پاکستان اس وقت جن پیچیدہ، گمبھیر اور الجھے ہوئے مسائل سے دوچار ہے، کیا اس تناظر میں اصلاحِ احوال ممکن ہے؟ اس کا عقلی جواب تو یہ ہے: ''ممکن ہے، کیونکہ عالَمِ اِمکان میں ہر چیز ممکن ہے‘‘۔ نپولین بونا پارٹ کی طرف ایک مقولہ منسوب ہے: ''میری ڈکشنری میں ناممکن کا لفظ نہیں ہے‘‘۔ لیکن امکانِ عقلی (Rationally Possible) اور اِمکانِ عادّی (Normally Possible) دو مختلف حقیقتیں ہیں؛ پس ہمارے ہاں مجموعی قومی تناظر کو دیکھا جائے، سیاق وسباق پر نظر ڈالی جائے، لوگوں کے عمومی مزاج کو پیشِ نظر رکھا جائے، تو عادتاً یا معمول کے طور پر ہمارے ہاں اصلاحِ احوال ناممکن یعنی مشکل ترین ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ ہماری قیادت اپنے مزاج کے اعتبار سے متوازن اور معتدل نہیں رہی۔ جب ایک قومی رہنما کا عُجب، تکبر، اَنا پرستی، برخود راستی، خود کو معیارِ حق اور دوسروں کو باطلِ محض سمجھنے کا زعم انتہائی درجے تک پہنچ جائے، تو اصلاح عملاً ناممکن ہو جاتی ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام اصلاحِ احوال ہی کے لیے مبعوث ہوئے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا: ''میں تو اللہ کی توفیق کے سہارے اپنی استطاعت کی حد تک (تمہاری) اصلاح چاہتا ہوں، میں نے اُسی پر بھروسا کیا اور میں اُسی کی طرف رجوع کرتا ہوں‘‘ (ہود: 88)۔ حدیث پاک میں ہے: (1) ''حضرت تمیم داریؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ نے فرمایا: دین خیر خواہی کا نام ہے، (صحابہ بیان کرتے ہیں:) ہم نے عرض کی: (یا رسول اللہﷺ!) کس کی خیر خواہی؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ، اُس کی کتاب، اُس کے رسول، مسلمانوں کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی (دین ہے)‘‘ (صحیح مسلم: 55)، (2) ''حضرت جریر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں: میں نے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ دینے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کے منشور پر رسول اللہﷺ کی بیعت کی‘‘ (صحیح بخاری: 524)۔
صلاح کی ضد فساد ہے اور فساد کے معنی بگاڑ کے ہیں۔ فساد کبھی اعتقاد میں، کبھی عقل و فکر میں اور کبھی نیت میں ہوتا ہے۔ عقل و فکر میں فساد ہو تو انسان اپنے غلط کو بھی صحیح اور دوسرے کے صحیح کو بھی غلط سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور جب اُن سے کہا جائے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں: ہم تو فقط اصلاح کرنے والے ہیں، سنو! در حقیقت وہی فساد کرنے والے ہیں، لیکن انہیں اس بات کا شعور نہیں ہے‘‘ (البقرہ: 11 تا 12)۔ قرآن کریم نے اسی فریبِ نفس کودلوں کی کجی سے تعبیر کیا اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا تعلیم فرمائی: ''اے ہمارے ربّ! جب تو نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے، تو اس کے بعد تو ہمارے دلوںکو راہِ راست سے نہ ہٹا اور ہمیں اپنی بارگاہ سے رحمت عطا فرما، بے شک تو بہت عطا فرمانے والا ہے‘‘ (آل عمران: 8)۔
عقل و فکر کی اسی گمراہی کے بارے میں قرآنِ کریم میں فرمایا: ''تو کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ اُن کے لیے ایسے دل ہوتے جن سے یہ (حق بات کو) سمجھتے اور ایسے کان ہوتے جن سے یہ (حق بات کو) سنتے، پس حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں (دھڑکتے ) ہیں‘‘ (الحج: 46)۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''آپ کہہ دیجیے! ہر شخص اپنی اُفتادِ طبع کے مطابق عمل کیے جاتا ہے، پس تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ راستی پر ہے‘‘ (بنی اسرائیل: 84)۔ آج کل بعض گروہ اپنی اُفتادِ طبع کے مطابق قرآن وسنت کی تشریح کرتے ہیں، پھراُسی سوچ کے مطابق قتل وغارت کرتے ہیں، زمین میں فساد برپاکرتے ہیں اور پھر اُسے اصلاح کا نام دیتے ہیں، وہ فکر ی کجی میں مبتلا ہیں اور اپنی افتادِ طبع کے خلاف دین کی کوئی تعبیر سننے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ قرآن کریم نے اسی کو ''حمیّتِ جاہلیّہ‘‘سے تعبیر کیا ہے۔
پس فساد کا ایک سبب یہ ہے کہ فی نفسہٖ کوئی عقیدہ یا نظریہ باطل ہو، دوسراسبب یہ ہے کہ حق بات کی باطل تعبیر و توجیہ کی جا رہی ہو جیسا کہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوارج کے بارے میں فرمایا تھا: اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ''حکم تو بس اللہ ہی کا چلے گا‘‘ (یوسف: 40) بلاشبہ حق ہے، لیکن یہ اس سے باطل معنی مراد لے رہے ہیں اور تیسرا سبب عمل کا باطل ہونا ہے۔
ہمارے معاشرے میں دعوت و تبلیغ کا کام یقیناکسی نہ کسی درجے میں ہو رہا ہے اور اس کے ثمرات واثرات بھی مرتّب ہو رہے ہیں، لیکن اس کا تناسب معاشرے میں محدود ہے۔ مزید یہ کہ افعالِ خیر کی ترغیب تو دی جاتی ہے، لیکن معاشرتی خرابیوں کو اُس شدت سے ہدف نہیں بنایا جاتا، جو وقت کی ضرورت ہے۔ اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ بہت سی خرابیاں بحیثیتِ مجموعی ہمارے معاشرے میں قابلِ نفرت نہیں رہیں، صرف دولت اور جاہ و اقتدار کو تکریم مل رہی ہے یا اس سے بھی پست تر معیار آثارِ قیامت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب قومی خزانے کو ذاتی دولت بنا لیا جائے، قومی امانتوں کو غنیمت سمجھ کر لوٹا جانے لگے اور زکوٰۃ کو تاوان سمجھ کر دینے سے انکار کر دیا جائے، دین کا علم دنیا سنوارنے کے لیے حاصل کیا جائے، ایک شخص اپنی بیوی کا فرمانبردار اور ماں کا نافرمان ہو جائے، اپنے دوست کو قریب کرے اور باپ کو دور رکھے، مسجد وں میں آوازیں بلند ہونے لگیں (یعنی جھگڑے ہوں)، بدکار شخص قبیلے کا سردار بن جائے، قوم کی زمامِ اقتدار کمینوں کے ہاتھ میں آ جائے اور (معاشرے میں) کسی شخص کی عزت (اس کے علم، کردار یا شرافت کی بنا پر نہیں بلکہ) اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے، گانا گانے والیوں کا دور دورہ ہو، آلاتِ غِنا عام ہو جائیں، شراب نوشی عام ہو جائے اور اس امت کے پچھلے اپنے پہلوں پر لَعن طَعن کریں، تو پھر تم اس وقت کا انتظار کرو جب سرخ ہوائیں چلیں گی، زلزلے آئیں گے، زمین میں دھنسا دیے جائو گے، صورتیں بگاڑی جائیں گی اور پتھر برسائے جائیں گے اور قیامت کی نشانیوں کا پے درپے ظہور ہوگا، جیسے (ہار کی) پرانی لڑی ٹوٹ جانے سے اس کے دانے یکے بعد دیگرے ایک ایک کر کے گرتے ہیں‘‘ (ترمذی: 2211)، ایک اور حدیث میں فرمایا: ''جس نے (دین کا) علم، جسے صرف اللہ کی رضا کے لیے حاصل کرنا چاہیے، دنیوی مقاصد کے لیے حاصل کیا، وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا‘‘ (مسند احمد: 8457) اور دوسری حدیث میں ہے: ''جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے محسوس ہوتی ہے‘‘ (صحیح بخاری: 3166)۔
آج کل ہمارے معاشرے کی عمومی فضا جتنی شر کے کاموں کے لیے سازگار ہے‘ اتنی خیر کے کاموں کے لیے نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خیر کے حصول کے دروازے بند ہو گئے ہیں، الحمدللہ! اُس کے امکانات بھی بہت وسیع ہیں، صرف عزمِ صمیم، اخلاص ولِلّٰہیّت اور فکر و عمل کی راستی کی ضرورت ہے۔ اخلاص ولِلّٰہیّت میں بڑی طاقت ہے، اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے ناقابلِ تصور حد تک بڑی مصیبتوں کو ٹال دیتا ہے یا بڑی کامیابی عطا فرماتا ہے۔
اصلاح کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کسی دلیلِ حق کے بغیر صرف اپنے آپ کو راستی پر سمجھنا ہے۔ اسی کو انگریزی میں Self Righteousness کہتے ہیں، زندہ وتابندہ اور راست رَو قوموں اور ملتوں میں بعض مسلّمات ہوتے ہیں، انہیں انگریزی میں Universal Truth کہتے ہیں اور جو اُن مُسلَّمَہ معیارات پر پورا اترے، وہ راست رَو کہلاتا ہے اور جو اُن کے خلاف چلے یا اس معیار پر پورا نہ اترے، وہ گمراہ اور بدراہ کہلاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں بالخصوص ہماری سیاست میں یہ بیماری عام ہو گئی ہے کہ ہر ایک کا اپنا اپنا سچ ہے، ہر ایک صرف خود کو راست رَو سمجھتا ہے اور اپنے فریقِ مخالف کو غلط اور باطل سمجھتا ہے۔
اسی طرح بعض معاشروں میں یکساں طور پر مسلّم اور مقبول شخصیات ہوتی ہیں، جو متضاد گروہوں میں اصلاح کا فریضہ انجام دیتی ہیں، فریقین کی طرف سے اُن کا احترام کیا جاتا ہے، اُن کی بات کو قبول کر لیا جاتا ہے اور درپیش مسائل کے حل کے لیے کوئی درمیانی راستہ نکل آتا ہے۔ قرآنِ کریم نے زوجین کی اصلاح کے لیے بھی یہی طریقۂ کار تجویز فرمایا ہے: ''اور اگر تمہیں اُن دونوں کے درمیان ناچاقی کا اندیشہ ہو تو ایک ثالث مرد کی طرف سے اور ایک ثالث عورت کی طرف سے مقرر کرو، اگر وہ (نیک نیتی سے) اصلاح چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ (اپنی قدرت سے) ان دونوں کے درمیان موافقت فرما دے گا‘‘ (النسآء: 35)۔
اعلیٰ عدلیہ کے منصفین کو Judge (مُنصِف) کی بجائے Justice یعنی انصاف کا نام دیا جاتا ہے، یہ اس حُسنِ ظن پر مبنی ہوتا ہے کہ اُن کا شِعارِ عدل اتنا شفاف، غیر جانبدار اور بے لاگ ہوتا ہے کہ گویا اُن کی ذات اور انصاف ہم معنی اور لازم وملزوم ہو گئے ہیں۔ بعض اوقات چند فیصلوں میں ایک فریق کی طرف جھکائو نظر آتا ہے اور جانبداری کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ اب سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ باتیں زبان زدِ خاص وعام ہیں اور یہ ہمارے نظامِ عدل پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر رہی ہیں کیونکہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظام آئین وقانون میں انصاف کی آخری امید اسی ادارے سے ہوتی ہے۔ عمران خان اپنے مخالفین پر یہ طعن کرتے ہیں کہ انہوں نے ملک پر قرضوں کا انبار چڑھا دیا ہے، جبکہ مدتِ اقتدار کے تناسب سے دیکھا جائے تو اُن کے دور میں لیے گئے داخلی اور خارجی قرضوں کی شرح پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے، نیز یہ کہ سابق حکومتوں کے ادوار کے برعکس ان کے دور میں لیے گئے بیس‘ بائیس ہزار ارب روپے کے قرضوں کے زمین پر آثار بالکل نظر نہیں آ رہے، جبکہ وہ نہایت شدّومد کے ساتھ اس حوالے سے اپنے مخالفین کو مطعون کرتے رہتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ جو الزام وہ دوسروں پر لگا رہے ہیں، خود بھی اس سے مبرّا نہیں ہیں، یہی حال اُن کے مخالفین کا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved