11 اگست 1947 ء کے دن قائد اعظمؒ نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ نوزائیدہ مملکت خداد اد کو جن بلاؤں کا سامنا ہے ان میں سے ایک کرپشن ہے یعنی بدعنوانی۔ آپ نے فرمایا تھا کہ ہمیں اس سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹنا ہوگا۔ جب قائد اعظم کی تقریر میں کرپشن کا ذکر آیا توبانیانِ پاکستان پر مشتمل اسمبلی نے داد و تحسین کی برسات ہی کردی۔ اس دستور ساز اسمبلی سے آنجناب نے امید بھی ظاہر کی تھی کہ یہ کرپشن کے سدباب کیلئے مناسب اقدامات کرے گی۔ آپؒ کی زندگی نے وفا نہ کی اور کرپشن کے خاتمے سے پہلے ہی اجل کا بلاوا آ گیا۔ اس کے بعد دستور سازاسمبلی اپنے بکھیڑوں میں پڑ گئی اور یوں کرپشن کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہا جیسے پاکستان بننے سے پہلے چل رہا تھا بلکہ فرزندانِ پاکستان نے نئے ملک کی اینٹ ہی ایسی رکھی کہ بدعنوانی کی دیوار تا ثریا کج کی کج ہی بلند ہوتی رہی۔ اس کج دیوار کے سائے میں وہ سب کچھ زیادہ ولولے کے ساتھ پنپتا رہا جو پاکستان بننے سے پہلے کم جوش و جذبے کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ جب پاکستان کے بھاگ کھلے اور امریکی امداد میسر آئی تو لوٹ کے مال میں نئے فریق بھی شامل ہوتے رہے۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہم نے اپنے قائد کے فرمان کو بھلا یا نہیں۔ ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک سبھی نے اپنے اپنے حریفوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے قائد کے فرما ن کی روشنی میں احتسابی قوانین بنائے اور ان پر زور وشورسے عمل بھی کیا۔ جیسے ہی احتساب زدگان نے دستِ شاہی پر بیعت کی اس کے بعد ان کے سارے گناہ معاف ہوگئے بلکہ مہلت و ہمتِ گناہ میں اضافہ بھی کردیا گیا۔ البتہ وہ ادارہ یعنی پارلیمنٹ جس کے ذمے قائد نے کرپشن سے نمٹنے کا کام لگایا تھا‘ اس نے کبھی نیم دلی سے بھی کرپشن ختم کرنے کیلئے کوئی ڈھنگ کی قانون سازی نہیں کی۔
ہماری موجودہ پارلیمنٹ جس کا نسب اس دستور سا زاسمبلی سے جا ملتا ہے جسے قائد اعظم نے کرپشن کے خاتمے کا حکم دیا تھا‘ اس معاملے میں اپنی تمام پیشرو اسمبلیوں سے بازی لے گئی ہے۔ اس پارلیمنٹ کے بیشتر عزت مآب اراکین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان پر کسی نہ کسی حوالے سے کرپشن کے براہ راست الزامات عائد ہوتے ہیں۔ ایک صاحب تو ایسے بھی ہیں جن کے کھاتوں میں خود بخود پیسے جمع ہوتے رہتے ہیں‘ وہ خرچ بھی کرتے چلے جاتے ہیں مگر یہ نہیں بتا پاتے کہ یہ ہن کیسے برس رہا ہے۔ ایک صاحب وہ ہیں جنہوں نے اپنے مکان کی خاطر ایک سرکاری رہائشی سکیم کا نقشہ ہی بدلوا ڈالا جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ کیونکر ہوا تو وہ بیمار ہوگئے۔ اب کیا عرض کیا جائے کہ کیسے کیسے ہنرمند ہیں جو اس پارلیمنٹ میں موجود ہیں۔ہمیں ان کے دستِ معجز نما کے کرشموں کا کبھی پتا نہ چلتا اگرپرویز مشرف کا بنایا ہوا نیب آرڈیننس 1999 کا قانون نہ ہوتااور پھر اس کو بالاتفاق ختم نہ کیا جاتا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے پچھلے کچھ عرصے سے یہ رَٹ لگا رکھی ہے کہ اس قانو ن کے تحت بنائے گئے سب مقدمے جھوٹے تھے‘ چلیے مان لیا تو پھر جھوٹے مقدمات کے لیے یہ قانون ختم کرنے کو اتنا اتاؤلا ہونے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ مقدمے ایسے بھی ہیں جو عدالت میں چل پڑے تو کئی عزت مآبو ں کا ٹھکانہ جیل ہوگی۔اس لیے ایسی نوبت آنے سے پہلے ہی قانون کی تبدیلی ضروری تھی اور وہ بھی ایسی کہ ماضی میں کسی مقدمے میں اگر سزا بھی ہوچکی ہو تو ختم ہوجائے۔
بلا شبہ پرویز مشرف نے اس قانون میں ایسی شقیں رکھی تھیں جنہیں استعمال کرتے ہوئے بوقتِ ضرورت اکھڑے ہوئے محبوب کو قدموں میں لایا جا سکتا تھا اورانہوں نے ان شقوں سے کام بھی خوب لیا لیکن اس کی ایک شق ایسی تھی جسے دنیا بھر کے ماہر ینِ قانون کرپشن کے خاتمے کیلئے لازمی قرار دیتے ہیں اور یہ پاکستان کے قانونی نظام میں پہلی دفعہ متعارف کرائی گئی تھی۔ وہ شق تھی کہ آمدن اور اثاثوں کے مابین ربط قائم کرکے دکھانا اس شخص کی ذمہ داری تھی جس سے اثاثوں کا سوال پوچھا جائے۔ مثلاًسرکاری عہدے پر رہنے والے کسی آدمی سے یہ سوال پوچھا جائے کہ آمدن تو تمہاری پچاس ہزار روپے ماہانہ ہے مگر تمہاری گاڑی تین کروڑ کی ہے اور مکان پانچ کروڑ کا تو آمدن اور اثاثوں کے درمیان اس عدم توازن کا قابلِ اطمینان جواب دینا اسی شخص کے ذمے ہوگا۔ اگر ایسا شخص کوئی جواب نہیں دیتا یا غلط جواب دیتا ہے تو اسے مجرم سمجھا جائے گااور اس شق کے مطابق یہ ضروری نہیںاس پر کرپشن کا الزام بھی ثابت ہو۔ بظاہر یہ قانون کافی سخت نظر آتا ہے مگر یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے ایک کنونشن میں بھی بتایا گیا ہے کہ مشکوک آمدنی سے حاصل شدہ اثاثوں کے بارے میں ثبوت اسے دینا ہے جس کے قبضے میں اثاثے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سوال کسی کاروباری فرد سے نہیں پوچھا جاسکتا مگر سرکاری عہدے پر رہتے ہوئے کسی نے کرپشن کی ہوتو اس سوال کے سوا کوئی طریقہ نہیں جس کے ذریعے لوٹا ہوا مال برآمد کیا جاسکے۔اب ہماری پارلیمنٹ نے نیب کے قانون کی اس شق کو مکمل طور پر ختم کرکے یہ لازم قرار دیا ہے کہ پہلے نیب ثابت کرے کہ فلاں نے کرپشن کی ہے اس کے بعد ہی اگلا سوال اٹھے گا۔ یہ بھی واضح رہے کہ نیب کے قانون کا اطلاق عام آدمی پر نہیں ہوتا تھا بلکہ صرف ایسے لوگوں پر ہوتا تھا جو سرکارمیں ہوں‘ رہے ہوں‘ سرکاری پیسے کا لین دین کرتے ہوں یا عام آدمیوں سے بڑے پیمانے پر فراڈ کریں۔ یعنی اس کی زد میں صرف وہی لوگ آتے ہیں جو اسمبلیوں میں یا ان کے اردگرد کے دفتروں میں پائے جاتے ہیں۔ گویا جن پر اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے انہوں نے خود ہی مل ملا کر اسے ختم کردیا ہے۔
سوال اٹھانے کا اختیار نیب سے لے کر اس پر ایک ایسی پابندی بھی لگا ئی جارہی ہے جو دنیا کے کسی اور قانون میں نہیں ملتی۔ نئے قانون کی منظوری کے بعد نیب کے افسراگر کوئی کیس لے کر عدالت میں جائیں اور یہ کیس ثابت نہ ہوسکے تو عدالت تفتیشی افسر کو ہی پانچ سال کے لیے اندر کرسکتی ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ قانون میں اس شق کی شمولیت کے بعد کون پاگل ہوگا جو کرپشن کے ملزم کے ساتھ خود ملزم بن کر خود ہی جیل جانے کا خطرہ مول لے گا؟ ہماری پارلیمنٹ دنیا کے اس نرالے قانون کے ذریعے غالبا ًیہ پیغام دینا چاہ رہی ہے کہ پاکستان کرپشن سے مکمل طور پر پاک ہوچکا ہے لہٰذا یہاں کرپشن کا الزام لگانا ہی سنگین جرم بنا دیا گیا ہے۔
ایسا ہرگز نہیں کہ پرویز مشرف کا بنایا ہوااحتساب کا یہ قانون مکمل طور پر درست تھا۔ اس میں نوے دن کا ریمانڈ اور ضمانت کی گنجائش نہ ہونا اتنی بڑی دو خرابیاں تھیں جن کا ٹھیک کرنا ضروری تھا۔ یہ بالکل ہونا چاہیے تھا کہ ریمانڈ کی مدت کم کی جاتی اور عدالت کو ضمانت کا اختیار بھی تفویض کیا جاتا۔ یہ بھی ضروری تھا کہ نیب کی اندرونی اصلاح کی جاتی تاکہ کسی پر بھی ہاتھ ڈالنے سے پہلے یہ خود اچھی طرح تفتیش کرتا‘ صرف پکڑ دھکڑ میں ہی مصروف نہ رہتا۔ 'احتساب سب کے لیے‘ جیسے بے معنی نعرے سے نکل کر سرکاری کامو ں میں رکاوٹ بننے کی بجائے ایک ایسا ادارہ بنتا جو پاکستا ن کے سرمائے کی حفاظت میں مصروف رہتا۔ اس ادارے کی اصلاح کرنے کے بجائے ہوا یہ ہے کہ قانون کا وہ بنیادی پتھر ہی نکال دیا گیا ہے جس پر احتساب کی عمارت کھڑی تھی۔ ان تبدیلیوں کے بعد دیگر سرکاری اداروں کی طرح نیب سرکاری افسروں کیلئے چائے پینے کے ایک ٹھکانے کے سوا کچھ نہیں رہ جائے گا‘ جس کا خرچہ عوام کو اٹھانا پڑے گا۔
11 اگست 1947 ء کے دن قائد اعظم نے پاکستان کی پہلی اسمبلی کے سامنے کرپشن کو ملک کو بڑا مسئلہ قرار دیا تھا۔ آج اگر قائد اعظم ہمارے بیچ ہوتے اوراسمبلی سے مخاطب ہوتے تو وہ شاید یہ نہ کہتے کہ کرپشن پاکستان کا بڑا مسئلہ ہے۔ بلکہ یہ کہتے پاکستان کا بڑا مسئلہ ایسی اسمبلیاں ہیں جو کرپشن کا سدِ باب نہیں کرتیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved