وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک حالیہ بیرونی دورے کے دوران کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پاکستان کی جمہوری سیاسی جدوجہد میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس سے قبل پاکستان کے وزرائے اعظم‘ جن میں جمہوری طریقے سے منتخب وزرائے اعظم بھی شامل ہیں‘ کو غیر جمہوری طریقوں‘ محلاتی سازشوں اور غیر آئینی طریقے سے ہٹایا جاتا رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ حزب اختلاف‘ جس کی پارلیمانی نظام میں ایک شیڈو حکومت کی حیثیت ہوتی ہے‘ کی طرف سے آئین میں دیے گئے طریقہ کار (آرٹیکل 95) کے مطابق حکومت کی تبدیلی عمل میں لائی گئی ہے۔ اس طرح پاکستان میں جمہوری عمل کی بلوغت کی ایک نئی اور پہلی اہم مثال قائم ہوئی ہے۔
متحدہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے درکار کم از کم (172) ووٹوں سے صرف دو ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ حکمران پی ٹی آئی کے 25 سے زائد منحرف اراکین اسمبلی اپوزیشن کے ہمراہ اپنی پارٹی کی حکومت کے خلاف ووٹ ڈالنے کے لیے تیار تھے مگر متحدہ اپوزیشن نے ان کی حمایت کے بغیر کامیابی حاصل کر کے ثابت کر دیا کہ حکمران پارٹی(پی ٹی آئی) ایوان میں واقعی اکثریت کھو چکی تھی۔ اس کیفیت میں اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہ تھا اور متحدہ اپوزیشن نے آئینی راستہ اختیار کر کے اسے باہر کا راستہ دکھا کر نہ صرف اپنا آئینی حق استعمال کیا بلکہ جمہوری طریقے سے سیاسی تبدیلی کی مثال قائم کر کے ملک میں جمہوریت کی جڑوں کو مضبوط کیا۔ مگر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی صرف جمہوریت کے لیے ہی باعثِ تقویت نہیں ہے‘ اس سے پاکستان میں وفاقیت (Federalism) کی بنیادیں بھی مضبوط ہوئی ہیں کیونکہ متحدہ اپوزیشن میں شامل جن سیاسی جماعتوں نے جمہوری سیاسی تبدیلی کی یہ مثال قائم کی ہے‘ وہ اگرچہ قومی سیاسی جماعتیں ہیں مگر ووٹ بینک کے اعتبار سے چاروں صوبوں اور آبادی کے لسانی گروپوں اور دینی افکار کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس طرح پاکستان میں ایک سیاسی مسئلے پر جمہوری اتفاق ِرائے بن کر ابھرا ہے۔
یہ جمہوریت کے ارتقائی سفر میں نہ صرف ایک اہم سنگ ِمیل ہے بلکہ پاکستانی وفاق کی مختلف اکائیوں کے درمیان اتحاد‘ اتفاق اور تعاون کی ایک زندہ مثال بھی ہے۔ اس سے پاکستان کے مختلف حصوں میں رہنے والے ایک دوسرے سے الگ زبانیں بولنے والے اور ایک دوسرے سے الگ ثقافت کے حامل لوگوں کے درمیان مفاہمت ‘ یگانگت اور یک جہتی کے تعلقات پروان چڑھیں گے۔ اس طرح وفاقِ پاکستان‘ جسے شروع سے ہی گوناگوں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ مزید مضبوط ہو گا‘ بالکل اسی طرح جیسے متحدہ اپوزیشن نے پارلیمانی نظام حکومت کی حمایت میں ثابت قدم رہ کر ایک ایسی حکومت کو آئین میں دیے گئے طریقے سے تبدیل کر کے اپنا جمہوری حق استعمال کیا ہے‘ جو ایوان میں اکثریت کھو کر حقِ اقتدارسے محروم ہو چکی تھی‘ لیکن کچھ عناصر تحریک عدم اعتماد سے پیدا ہونے والی صورت حال کو پاکستانی وفاق کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ان کی نشاندہی کر دی ہے۔ ان کے مطابق عمران خان صاحب کی کال پر اسلام آباد کی طرف 25 مئی کے مارچ میں خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے چیف منسٹر اپنی کابینہ کے اراکین‘ انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ شریک ہوئے‘ بلکہ پولیس کے مسلح دستے اسلام آباد تک اپنے لیڈروں کے ہم رکاب رہے۔ یاد رہے کہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان‘ میں پی ٹی آئی کی حکومتیں ہیں‘ اس لیے ان کی حکومتوں کے عہدے دار پی ٹی آئی کے رکن بھی ہیں اور وہ اس حیثیت میں اپنی پارٹی کی کسی سرگرمی میں حصہ لے سکتے ہیں‘ لیکن سرکاری ذرائع استعمال کر کے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو گی‘ بلکہ اسے وفاقی حکومت کے خلاف اقدام قرار دیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے ہر صوبے کو آئین کے تحت داخلی خود مختاری حاصل ہے لیکن ہرصوبے کی انتظامیہ اس بات کی پابند ہے کہ وہ ایسے اقدامات‘ پالیسیوں یا سرگرمیوں سے اجتناب کرے جن سے وفاقی حکومت کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔ اگر وفاقی وزیر داخلہ کا یہ بیان درست ہے کہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ مسلح پولیس کے ہمراہ مارچ کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت تک آئے تھے‘ تو آئین کے تحت ان دونوں اکائیوں کی انتظامیہ کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے اور ہونی بھی چاہیے‘ کیونکہ ایسی کارروائیوں کا نوٹس نہ لیا گیا تو وفاق اور اس کی اکائیوں کے درمیان نفاق پیدا ہو گا۔
ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تاریخی طور پر پنجاب اور اس کے شمال میں واقع افغان قبائل کے علاقوں (انہیں 18 ویں صدی کے آخری برسوں میں احمد شاہ نے متحد کر کے جدید افغان سلطنت قائم کی تھی) کے درمیان مخصوص تعلقات رہے ہیں۔ اناج پیدا کرنے والے پنجاب کے زرخیز میدان قدیم زمانے میں شمالی علاقوں کی طرف سے یلغار اور لوٹ مار کا شکار رہے ہیں۔ سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے دوران ہندوستان کے مختلف حصوں میں جو طوائف الملوکی پھیلی‘ پنجاب کو اس کا بھاری نقصان اٹھانا پڑا‘ کیونکہ اس افراتفری سے فائدہ اٹھا کر درہ خیبر اور کوہ ہندو کش کے راستے مسلح جتھے پنجاب پر حملہ آور ہوتے تھے اور لوگوں کی سال بھر کی کمائی لوٹ کر واپس چلے جاتے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پنجاب کے کسانوں کو کھلیانوں سے اپنی فصل اٹھانے کی مہلت نہیں ملتی تھی کیونکہ افغانستان اور قبائلی علاقوں سے مسلح جتھے زبردستی یہ اناج اٹھا کر واپس لے جاتے تھے۔ صرف اناج ہی نہیں بلکہ لوگوں کے مویشی اور بھیڑ بکریاں بھی ساتھ لے جاتے۔ چونکہ دہلی اور لاہور میں کوئی مضبوط حکومت نہیں تھی‘ اس لیے ان حملہ آوروں کو ان کی لوٹ مار سے روکنے والا کوئی نہ تھا تاآنکہ انیسویں صدی میں رنجیت سنگھ نے دریائے سندھ کے پار قبائلی علاقوں (موجودہ خیبر پختونخوا) پر قبضہ کر کے انہیں اپنی سلطنت کا حصہ بنایا اور پنجاب پر دریائے سندھ کے پار سے حملہ آوروں کو روکنے کے لیے کوہ ہندو کش کے ساتھ ساتھ ایک ایسی مضبوط دفاعی لائن تعمیر کی کہ پنجاب پر ان حملوں کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے رک گیا۔ کیا خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ‘ اس دور کی یاد دلانا چاہتے ہیں؟ پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں کی طرح خیبر پختونخوا کے عوام بھی حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں اور پاکستان کی علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کسی سازش کا حصہ نہیں بننا چاہتے‘ مگر کے پی اور گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کے حکومتی سربراہان کے اقدامات باعث تشویش ہیں ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved