے وقت آبادی تقریباً ساڑھے تین کروڑ تھی۔ آپ آبی وسائل میں اضافہ نہیں کرسکتے‘ صرف جو ہے اسے ذخیرہ کر سکتے ہیں اور حسب ِضرورت نہری نظام کو مہیا کیا جا سکتا ہے۔ ملک بنا تو ہمارے حصّے میں دنیا کا سب سے بڑا اور مربوط نہری نظام بھی آیا اور بعد میں کچھ اضافہ ہم بھی کرتے رہے۔ دکھ کی بات ہے کہ بھارت کے ساتھ ہم پانی میں تقسیم کر بیٹھے اور تین دریاؤں کو ان کے حوالے کر دیا۔ جو کچھ مجھے معلوم ہے‘ یہ ہے کہ عالمی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا انوکھا معاہدہ ہے۔ تدبیر تو دونوں جانب یہ ہوتی کہ دریا جو ہزارہا سال سے برصغیر کے اس حصّے کو سیراب کرتے چلے آئے تھے‘ اسی طرح اپنی موجوں اور روانی میں رہتے۔ ہم فقط ان کا پانی تقسیم کر لیتے۔ دریا آپ کو معلوم ہے کہ تہذیب‘ معاشرے اور ماحول اپنے کناروں پر پالتے ہیں۔ اگر وہ خشک ہو جائیں تو دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ اجڑ جاتا ہے۔ کبھی لاکھڑا کی گزرگاہوں کو چولستان میں دیکھیں اور جو بربادی سندھ طاس معاہدے نے راوی اور ستلج کی کی‘ وہ آپ لاہور میں گندے نالے کی شکل اور بہاولپور کے علاقوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ ستلج کے کناروں کی زندگی کے عکس آپ کو صرف تاریخ اور جغرافیہ کی بوسیدہ کتابوں کے بند اوراق میں کہیں مل سکتے ہیں۔ میں تو اُس دھرتی کا بندہ ہوں‘ دل سے ایک آہ کے ساتھ دکھ بھری آواز نکلتی ہے کہ میرا دریا مجھے واپس کرو۔ایسے ہی جیسے ہمارا سارا معاشرہ بے سہارا ہو جائے‘ سب کچھ کھو جائے۔ سوچتا ہوں تو دل بھر آتا ہے‘ دکھ تو ہے ہی‘ مگر یہ شدید احساس زیاں کبھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ نوآبادی ترقیاتی سوچ کے کرشمے ہیں کہ ہم دریاؤں سے فارغ ہو گئے۔ یہ فیصلے حکمران نے کئے‘ کبھی عوام سے نہ رائے لی نہ یہ خیال کیا کہ معاشروں‘ ماحولیات اور ان کی بودو باش پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ پدرانہ طرزِ حکمرانی نوآبادی نظام کا حصّہ رہی ہے کہ عوام کو کیا پتا کہ ''ترقی‘‘ کیا ہوتی ہے‘ یہ معاملات تو بڑی سوچ والے‘ پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین طے کریں گے۔ ''ترقی‘‘ کے فیوض و برکات جب آہستہ آہستہ لوگوں کے سامنے کھل کر آئیں گے تو پھر وہ واہ واہ کریں گے کہ ایوب خان نے کیسے زبردست فیصلے کئے۔ مجھے یہ دلیل ہرگز مائل نہیں کر سکی کہ تربیلا بنایا‘ متبادل نہریں تعمیر کیں اور ریاست بہاولپور کی نہروں کو پانی مہیا کیا۔ بات دریا کی ہے‘ ورثے کی‘ تاریخ کی‘ تہذیب کی اور ستلج کے کنارے بستیوں اور معاشروں کی ہے۔ وہ سب مٹ گئے۔ آبی ذخائر دریاؤں کو تقسیم کئے بغیر بھی تعمیر کئے جا سکتے تھے۔ پانی جہاں بھی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے ضرور کریں اور ہر جگہ اس کی ضرورت ہے‘ مگر کسی طور دریاؤں کے بہاؤ‘ رخ اور پانی کی مقدار کو زیریں علاقوں کے لوگوں کے دائمی حقوق سے الگ نہیں کر سکتے۔
تقریباً چالیس سال پہلے تک ہم مجموعی طو رپر پانی کی کمی کا شکار نہ تھے مگر آبادی کے بے لگام پھیلاؤ کی وجہ سے آثار ضرور نمودار ہو رہے تھے۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ جو کچھ بچ گیا تھا اسے سنبھال کر رکھتے‘ مزید ذخیروں کیلئے بروقت سرمایہ کاری کرتے اور استعمال کے سلسلے میں کفایت شعاری کے ساتھ زرعی شعبے میں آبپاشی کے جدید طریقے متعارف کراتے۔ چلو یہ بھی کر لیں مگر آبادی اگر بڑھتی رہی اور اب تو یہ جن بوتل سے نکل کر بے قابو ہو چکا ہے‘ تو آپ کو پانی کے قحط کا سامنا کرنا پڑے گا۔ باقی رہی سہی کسر عالمی موحولیاتی تبدیلیوں نے پوری کر دی ہے۔ بارشیں بھی اب کہیں ضرورت سے زیادہ برستی ہیں اور کہیں کئی برسوں سے خشک سالی ہے۔ اپنے دریاؤں کو دیکھ لیں‘ کبھی پانی نظر آ جائے تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ قدرتی وسائل اور ان کا آبادی کے ساتھ تناسب کا فطری توازن ہم کئی عشروں سے کھو بیٹھے ہیں۔ آبادی کی شرح میں کمی کی درخواست ہم کس کے پاس لے کر جائیں‘ کس سے فریاد کریں کہ حکمران اور عوام اس کو قومی مسئلہ ہی نہیں سمجھتے ہیں۔ یہاں یہ ذاتی معاملہ ہے اور ہم اس کے بارے میں سوال بھی نہیں اٹھا سکتے۔ اب بھی وہ مبلغ ہمارے درمیان نظریاتی سیاست کرتے ہیںجنہوں نے ایوب خان کے زمانے میں خاندانی منصوبہ بندی کو مذہب سے نہ صرف متصادم قرار دیا تھا بلکہ ملک کے طول و عرض میں دیواریں اس نعرے سے بھر رکھی تھیں کہ انسان دو ہاتھ اور ایک منہ لے کر پیدا ہوتا ہے۔عقل مندی‘ سوچ بچار‘ منطق اور دلیل کے معاملات ہم نے دوسروں پر چھوڑ رکھے ہیں۔سماجی ترقی کی سست رفتاری کی بڑی وجہ عورتوں کے حقوق کی پامالی اور زرعی معاشرے کی باقیات ہیں ۔ بنگلہ دیش‘ جو کسی زمانے میں مشرقی پاکستان تھا‘کی آبادی مغربی پاکستان سے کہیں زیادہ تھی‘ آبادی کے پھیلاؤ پر کنٹرول کرچکا ہے۔ ہماری بات اور ہے کہ یہاں ہر مسئلے میں سیاست اور اس سے جڑی مصلحت پسندی کا عمل دخل ہے۔ پانی ہو یا آبادی کی منصوبہ بندی شہروں کے ہر جانب بڑھتے ہوئے کنارے ہوں یا قدرتی وسائل کا ضیاع سب حکمرانوں کے تنگ فکری رویوں اور ذاتی مفادات کے تابع رہے ہیں۔ کبھی کسی حکمران کو دیکھا ہے کہ وہ کہے بھی اور کر کے بھی دکھایا ہو کہ کوئی بچہ آج کے بعد سکول سے باہر نہیں ہوگا؟ لاکھوں بچے سکولوں میں نہیں ہیں تو وہ بیداری‘ شعور اور سماجی ترقی جس سے آبادی کی شرح افزائش میں کمی کئی ممالک میں ممکن ہو سکی ہے‘ یہاں بھی لوگوں کے نصیب میں لکھی جائے گی۔
دولت کی طرح پانی بھی لوگوں میں انصاف سے تقسیم نہیں۔ پڑھے لکھے‘ شہروں میں رہنے والے لوگ سب سے زیادہ پانی ضائع کرتے ہیں‘ یا وہ جو دیہاتوں میں بڑے زمیندار ہیں۔ غریب شہروں کی کچی آبادیوں میں رہتے ہوں یا دیہاتوں میں‘ انہیں صاف پانی بہت ہی کم ملتا ہے۔ ہمارے لئے پانی کی کوئی کمی نہیں۔دیکھتا ہوں‘ لوگ گاڑیاں دھو رہے ہیں‘ گھر وںکے پورچ واش کر رہے ہیں اورپانی سامنے سڑک پر بے روک بہا رہے ہیں۔ حیران ہوں ہم کس صدی میں رہ رہے ہیں ‘ہم دنیا دیکھ چکے ہیں اور حکمران بھی ضرور دیکھ چکے ہوں گے کہ وہ اکثر وہاں رہتے بھی ہیں کہ پانی کی سپلائی پر میٹر لگے ہوتے ہیں۔ جتنا آپ استعمال کرتے ہیں اتناہی آپ کو بل آتا ہے۔ جب چالیس سال پہلے اسلام آباد آیا تھا تو یہاں ہر گھر کے باہر واٹر میٹر نصب تھا۔ اب کہیں نہیں۔ کھلی چھٹی ہے جتنا چاہیںاستعمال کریں‘ ضائع کریں‘ شعور نہیں‘ قانون نہیں‘ اقدارنہیں اور نہ ہی آدابِ زندگی ‘پانی کی کون قدر کرتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved