بھوک اقتدار کی ہو یا مال و زر کی‘ کسی وبال سے ہرگزکم نہیں۔ مملکتِ خداداد میں ایسے بھوکوں اور بھوک کے ماروں کی حالت دیدنی ہے۔بھوک مٹانے کے لیے کیسے کیسے ہتھکنڈوں اور حربوں سے لے کر ملکی سالمیت اوراستحکام دائو پر لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے سبھی نے وتیرہ ہی بنا لیا ہے کہ اقتدار میں ہوں تو پاک فوج زندہ باد‘اقتدار سے باہر ہوں تو حصولِ اقتدار کے لیے استحکام پاکستان کی علامت اداروں کے بارے میں الزام تراشی اور ہرزہ سرائی سے بھی گریز نہیں کرتے۔سابق وزیراعظم عمران خان کوئے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد کم و بیش ہیجانی کیفیت سے دوچار ہیں۔ مقتدرہ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اگردرست فیصلے نہ کیے تو ملک دیوالیہ ہونے کے علاوہ تین ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر ایٹمی اثاثوں سے محروم ہو جائے گا۔ گویا مقتدرہ اگر اپنا وزن خان صاحب کے پلڑے میں ڈالتی ہے تو اسی صورت میں ملک مستحکم ہو سکتا ہے اورایٹمی اثاثے محفوظ رہ سکتے ہیں‘ بصورت دیگر خان صاحب خود چین سے بیٹھیں گے اور نہ ہی قومی اداروں کو کام کرنے دیں گے۔
خدا جانے عمران خان صاحب کسی زعم میں ہیں یامغالطے کا شکار ہیںکہ 2018ء کے انتخابات میںعوام کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آئے تھے۔الیکٹ ایبلز بھی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر تحریک انصاف میں جوق در جوق یونہی شامل ہوتے چلے گئے تھے۔زمینی حقائق سے آنکھیں چرانے والوںکو حالات اس نہج پر لے آئے ہیں کہ وہ خود پرستی کے سحر میں اس قدر مبتلا ہوچکے ہیں کہ صمیم قلب سے یہ حقیقت بھی تسلیم نہیں کرپارہے کہ وہ اب اقتدار میں نہیں رہے۔برسراقتدار آنے کے بعدتخت پنجاب پر عثمان بزدار کو بٹھانے کے بعد اس فیصلے پر نظر ثانی سے مسلسل انکار‘ ضد اور ہٹ دھرمی پر مبنی فیصلوں نے انہیں اس مقام پر لاکھڑا کیا کہ وہ جن بیساکھیوں کے سہارے کوئے اقتدار میں داخل ہوئے تھے انہی پر تنقید اور ہرزہ سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔یقینا مردم شناسی میں کہیں بھول یا کوتاہی ضرور ہوئی ہوگی کہ عمران خان آج تمام حدیں پار کرکے قومی اداروں کے خلاف نفرت اور انتشار پھیلانے کے علاوہ اپنی زبان سے وہ شعلے اگل رہے ہیں جن سے لگی آگ شاید وہ خود بھی نہ بجھا پائیں۔تقریباً چار سالہ اقتدار میںسماجی انصاف اور کڑے احتساب جیسے بیانیوں سے لے کر پولیس ریفارمز اور معاشی استحکام جیسے سبھی دعووں کو آج بھی انتخابی وعدوں کے طور پر استعمال کرنے والے میرٹ اور گورننس کے معنی الٹا کرکیسی کیسی بدنامیوں اور ناکامیوں کے طوق گلے میں ڈالے نجانے کس بوتے پرمملکت خداداد کو انگار وادی بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
بیانیہ سازی سے لے کر بیانیہ فروشی تک کے سبھی کردار فراموش کرنے پر آتے ہیں تو قانون اور ضابطوں سے لے کر آئین اور حلف سے لے کرسبھی دعووں اور وعدوںسے انحراف کر نے والے محض اس لیے اترائے پھرتے ہیں کہ ان کا بیانیہ سپرہٹ ہو گیا۔ بس بیانیہ چلنا چاہیے اور بھلے کچھ چلے نہ چلے۔ ان جمہوری چیمپئنز سے کوئی تو پوچھے کہ وہ کون سا سنہری دور تھا‘ وہ کون سے خوش نصیب دن تھے‘ وہ کون سے یادگار لمحات تھے کہ مملکت خداداد میں حقیقی جمہوریت کی کونپلیں پھوٹی ہوں۔ عوامی مینڈیٹ کے درخت پھل پھول سے لدے ہوں‘ تحمل‘ برداشت اور بردباری کی فضا نے سیاسی ماحول کو مہکایاہو‘ آئین کی پاسداری اور قانون و ضابطوں پر عملداری ہوئی ہو۔ انتخابی دعووں اور وعدوں کو برسراقتدار آکر عملی اقدامات کی شکل دی گئی ہو۔ مفادِ عامہ نصب العین بنایا ہو۔ سرکاری وسائل اور خزانے کو امانت سمجھا ہو‘صادق اور امین کے معانی نہ الٹائے ہوں‘ دادرسی کیلئے سائل در در کی خاک نہ چھانتے ہوں‘ ناحق مارے جانے والوں کی روحیں انصاف کے لیے نہ بھٹکی ہوں‘ قانون اور ضابطے جبر اور ظلم کے اشاروں پر نہ ناچے ہوں‘ سربلند کو سرنگوں کرنے کیلئے انتظامی مشینری کا ناجائز استعمال نہ کیا ہو‘ کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ نہ کی گئی ہو‘ پیداواری عہدوں کی بولی نہ لگی ہو‘ اقتدار اور وسائل کے بٹوارے نہ ہوئے ہوں‘ بوئے سلطانی کے ماروں نے اداروں کو نہ للکارا ہو‘ بندہ پروری اور اقربا پروری کے ساتھ ساتھ شکم پروری کو فروغ نہ دیا ہو‘ حرام حلال کی تمیز کو نہ مٹایا ہو۔ ان چشم کشا اور ناقابل تردید تلخ حقائق کی موجودگی میں کس منہ سے بیرونی مداخلت اور عالمی سازش کی بات کی جاتی ہے؟
مسلسل بداعمالیوں کے بعد کسی سازش کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ انحراف آئین سے ہو یا عوام سے کیے گئے وعدوں سے‘ دونوں صورتوں میں یہ ملک و قوم کے خلاف سازش ہے۔ بیرونی مداخلت کا بیانیہ بھی ضرور بیچیں لیکن خیال رہے کہ شعلہ بیانی اور اشتعال انگیزی میں اس حد تک نہ چلے جائیں کہ اپنی لگائی آگ کل آپ سے بھی نہ بجھے۔ خدا جانے کوئی غفلت ہے یا کوئی سزا‘سالہا سال سے انہی رہنمائوں کو آزمائے چلے جا رہے ہیں۔ کتنی ہی نسلیں بدل گئیں۔اقتدار کے جوہر آزمانے والے خاندان بھی وہی ہیں اور شوقِ حکمرانی کا شکار ہونے والے عوام بھی وہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دونوں طرف باپ کی جگہ بیٹا اور دادا کی جگہ پوتا۔ نسل در نسل حاکم بھی وہی اور محکوم بھی وہی چلے آرہے ہیں۔ یہ سلسلہ بدلتا نظر نہیں آتا۔خوش حالی کے سنہری خواب ہوں یا اچھے دنوں کی آس‘ نہ خوابوں کو تعبیر ملتی ہے نہ آس پوری ہوتی نظر آتی ہے۔ بس یہی خلاصہ ہے وطنِ عزیز کی اکثریت کی زندگانی کا۔سراب کے پیچھے بھاگتے بھاگتے بالآخر قبروں میں جاسوتے ہیں۔ نسل در نسل رُلتے اور دربدر بھٹکتے عوام کو کبھی سوچنے کی توفیق ہی نہ ہوئی کہ ان کے خوابوں‘ امیدوں اورآسوں کا اگر قتل ہوا ہے تواس کا کوئی قاتل بھی ہوگا۔انہوں نے اگر پے در پے دھوکے کھائے ہیں تو کوئی دھوکہ دینے والا بھی یقینا ہوگا۔ان کے بچے اگر اچھی تعلیم اور پیٹ بھر روٹی سے محروم رہے تو اس محرومی کا ذمہ دار بھی تو کوئی ہوگا۔داد رسی اور انصاف میں کہیں رکاوٹ ہے تو رکاوٹ پیدا کرنے والا بھی ضرور ہوگا۔ملک و قوم کا خزانہ اگر لوٹا گیا ہے تولٹیرا بھی تو کوئی ہوگا۔ لوگ بنیادی ضرورتوں سے محروم چلے آرہے ہیں تومحروم کرنے والا بھی کوئی ہوگا۔ان کے بگڑے نصیب باوجود کوشش کے نہ سنوریں تو انہیں بگاڑنے والا بھی یقینا کوئی ہو گا۔ سڑکوں پر ناحق بہتا ہوا خون ہے تو اسے بہانے والا بھی کوئی ہوگا۔ان کے بچوں کے ہاتھ میں کتاب کے بجائے ہتھیاراور اوزارہیں تو کتاب چھیننے والا بھی تو کوئی ہوگا۔کاش! عوام یہ سوچنے کے قابل ہوتے۔
چلتے چلتے کبھی نہ ختم ہونے والی بھوک کے بارے میں جو عرض کرنے جارہا ہوں اسے سیاسی تناظر میں ہرگز نہ لیا جائے تاہم سمجھنے والے سمجھ گئے جو نہ سمجھے وہ اناڑی۔گدھ ایک مردار خور پرندہ ہے‘ پیٹ بھرجانے کے باوجودبھوک ختم نہیں ہوتی تو بھاگنا شروع کر دیتا ہے اور بھاگتے بھاگتے کھایا ہوا الٹ دیتا ہے۔ الٹی کے بعد پھر کھانے لگ جاتا ہے پھر بھی پیٹ تو بھر جاتا ہے لیکن بھوک ختم نہیں ہوتی۔ اسی طرح وہ بار بار یہی عمل دہراتا ہے لیکن بھوک نہیں ختم ہوتی کیونکہ وہ حرام اور مردار کھاتا ہے۔یہ قدرت کے وضع کردہ آفاقی اصول ہیں جوحرام کھانے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔حرام مال سے پلنے والے ہوں یا کنبہ پروری کرنے والے۔ قدرت بھرپور موقع دیتی ہے کہ جتنا کھا سکتے ہو کھا لو، مگر شکم سیری کی لذت سے ہمیشہ ہی محروم رہو گے۔مال حرام کھانا تمہارے لیے ایک مشقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔حرام کھانے سے پیٹ تو بھر جائے گا لیکن تمہاری بھوک کبھی ختم نہیں ہوگی۔شایداسی لیے بھوک ختم نہیں ہورہی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved