تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     04-06-2022

مچھیرے کی شاندار کامیابی

میں نے ''مچھیرے‘‘ سے پوچھا کہ بالعموم آپ لوگوں کو جو کامیابی ملتی ہے وہ سمندر سے ملتی ہے۔ کبھی کوئی نادر مچھلی آپ کے جال میں پھنس جاتی ہے تو آپ کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ کبھی سمندر مہربان ہو کر تہہ سے کوئی گراں قدر موتی آپ کی طرف اچھال دیتا ہے تو آپ کی قسمت سنور جاتی ہے۔ یہ جو غیرمعمولی کامیابی آپ کے حصے میں آئی ہے وہ سمندر کے بجائے زمین سے ملی ہے۔ تعلیم یافتہ مچھیرا پل بھر کو رکا اور اس نے کہا: جب سمندر پر جانے کے راستے بند کر دیے جائیں اور جب مچھیروں کو اپنی کشتیوں سے جال پھیلانے سے روک دیا جائے تو پھر اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہو کر اُن کے لیے کئی در کھول دیتا ہے۔
بلوچستان کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بہت سے غیرمتوقع نتائج سامنے آئے۔ بلوچستان کی معروف سیاسی جماعتوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ بہت بڑی تعداد میں آزاد امیدوار کامیاب ہوئے؛ تاہم سب سے بڑی حیران کن کامیابی وہ ہے جو صرف ایک سال قبل منظرعام پر آنے والی تنظیم ''حق دوتحریک‘‘ کے حصے میں آئی ہے۔ یہ تحریک پہلی بار انتخابی اکھاڑے میں اتری اور اس نے بلوچستانی سیاست کے بڑے بڑے برج الٹ دیے ہیں۔ ''حق دوتحریک‘‘ کے خلاف گوادر میں چار بڑی قومی و مذہبی جماعتوں نے مشترکہ محاذ بنا لیا تھا۔ اس محاذ میں بی این پی (مینگل)‘ نیشنل پارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان نیشنل پارٹی شامل تھیں؛ تاہم اس ہائی فائی محاذ کو ''حق دوتحریک‘‘ نے عبرتناک شکست سے دوچار کردیا ہے۔
تازہ ترین نتائج کے مطابق مولانا ہدایت الرحمن کی قیادت میں گوادر کے عوام کے لیے خم ٹھونک کر کھڑی ہونے والی تنظیم کو تقریباً 148 میں سے 64 سیٹیں حاصل ہوئیں۔ اتنی عظیم کامیابی ''حق دوتحریک‘‘ کی جھولی میں کیسے آن گری؟ اس کامیابی کے پس منظر میں محرومی وبے بسی کی ایک طویل داستان ہے۔ ظلم و تشدد کے خلاف مجبورو مظلوم لوگوں نے ایک ایسے ردعمل کا اظہار کیا کہ اُس کے سامنے حکمرانوں کو سرتسلیم خم کرنا پڑا۔ ''حق دوتحریک‘‘ نے گزشتہ سال 32 روز تک مسلسل پرامن مگر پرعزم دھرنا دیا اور بھرپور احتجاج کیا۔
اس تحریک کا نقطۂ عروج 15 نومبر 2021ء سے شروع ہوا جب یہاں کے عوام نے گوادر میں دھرنا دیا۔ یہ لوگوں کا سمندر تھا جس میں جوان بھی تھے‘ بوڑھے بھی تھے‘ مرد بھی تھے‘ عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی تھے؛ تاہم اس دھرنے کا کلائمیکس ہزاروں خواتین کی وہ ریلی تھی کہ جیسی ریلی گوادرو مکران تو کیا اہلِ بلوچستان نے کبھی کوئٹہ میں بھی نہ دیکھی تھی۔
خواتین میں سے اس ریلی کی روحِ رواں ماسی زینی تھیں جنہوں نے گوادرو مکران کی خواتین میں اپنی حقوق کے لیے بیداری کی زبردست تحریک چلائی۔ ہزاروں خواتین کی اس ریلی سے طالبہ نفیسہ نے بلوچی‘ انگریزی اور اُردو میں پرجوش خطاب کرتے ہوئے حکمرانوں کو متنبہ کیا تھا کہ آج گوادر کی ہر ماں‘ ہر بہن اور ہر بیٹی مولانا ہدایت الرحمن کی ہر ہدایت پر لبیک کہنے کو دل و جان سے آمادہ ہے۔خاتون مقررہ نے حکمرانوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تم نے ہمارے قائد مولانا ہدایت الرحمن کو گرفتار کرنے کی حماقت کی تو تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور پھر بات صرف گوادر کے ماہی گیروں‘ شہریوں‘ تاجروں اور طالب علموں کے حقوق تک نہیں رہے گی بلکہ بہت آگے جائے گی۔ گوادر پورٹ سٹی اور سی پیک کی بنا پر اس دھرنے کو ملکی ہی نہیں عالمی میڈیا پر بھی بہت شہرت ملی تھی۔
ہم نے ''کلامِ شاعر بزبانِ شاعر‘‘سننے کے لیے مولانا ہدایت الرحمن سے گوادر میں فون پر رابطہ کیا تو انہوں نے گرم جوشی سے مجھے خوش آمدید کہا۔ مولانا نے بتایا کہ وہ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں اور میرے کالم پڑھتے رہتے ہیں۔ مولانا ایک پڑھے لکھے ماہی گیر ہیں اور جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں۔ میں نے بلا تمہید مولانا سے پوچھا کہ وہ کون سا الہ دین کا چراغ آپ کے پاس تھا جس کی بنا پر آپ نے ڈسٹرکٹ گوادر میں پرانی قومی و مذہبی جماعتوں کو شکست سے دوچار کیا اور بلدیاتی انتخاب میں ناقابل یقین کامیابی حاصل کی۔ مولانا نے فرمایا کہ ہمیں یہ کامیابی اللہ کے فضل اور عوام کی بھرپور تائید و حمایت سے حاصل ہوئی ہے۔ گزشتہ برس نومبر اور دسمبر کے دھرنے میں گوادر کے لوگوں نے زبردست تحریک چلائی۔ میں نے عرض کیا‘ آپ کے مطالبات کیا تھے؟ ہدایت الرحمن صاحب نے کہا کہ کہنے کو تو گوادر پورٹ سٹی ہے اور یہ سی پیک کا نقطۂ آغاز ہے اور کہا جاتا ہے کہ گوادر جلد ہی سنگاپور اور دبئی بنے گا مگر ہمارا حال یہ ہے کہ یہاں پانی ہے نہ بجلی‘ تعلیم ہے نہ علاج‘ روزگار ہے نہ ہی ملازمت کے مواقع۔ انہوں نے بتایا کہا کہ 2002ء سے پہلے یہاں ہم خوش حال تھے۔ یہاں لوگوں کے دو ذرائع معاش تھے‘ ایک ماہی گیری اور دوسرا بارڈر کی تجارت۔
ماہی گیری کے لیے ہمیں ایک معمول کی رجسٹریشن کرانا ہوتی تھی۔ اس کے بعد ہم آزادی سے مچھلیاں پکڑتے تھے۔ اسی طرح بارڈر پر ہم ایران کے ساتھ تجارت کرتے تھے۔ دوطرفہ اشیا کا تبادلہ ہوتا تھا۔ 2002ء میں گوادر پورٹ کی تعمیر کا آغاز ہوا تو ہمیں امید تھی کہ ہماری خوش حالی میں اضافہ ہوگا مگر ہوا اس کے بالکل برعکس۔ ہمارے سمندر میں بڑے بڑے غیر قانونی ٹرالر آکر مچھلیاں پکڑنے لگے۔ وی آئی پی وزٹ کے نام پر تین تین دن ہمارے مچھیروں کو سمندر پر جانے کی اجازت نہ تھی۔ گوادر اور مکران کے علاقے میں قدم قدم پر چیک پوسٹیں بن گئیں جہاں بار بار ہماری چیکنگ ہوتی تھی۔ جو لوگ یہاں صدیوں سے آباد ہیں‘ جن کے آبائواجداد کی یہاں قبریں ہیں اُن سے پوچھا جاتا کہ تم کون ہو۔ یہ رویہ اہانت آمیز تھا۔ ہمارے بتیس روزہ دھرنے کے بعد حکمرانوں اور کئی واجب الاحترام اداروں نے ہمیں یقین دہانیاں تو بہت کرائی تھیں مگر ابھی تک ہمارے اکثر مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ اب ہم منتخب ہو کر اپنی کارپوریشنوں اور کونسلوں کے ذریعے ایک ایک محکمے کے پاس جائیں گے اور اُن سے آزادانہ ماہی گیری‘ روزگار‘ تجارت‘ پانی‘ بجلی‘ ہسپتالوں اور بہترین تعلیم گاہوں کا مطالبہ کریں گے۔ ہم خود بھی ٹیکس دیں گے اور جن لوگوں نے یہاں برسوں پہلے کم داموں پر زمینیں لے رکھی ہیں اُن سے بھی ٹیکس لیں گے۔ ہم ان شاء اللہ آغاز گوادر سے کر کے سارے بلوچستان کو خوش حال اور پرامن بنائیں گے۔
بلوچستان کا ساحلی شہر گوادر قیام پاکستان کے وقت سلطنت عمان کا حصہ تھا۔ اس وقت دوراندیش اور مستقبل پر گہری نگاہ رکھنے والے پاکستانی سیاستدانوں کو اندازہ تھا کہ دفاعی و معاشی طور پر اس علاقے کی ہمارے لیے کیا اہمیت ہے۔ 1958ء میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے طویل گفت و شنید کے بعد عمان سے گوادر ساڑھے پانچ ارب روپے میں خرید لیا۔ آج کل ہمارے اکثر حکمران اور سیاست دان اس وژن اور دوراندیشی سے محروم ہیں۔ ایک دوسرے پر دشنام طرازی اور سنگ باری اُن کا محبوب مشغلہ ہے۔
جماعت اسلامی سے وابستہ مولانا ہدایت الرحمن نے ایک غیرسیاسی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے اسے عظیم الشان سیاسی کامیابی سے ہمکنار کیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کیلئے اس کامیابی میں ایک فکرانگیز اشارہ بھی ہے۔ جب جماعت اپنے آپ کو عوامی مسائل کے ساتھ وابستہ کر لیتی ہے تو لوگ اس کے اردگرد جوق در جوق جمع ہو جاتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ گوادر کے ماہی گیر سیاست دانوں کو مزید کامیابیوں سے سرفراز کرے۔ آمین

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved