وقت وقت کی بات ہے۔ وقت بدلتا رہتا ہے۔ لیکن 12سال کی بالی عمریا گزرنے کے بعد عادتیں بدلنے سے انکاری ہوجاتی ہیں۔کسی زمانے میں سریا بزنس زوروں پر ہوا کرتا تھا۔جندال کیا آیا‘ کہ ساجن کا سریا جنگلا بن کے ہر طرف چھا گیا۔یہ بزنس کوئی ہم سے سیکھے کہ باغوں‘ میناروں‘ فواروں والے شہر کے چمن اور گلستان اُجاڑ کر کنکریٹ کا جنگل کیسے اُگایا جاتا۔ یہ جہالت کے زمانے کی باتیں تھیں‘جب مقصود چپڑاسی‘ فالودے والا بابا وغیرہ پکڑے جاسکتے تھے۔ Artificial Intelligenceکیا آئی کہ وڈیو آڈیو بزنس نے ذہانت کے ساتھ ساتھ سیاست اور ریاست کو بھی مروڑ کر رکھ دیا۔اس میدان کے شہ سواروں نے کیلیبری فونٹ پر پہلا قدم رکھا اور درمیان کی ساری منزلیں پھلانگتے ہوئے‘ ملک کے سب سے بڑے صوبے اور وفاق میں راتوں رات فتوحات کے کشتوں کے پشتے لگادیے۔فاتحین کی تاریخ کو آپ جانتے ہی ہیں۔
فتح کے بعد رعایا پر اہلِ حَکم کی دھاک اور دبدبہ بٹھانا اُن کا پہلا کام ہوتا ہے۔اور پھر ایسے ہی ہوا۔ تاحیات نااہل وزیر اعظم کی بیٹی کا آڈیو لیک کہتا ہے''میں میڈیا مینج کرتی ہوں۔ایسے نہیں چلے گا۔ اگر تم لوگ میرے مطابق نہیں چل سکتے‘ پھر سیکرٹری اور پی ایم سے کہوں گی‘‘ ۔ ''امپورٹڈ‘‘ حکمران خاندان کی ترجمان خاتون کا میڈیا مینجمنٹ آڈیو لیکس میں اپنا ورلڈ ریکارڈ ہے۔دنیا کی کوئی اور حکومت اس آڈیو وڈیو ذہانت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ صرف ذہانت کیا بلکہ طاقت میں بھی۔ یو ایس اے بہادر کا 37واں صدر (صدارتی ٹرم20جنوری1969ء تا9اگست 1974ء) صرف ایک آڈیو لیک کی مار ثابت ہوا۔بیچارہ Richard Milhous Nixonٹیلی فون کی لینڈ لائن سے بننے والی ایک آڈیو لیک کا مقابلہ نہ کرسکا۔ مخالفین کے ٹیلی فون ٹیپ کرکے اُنہیں ہراساں اور زیرِ دبائو لانے کے الزام میں مواخذے(Impeachment) کے کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا۔
صدر رچرڈ نکسن کے خلاف مواخذے کا ٹرائل سال1973ء میںاکتوبر کے مہینے کی 30تاریخ کو شروع ہوا۔اگلے سال 20اگست1974ء تک یہ ٹرائل چلتا رہا۔ دنیا کی سپر پاور کا سب سے بڑا عہدے دار آخرکار امریکی قانون کی بالادستی کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوگیا؛چنانچہ نظریں نیچے کئے‘9اگست 1974ء کے دن صدر نکسن Disgraceہو کر صدر کے عہدے سے مستعفی ہوا اور گھر چلا گیا۔امریکہ کے خوبرو وکیل‘ سروقامت William Jefferson Clintonبھی Monica Samille Lewinskyکے آڈیو لیک کی تاب نہ لاسکا۔
Nicolas Paul Stéphane Sarközy de Nagy-Bocsaجیسے چھوٹے موٹے فرانسیسی صدر کو چھوڑ دیتے ہیں۔ہمارے آڈیو وڈیو لیکس کے مالکان‘سلطنت اور ریاست دونوںپر امریکی صدر سے بھی زیادہ بھاری ثابت ہوئے ہیں۔ اگر کسی کو شک ہو تو وہ ان کے خلاف صرف ایک بیان دینے کے بدلے میں اپنی دوآڈیو اورتین عدد وڈیوز مفت میں بنوا کرلیک بھی کروا سکتا ہے۔ ملک میں جب سے'' امپورٹڈ حکومت‘‘ install ہوئی عین اُسی روز سے تین بزنس کے گھوڑوں کو جیسے پیٹھ پہ چابک پڑگئی۔
امپورٹڈ رجیم کا پہلا بزنس :دور دیس سے آنے والے سائیفر اور اُس کے سفارتی بیگ میں چھپی ہوئی موشن آف نو کانفیڈنس کوئی ایسا ویسا ریکارڈ تھوڑا ہی تھامگر سرکار کے Honeymoon Periodکے چرچے شرق سے غرب تک ہر ریکارڈ پر سب سے بھاری ثابت ہوئے۔بنگلہ دیش کے انگریزی اخبار‘ سوشل میڈیاTabloidsاور سوئٹزرلینڈ سے لے کر براستہ فرانس امریکہ بہادر تک ہنی مون کے تذکرے اور چرچے مدمقابل ہیں۔
امپورٹڈ رجیم کا دوسرابزنس:اسی ریکارڈ کے لیے ہی شاید شاعر نے کہا تھا:گلی گلی میری یاد بچھی ہے‘ پیارے رستہ دیکھ کے چل۔ لوڈ شیڈنگ نے ساڑھے تین سال بعد وہ ریکارڈ بنائے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ ہر گھنٹے بجلی آتی ہے‘اور پھر یوں فوراً سے چلی جاتی ہے جیسے لندن دوائی لینے کے لیے جا پہنچی ہو۔
امپورٹڈ رجیم کا تیسرابزنس:انسانوں کے کھانے والے تیل سے شروع ہوتا ہے۔ کہیں دل جلانے اور کہیںلکڑیوں کے جلانے والے تیل سے ہوتا ہوا‘مِس پٹرولیم سے جنا بِ ڈیزل تک جا پہنچتا ہے جن کی قیمتوں میں 30روپے فی لیٹر کا اضافہ کرکے تیل کمپنیوں‘پٹرولیم پمپوں اور آئل انڈسٹری کوتاریخی ریلیف دیا گیا۔اس 30فیصد کے مقابلے میں بھارت نے اسی ہفتے انڈین شہریوں کو پٹرولیم پرائسز میں 25روپیہ فی لیٹر کی رعایت کردی۔ اس وقت ایک انڈین روپیہ 2.56پاکستانی روپے میں آتا ہے۔باقی حساب آپ خود لگالیں۔
ایک دوسری سیاسی آڈیو لیک بھی لائی گئی جس کامقصد عمران خان کی بے چارگی اور بزدلی ثابت کرنا تھا۔ اس آڈیو لیک کو شہرتِ دوام ملنے سے پہلے ہی موت آگئی۔ پاکستان میں پراپرٹی اور ہائوسنگ ڈویلپمنٹ کے بزنس کو گرد و غبار سے نکال کر عالمی معیار تک پہنچانے والے ملک ریاض حسین نے اس آڈیو لیک کو Fake‘ مصنوعی اور من گھڑت قرار دیا ہے۔ویسے بھی ''برطانیہ کی کائونٹی‘‘ پشاور میں روپوش ''بزدل‘‘ عمران خان کا ''اصلی شیروں‘‘ سے کیا مقابلہ۔وہی ''وڈّے شیروں کا ٹبّر‘‘ جو ''پاکستان‘‘ کے صوبہ گریٹر لنڈن کے ضلع مے فیئر میں پوری جانبازی اور بہادری سے ڈٹے ہوئے ہیں۔انگریزی ڈنکے کی دیسی چوٹ پر‘ جو ہر روز اُن کے گھروں کے باہر دن رات بجتا ہے۔
احمد فراز عوامی مزاحمتی لٹریچر کی روایت کے آخری شاعر تھے۔ اُن کے ساتھ فیض‘ استاد دامن‘حبیب جالب اور ساحر لدھیانوی کا دور تو ختم ہوا‘ لیکن وہ اپنے کلام کے ذریعے دلوں میں دھڑکتے‘ اور عوام کے جذبوں میں آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔دوسری جانب فراز نے معرکہ آرا نظم ''محاصرہ‘‘ طویل ترین ڈکٹیٹرشپ کے دور میں لکھی۔ تب بھی درباری ماہرین کے سرکاری اندازے آزادی کے لیے باہر نکلنے والوں کو 10‘20سے زیادہ ماننے سے انکاری تھے۔ایسے ہی بندگانِ شکم پر مبنی ''مجلسِ شورا‘‘بنائی گئی۔جس میں شامل ٹیکنوکریٹ احمد فراز کو متاثر کرنے میں کامیاب رہے۔فراز بھی چپ نہ رہا۔
تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام
امیدِ لطف پہ ایوانِ کج کلاہ میں ہیں
معززینِ عدالت بھی حلف اٹھانے کو
مثالِ سائل مبرم نشستہ راہ میں ہیں
24‘25مئی2022ء کی دوراتوں میں سڑک پر 10یا20لوگ نکلے‘ اس سچائی کے چند رپورٹ شدہ ثبوت یوں ہیں:لاہور میں 500سے زیادہ وکلا کی گرفتاری۔ اُن پر دہشت گردی ایکٹ دفعہ 7کے مقدمات۔ 2000نا معلوم وکلا جنہیں پولیس کہتی ہے فیس بک سے شناخت کرلیں گے‘ اُنہیں بھی عمران خان کی کال پر باہر نکلنے کا مجرم قرار دیا گیا۔باقی چھوڑیے تیسری مثال عمران خان کی ہی لے لیجئے‘ جس کے خلاف صرف وفاقی دارالحکومت کے 11تھانوں میں صرف14عدد ایف آئی آر کاٹی گئیں۔ ہر ایف آئی آر میں150سے 250آزادی مارچ کے لیے نکلنے والے نوجوان نامزد بھی ہوئے اور بڑی تعداد میں گرفتار بھی۔تیسرا ثبوت اٹارنی جنرل آف پاکستان کی طرف سے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کے سامنے آن ریکارڈ پیش ہوا۔وفاق کے چیف لاء آفیسر نے کہا...(جاری )
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved