عوام کی نقل و حرکت کا دارومدار سواری پر ہے اور سواری پٹرول یا ڈیزل سے چلتی ہے۔ چاہے سواری چار کروڑ والی کار ہو یا 50 ہزار والی موٹر سائیکل‘ اس نے چلنا فیول ہی سے ہے۔ اب اگر پٹرول‘ ڈیزل مہنگے ہوں گے تو لازم ہے کہ ہر چیز کی ٹرانسپورٹیشن کے دام بڑھ جائیں گے۔ ہر کام میں گاڑیوں‘ ٹرکوں‘ بسوں‘ ٹریکٹرز ‘ٹرالرز اور بائیکس وغیرہ کا استعمال ہوتا ہے۔ ہر جگہ جانے کے لیے سواری استعمال ہوتی ہے‘ چیزوں کی نقل و حرکت کے لیے بھی سواری استعمال ہوتی ہے لہٰذا اگر آپ فیول مہنگا کریں گے تو ہر چیز مہنگی ہو جائے گی۔ پھل‘ سبزیاں وغیرہ ٹرکوں‘ ٹرالوں اور ویگنوں میں آتی ہیں‘ جب ان کے بیوپاری پٹرول و ڈیزل کی مد میں زیادہ پیسے‘ زیادہ کرایہ خرچ کریں گے تو وہ سبزیوں‘ پھلوں کے نرخ بھی بڑھا دیں گے۔ اسی طرح جب پبلک ٹرانسپورٹ والے زیادہ قیمت میں پٹرول‘ ڈیزل خریدیں گے تو لامحالہ وہ کرایوں میں اضافہ کردیں گے۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ میں اضافے سے بسوں ‘ ٹیکسی سروس اور تمام لوکل ٹرانسپورٹس کے کرایے بڑھ جائیں گے۔ بچوں کی سکول وین اور سکول بس وغیرہ کی فیس میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ حکومتیں شاید یہ سمجھتی ہیں کہ پٹرول‘ ڈیزل صرف امرا استعمال کرتے ہیں‘ ایسا نہیں ہے! ایندھن کا استعمال امیر غریب‘ سب کرتے ہیں۔ جیسے ہی حکومتیں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہیں تو مہنگائی کا نیا طوفان آ جاتا ہے جس سے اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ آمدنی میں تو اضافہ ہوا نہیں ہوتا لیکن خرچہ بڑھ جاتا ہے۔
نئی حکومت نے دس دن پہلے ہی پٹرول کی قیمت میں 30 روپے فی لٹر کا اضافہ کیا تھا‘ اب مزید 30 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ آج ہی اخبار میں یہ خبر چھپی ہے کہ قیمتوں میں مزید 23 روپے تک اضافے کا امکان ہے۔ ایک ہفتے میں پٹرول‘ ڈیزل 60روپے فی لٹر مہنگا ہونے سے عوام چیخ اٹھے ہیں اور سراپا احتجاج ہیں۔ جب پہلا اضافہ ہوا تو ڈیڑھ سو روپے لٹر میں ملنے والا پٹرول 180 روپے کا ہوگیا اور ایک لٹر ڈیزل 174 روپے کا‘ اب 3 جون کو ہونے والے اضافے سے پٹرول لگ بھگ 210 روپے کا ہوگیا ہے اور ڈیزل 205 روپے کا۔ عوام نے اس کو پٹرول کے ایٹم بم سے تشبیہ دی ہے اور اس اضافے کو سراسر ظلم قرار دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے رات کو نو‘ دس بجے یہ اعلان کیا گیا۔ جب یہ خبر سامنے آئی تو عوام کی بڑی تعداد پٹرول پمپوں کی طرف بھاگی تاکہ بارہ بجے سے پہلے گاڑی‘ موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوا لے لیکن بیشتر پٹرول سٹیشن ناجائز منافع خوری کے لالچ میں بند تھے۔ جو چند ایک کھلے تھے وہاں پر لوگ ایک دوسرے سے الجھ گئے، کئی پٹرول پمپوں پر لوگ حکومت کو بدعائیں دیتے نظر آئے جبکہ کچھ جگہوں پر توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ سڑکوں پر تو احتجاج ہوا ہی‘ سوشل میڈیا پر بھی لوگوں نے اپنے غم و غصے کا بھرپور اظہار کیا۔
یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں اس سے قبل مہنگائی مارچ کر رہی تھیں اور پٹرول میں ہونے والے چند روپوں کے اضافے کو ظلم اور ناقابلِ قبول قرار دیتی تھیں مگر انہوں نے دو جھٹکوں میں جس قدر پٹرول مہنگا کر دیا ہے‘ عمران خان کی حکومت میں پونے چار سال میں یہ اتنا مہنگا نہیں کیا گیا۔ یہ تو لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے مہنگائی کا بہانہ بنا کر عمران خان سے کرسی چھین لی اور ایک جمہوری حکومت کو چلتا کیا۔ اگر اُس حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیے جاتے تو آج ملک میں اس قدر سیاسی افراتفری نہ ہوتی۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں شطرنج کی بساط پر جو کھیل کھیلا گیا‘ اس نے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ملک میں اس وقت نظریاتی سیاسی تقسیم واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں اور سب تنقید کی زد میں ہیں۔
دوسری طرف بھارت کو دیکھیں جس نے حالیہ دنوں میں دس (بھارتی) روپے فی لٹر تک پٹرول سستا کیا ہے۔ بھارت یوکرین‘ روس جنگ کے بعد روس پر لگنے والی پابندیوں کے باوجود روس سے سستا تیل خرید رہا ہے تو پاکستان کی ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ روس سے سستا تیل نہیں خرید سکتا؟ ایک ایٹمی ملک کو اپنی خارجہ پالیسی میں آزاد ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ جنگ کے باوجود بھارت نے 34ملین بیرل آئل رعایتی نرخوں پر روس سے لیا ہے۔ جب اس خریدپر یورپ و امریکا کی جانب سے اعتراض کیا گیاتو بھارت نے کہا کہ سستا تیل ان کے ملک کی ضرورت ہے‘ وہ روس سے یہ خریداری جاری رکھے گا‘اگر اس کو روکا گیا تو عوام مشکل میں آجائیں گے۔ بھارت تیل کے علاوہ کوئلہ‘ کھاد‘ گیس سمیت دیگر اشیا روس سے درآمد کرتا ہے۔ پاکستان کو بھی روس سے سستا تیل لینا چاہیے اور اپنے عوام کو ریلیف دینا چاہیے۔حکومت کہہ رہی ہے کہ پوری دنیا میں مہنگائی ہوئی ہے تو عرض یہ ہے کہ باقی دنیا کی فی کس آمدنی بھی دیکھیں کہ وہ کتنی ہے۔ ہمارے عوام کی آمدن تو بڑھ نہیںرہی‘ بس ان کے خرچے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر چیز کا بوجھ ان پر ڈالا جا رہا ہے۔ جب کرپٹ افراد کو یہاں اربوں کی کرپشن کے باوجود این آر او مل جاتا ہے تو عوام جو ٹیکس گزارہیں‘ کوریلیف اورسبسڈی کیوں نہیں دی جا سکتی؟
اس وقت ہر چیز کی قیمت بڑھائی جا رہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات مہنگی، گھی مہنگا، کوکنگ آئل مہنگا، بجلی مہنگی، گیس مہنگی، پھل‘ سبزیاں مہنگی ۔عوام پہلے ہی رجیم چینج سے خوش نہیں تھے؛ اوپر سے یہ سب اقدامات شروع ہوگئے۔ حکمران جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو مہنگائی ختم کرنے کے دعوے کرتے ہیں لیکن جیسے ہی اقتدار ملتا ہے تو خود بھی ہر چیز کی قیمت میں اضافہ کردیتے ہیں۔ حال یہ ہے کہ ہر چیز کی قیمت کو پر لگ گئے ہیں اور عوام کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے قاصر ہیں‘ ان کے پاس علاج کے پیسے نہیں ہیں‘ ان کے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ اس شدید گرم موسم میں دس سے بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے عوام کا برا حال ہے اور ملکی قیادت بیرونی ممالک کے دورے کررہی ہے۔ اس ملک کی اشرافیہ کبھی اپنے خرچے بھی کم کرے‘ کیا خود وہ ٹیکس پیئرز کے پیسوں پر ہی عیاشی کرتی رہے گی؟ اپنی دو لاکھ کی جوتی‘ 45لاکھ کی گھڑی اور 5 کروڑ کی گاڑی جبکہ عوام کو سادگی کے درس! یہ عجیب مذاق ہے۔ پہلے خود کفایت شعاری کریں‘ تمام چیزوں کا بوجھ عوام پر نہ ڈالیں۔ اتنی ان کی آمدنی نہیں جتنے ان پر ٹیکس لگادیے گئے ہیں۔ اب وہ کیا کریں؟ حالیہ دنوں میں جتنے خود کشی کے واقعات ہوئے ہیں‘ ان کے پیچھے وجہ معاشی تنگ دستی ہی تھی۔ حکومت دو ہزار روپے کا ریلیف پیکیج دے کریہ سمجھتی ہے کہ حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی ہے ،ایسا نہیں ہے! اب متوسط طبقہ بھی غربت کی سطح سے نیچے جارہا ہے‘ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے جبکہ سیاستدان آپس میں لڑ رہے ہیں۔ جس حکومت کا مینڈیٹ اور مستقبل مشکوک ہو‘ وہ بڑے فیصلے نہیں لے سکتی۔ ملک کے مسائل کا حل جلد سے جلد الیکشن کا انعقاد ہے۔ اشرافیہ اپنی دولت باہر کے ممالک سے پاکستان منتقل کرے تاکہ ملکی معیشت کو سہارا ملے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ حکومت پاکستان میں کرنی ہے اور بچے‘ جائیدادیں ملک سے باہر!
پاکستان کا یہ بہت بڑا المیہ رہا ہے کہ یہاں جمہوریت کو کبھی چلنے نہیں دیا جاتا۔ ایک بھی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکا۔ اس لیے ملک کی معیشت کا یہ حال ہوگیا کہ ڈالر اور پٹرول آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ رہی سہی کسر کرپشن نے پوری کردی۔ کرپٹ حکمرانوں کو این آر او مل جاتے ہیں اور چائے کی پتی چوری کرنے والوں کو گلی میں باندھ کر زدوکوب کیا جاتا ہے۔ جن معاشروں میں اچھائی‘ برائی کی تفریق ختم ہوجائے وہاں بدقسمتی ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ یہی ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔ عوام اس وقت کوڑی کوڑی کے محتاج ہوچکے ہیں۔ ہر چیز کے نرخ دگنے ہوگئے ہیں۔ یہ حالات آنے والے الیکشن میںپی ڈی ایم جماعتوں کے ووٹ بینک کو بھی متاثر کریں گے۔ فرصت ملے تو سب سوچیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو گھر بھیج کر اچھا نہیں کیا گیا۔ اب بھی وقت ہے کہ آگے بڑھ کر حالات کو سدھاریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved