تحریک انصاف کے سربراہ نے جمعے کے روز بونیر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ایک احتجاجی جلسہ کیا۔ اس جلسے میں آنے کے لیے انہوں نے ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا۔ مبینہ طور پر اس ہیلی کاپٹر میں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے فیول ڈلوا کر عوام کو یہ بتایا گیا کہ اتحادی حکومت نے عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑ دیے ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم پاکستان کی قافلے کی صورت میں آفس روانگی اور سائرن بجاتی سکیورٹی عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر غریب ملک کا عام شہری اپنے پٹرول کے اخراجات خود برداشت کر رہا ہے تو ہمارے حکمرانوں اور سرکاری ملازمین کو لاکھوں روپے کاپٹرول مفت کیوں دیا جا رہا ہے؟ کیا ان کی تنخواہیں پٹرول کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے ناکافی ہیں؟ حکمرانوں کی جانب سے عوام کو صبر کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے لیکن یہ ممبران خود تو قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کمیٹیوں میں شرکت کے لیے ٹریول الائونس اور ایئر لائنز کے مفت ٹکٹس تک چھوڑنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے۔ یہ خدشہ خارج از امکان نہیں کہ یہ تجویز جلد قومی اسمبلی میں پیش کی جا ئے کہ پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے سبب ممبرانِ اسمبلی کا ٹریول الائونس بڑھایا جائے۔
عوام عجب چکی میں پستے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کمانا پڑتا ہے اور دوسری طرف کروڑوں‘ اربوں پتی ممبرانِ اسمبلی کے خرچوں کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جمہوری نظام حکومت میں جب حکمران اور عوام ایک پیج پر دکھائی نہیں دیتے تو اپوزیشن عوام کی ترجمان کے طور پر کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔ حقیقی ترجمانی کے لیے ضروری ہے کہ اپوزیشن عوام کے رنگ میں رنگی ہو۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر تحریک انصاف کے سربراہ بونیر جلسے میں ہیلی کاپٹر کے بجائے کسی عام گاڑی میں جاتے۔مجھے پیپلز پارٹی کا 2008ء سے 2013ء کا دورِ حکومت یاد آ گیا جب ملک میں بجلی کا بحران شدت اختیار کر چکا تھا۔ مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) برسراقتدار تھی۔ پنجاب میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے شہباز شریف صاحب نے کابینہ کا اجلاس سڑک پر بلا لیا تھا۔ کئی بار مینارِ پاکستان کی گرائونڈ میں ہاتھ والے پنکھوں کے ساتھ ٹینٹوں میں اجلاس کی کارروائی چلائی گئی۔ اس احتجاج نے مسلم لیگ (ن) کی عوامی مقبولیت میں بھی اضافہ کیا تھا۔ سیاستدانوں کا کام خود کو عوام کا حصہ ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ عوام کے دلوں میں رہنے کے لیے ضروری ہے کہ لیڈر بھی عوامی حالت میں رہنا شروع کر دیں۔ اس ضمن میں بھارت میں عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور عہدیداروں کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ بھارت کے ساتھ نظریاتی اختلافات اپنی جگہ لیکن وہاں کی جو مثبت روایات ہیں‘ انہیں اپنائے جانے کی ضرورت ہے۔ وہاں وزیراعظم، صدر، وزیراعلیٰ اور دیگر سرکاری ملازمین چند لاکھ روپوں کی سادہ سرکاری گاڑیوں میں سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں حکمرانوں، سرکاری ملازمین اور مختلف اداروں کے سربراہ کروڑوں روپوں کی گاڑیوں میں مہنگا پٹرول ڈلوا کر گھومتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے طور طریقے بدلیں؟
ملک میں ایک ہفتے کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 60 روپے فی لٹر تک کا اضافہ کیا جا چکا ہے۔ بجلی کی قیمت میں تقریباً آٹھ روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دی جا چکی ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق یہ اضافہ ابھی ناکافی ہے‘ آئی ایم ایف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تقریباً 275 روپے فی لٹر تک بڑھانے کا خواہاں ہے۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ڈبل ڈیجٹ سے سنگل ڈیجٹ میں آ گئے ہیں۔ پچھلے ہفتے مرکزی ڈالر ذخائر سے 366 ملین ڈالرز نکل گئے۔ اس وقت سٹیٹ بینک میں ڈالر کے ذخائر 9 ارب 72 کروڑ کی سطح پر آ گئے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود شہروں میں بارہ سے چودہ گھنٹے اور دیہات میں اٹھارہ سے بیس گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔ موڈیز نے پاکستان کی بیرونی ریٹنگ مستحکم سے منفی قرار دے دی ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ پاکستان اپنے قرضے ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ تجارتی خسارہ 43 ارب ڈالرز سے تجاوز کر گیا ہے۔ درآمدات 72 ارب ڈالرز کی تاریخی سطح پر پہنچ چکی ہیں جبکہ ہدف 55 ارب ڈالرز سے تجاوز نہ کرنے کا تھا۔ مئی کے مہینے میں برآمدات دو ارب ساٹھ کروڑ ڈالر رہیں جو اپریل کے مقابلے میں تقریباً 10 فیصد کم ہیں۔ برآمدات میں 296 ملین ڈالرز کی کمی ہوئی ہے۔ برآمد کندگان کو دی جانے والی سو ارب روپے کی سبسڈی ختم کرنے کی تیاریاں بھی زیرِ گردش ہیں۔ عدم ادائیگی کی بدولت چینی آئی پی پیز کی جانب سے بجلی کے پلانٹس بند کرنے کی اطلاعات ہیں۔ ڈالر ذخائر دو ماہ کی درآمدات کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اس تناظر میں بھی ملک کے سیاستدان قہقہے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ گھر میں آگ لگی ہو تو چہرے پر مسکراہٹ کیسے آسکتی ہے؟ شاید اہلِ اقتدار اس ملک کو اپنا گھر نہیں سمجھتے۔ اکثریت کی جائیدادیں اور بچے باہر ہیں اور مبینہ طور پر ذاتی کاروبار کو بڑھانے کے لیے اعلیٰ حکومتی عہدوں سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم کے ترکی کے دورے کے دوران سلمان شہباز کا سرکاری میٹنگز میں بیٹھنا بے مقصد دکھائی نہیں دیتا۔ میاں نواز شریف نے مبینہ طور پر اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں اپنے بیٹے حسین نواز کے قطر اور بھارت میں کاروباری تعلقات استوار کیے تھے۔ شاید شہباز شریف صاحب بھی اپنے بڑے بھائی کی پیروی کرنے کو کامیابی سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب خود کو عوام کا خادم قرار دیتے ہیں اور اس کا اظہار بھی فخر یہ انداز میں کرتے ہیں لیکن اس دعوے کو ثابت کرنا شاید اتنا آسان نہ ہو۔ عوامی رائے کے مطابق اس وقت وزیراعظم کے عہدے کا یہ تقاضا ہے کہ وہ سلمان شہباز کی ترکی میں موجودگی پر عوام کو اعتماد میں لیں۔ سلمان شہباز اس وقت پاکستان میں عدالتوں کو مطلوب ہیں۔ کسی بھی اعلیٰ حکومتی و سیاسی شخصیت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ملکی عدالتوں کو مطلوب لوگوں سے بیرونِ ملک ملا جائے‘ کجا ان کے نجی کاروبار کو ریاستی سرپرستی میں فروغ دیا جائے۔
وزیراعظم صاحب اس حوالے سے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں‘ اس کا علم آئندہ چند روز میں ہو جائے گا لیکن شوکت ترین صاحب نے جو معاملہ اٹھایا ہے اس میں تاخیر مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ شوکت ترین صاحب نے فرمایا ہے کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ایک لٹر پٹرول پر 50 اور ڈیزل پر70 روپے کما رہی ہیں۔ عوامی سطح پر اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ شاید اس معاملے کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ان کمپنیوں کے منافع کو سرے سے ختم کر دیا جائے‘ لیکن اسے ایک مخصوص حد تک کیے جانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ان مشکلات میں ایک اچھی خبر بھی سامنے آئی ہے۔ سٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا ہے کہ پاکستان سری لنکا نہیں ہے‘ جو ڈیفالٹ کر جائے، نہ اس نے آج تک کبھی ڈیفالٹ کیاہے اور نہ مستقبل قریب میں اس کے خدشات ہیں۔ سری لنکا سے غلطی یہ ہوئی کہ اس نے وقت پر فیصلے نہیں لیے جبکہ پاکستان بروقت فیصلے لے کر معیشت کو درست سمت میںلے کر جا رہا ہے۔ڈاکٹر مرتضیٰ سید کا دعویٰ کس حد تک ٹھیک ہے‘ یہ جلد معلوم ہو جائے گا لیکن آج یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ پاکستان اور سری لنکا میں عوام پر بوجھ برابر ہے۔ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا اعلان ہو یا نہ ہو لیکن ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ عوام دیوالیہ ہو چکے ہیں۔پاکستان بھی قرض اپنی جیب سے ادا نہیں کر سکتا اور سری لنکا بھی قرض ادا نہیں کر سکتا۔حساب کتاب کی زبان میں اسے دیوالیہ ہونا ہی کہتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved