تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     18-08-2013

50 کروڑ ‘وہ بھی مولانا سے؟

وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان ‘اگلی آزمائش سے بچنا چاہتے ہیں‘ تو بلاتاخیر وزیراعظم کو مشورہ دے کر مولانا فضل الرحمن کے مطالبات پورے کرا دیں۔ ورنہ ان کا پیمانہ صبر لبریز ہونے کو ہے۔ سکندر نامی شخص نے جو راستہ دکھا دیا ہے‘ وہ اتنا آسان اور نتیجہ خیز ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے ذہن میں خیال آ گیا‘ تو کسی بھی دن ‘اچانک مولانا پارلیمنٹ کی عمارت پر چڑھ کے‘ کلاشنکوف ہوا میں لہراتے ہوئے‘ مطالبہ کر دیں گے کہ ان کے مطالبات پورے کئے جائیں‘ ورنہ وہ پارلیمنٹ کی عمارت میں جانے والی بجلی کی تاریں کاٹ دیں گے اور تب تک ان کی مرمت نہیں ہونے دیں گے‘ جب تک مطالبات تسلیم نہ کر لئے جائیں۔ مطالبات بہت سادہ سے ہیں۔ مناسب ہو گا کہ انہیں کسی امتحان میں پڑے بغیر تسلیم کر لیا جائے۔ مولانا جو کچھ مانگ رہے ہیں‘ وہ ان کے مقام اور سیاسی حیثیت کے حوالے سے پرِکاہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ صرف یہ فرماتے ہیں کہ انہیں ان کے حصے کی وزارتیں دے دی جائیں۔ کشمیر کمیٹی کی سربراہی واپس کی جائے اور اسلام نافذ کیا جائے۔ آخری مطالبہ بروزن بیت ہے اور پہلے دو مطالبے پورے کرنا حکومت کے لئے مشکل نہیں۔ وزارتیں بہت سی خالی پڑی ہیں۔ ان میں سے کوئی سی وزارت مولانا کو پیش کی جا سکتی ہے اور رہ گیا کشمیر کمیٹی کا سوال‘ تو اس کے پاس نہ کشمیر ہے‘ نہ مسئلہ کشمیر۔ محض حلوے کی ایک پلیٹ ہے۔ یہ نعمت کسی دوسرے کے لئے بیکار ہے۔ اس کی قدروقیمت کا صرف مولانا حضرات کو ہی پتہ ہوتا ہے۔ حلوہ بھی خوش اور مولانا بھی خوش۔ آپ کو یاد ہو گا کشمیر کمیٹی کی سربراہی بزرگوںاور آرام کے خواہش مندوں کا عافیت کدہ ہے‘ جہاں آرام اور سیروسیاحت کے سوا‘ دوسری کوئی مصروفیت نہیں ہوتی۔ مولانا ابھی بزرگی کے درجے تک نہیں آئے۔ علم کے اعتبار سے وہ یقینا بزرگ ہیں لیکن عمر ابھی جوانی کی ہے۔ جوانی بھی ایسی جو مزید چند برس کی مہمان ہے۔ اس کے بعد آگے دور تک بزرگی ہی بزرگی ہے۔ انہیں حفظ ماتقدم کے طور پر یہ سوچ کر کشمیر کمیٹی پیش کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں بزرگ تو آپ بن ہی جائیں گے‘ کمیٹی کی سربراہی ابھی سے قبول فرما لیجئے۔ یہ بروقت اقدام ہو گا‘ ورنہ مولانا ان دنوں غیظ و غضب کی حالت میں ہیں۔ جس لہجے میں وہ عمران خان کو مخاطب کر رہے ہیں اور انہیں بتا رہے ہیں کہ لڑائی لڑنا ہمیں آتا ہے‘ اس سے ان کے تیوروں کااندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ مخاطب وہ عمران خان کو کر رہے ہیںلیکن سنا نوازشریف کو رہے ہیں۔ اب تو سکندر حیات نے راستہ بھی بتا دیا ہے۔ مولانا نے پارلیمنٹ پہ قبضہ کر لیا‘ تو نوازشریف مصیبت میں پڑ جائیں گے۔ پارلیمنٹ کی عمارت پر قبضہ ہو گیا‘ تو جمہوریت بے گھر ہو جائے گی۔ مولانا ‘ ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان یا زمرد خان کے بس کی چیز نہیں ہیں۔ وہ مورچہ لگا بیٹھے‘ توپھر نہ کسی کی باتوں میں آئیں گے اور نہ کسی کے جھانسے میں۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت کی بے بسی دیکھ کر‘ ان کے مطالبات میں اضافہ ہوتا جائے اور مولانا وزارت عظمیٰ مانگ لیں۔ اس مطالبے کا باقاعدہ جواز موجود ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) نے زیادہ نشستیں ہونے کے باوجود‘ ایک چھوٹی پارٹی کو وزارت اعلیٰ دے دی ہے۔ اگر صوبے میں ایسا ہو سکتا ہے‘ تو وفاق میں کیوں نہیں؟ شاید میں یہ مثال دے کر غلطی کر بیٹھا۔ اگر یہ مثال مولانا کے ذہن میں سما گئی‘ تو پھر وہ نہ صرف مطالبہ کر دیں گے بلکہ اس پر ڈٹ بھی جائیں گے اور ان کے پاس بلوچستان کی مضبوط دلیل بھی موجود ہو گی۔ ایسا نہ ہو کہ نوازشریف کو وزارت عظمیٰ دے کر پارلیمنٹ کی عمارت واگزار کرانی پڑے۔ یوں بھی لگتا ہے کہ نوازشریف ان دنوں وزارت عظمیٰ سے لطف اندوز نہیں ہو رہے۔ فکرمند سے لگتے ہیں۔ ان کے چہرے پر وہ بشاشت اور آسودگی نظر نہیں آ رہی‘ جو وزارت عظمیٰ کا عہدہ حاصل کرنے کے بعد فطری طور پہ آنے لگتی ہے۔ وزیراعظم کی اصل کیفیت ہو سکتا ہے مختلف ہو‘ لیکن میڈیا یہ ثابت کرنے پر تلا ہے کہ نوازشریف خوش نظر نہیں آتے۔ اس بات کی تصدیق وزیروں کا انتخاب دیکھ کر بھی ہوتی ہے۔ جن ساتھیوں کو انہوں نے وزیر بنایا ہے اور ان کے سپرد جو وزارتیں کی ہیں‘ ان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم زیادہ خوش نہیں ہیں۔ ایسی ادھوری کابینہ‘ بوریت اور کوفت کے عالم میںبنائی جاتی ہے۔ جیسے خدا نے سردار جی کو بنایا تھا۔ وزیراعظم کے لئے مولانا کی افادیت کو ایک اور زاویئے سے بھی دیکھنا چاہیے۔ پیپلزپارٹی ابھی انتخابی نتائج کی تھکاوٹ سے باہر نہیں نکل پائی‘ جبکہ عمران خان ایک تازہ دم اور بپھری ہوئی اپوزیشن ہیں۔ ان کے ووٹوں کی تعداد اور حامیوں کے جوش و خروش کی وجہ سے‘ خان کے حوصلے کافی بڑھ گئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وہ احتجاجی تحریک منظم کرتے نظر آ رہے ہیں۔ دوسری طرف عوام بھی اس مرتبہ حکومت کو ہنی مون پیریڈ دینے کے لئے تیار نہیں۔ حکومت کو آئے ابھی 30دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ اس پر یوں تنقید شروع ہو گئی‘ جیسے وہ 2سال پرانی ہو چکی ہو۔ میں تو ابھی تک یہ کہتا ہوں کہ 100 دن تو‘ حکومت کے ہنی مون کا وقت ہوتا ہے۔ مزید چند روز انتظار کر لیں‘ اس کے بعد حکومت کو باقی سارا عرصہ تنقید سنتے اور پڑھتے ہوئے ہی گزارنا ہے۔ مگر یار لوگ میری بات ہی نہیں سنتے۔ وہ کہتے ہیں ہنی مون صرف پہلی شادی میں ہوتا ہے‘ تیسری شادی پر ہنی مون نہیں منایا جاتا۔ نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں‘ اس بار انہیں ہنی مون کی سہولت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے سب کچھ سیکھ رکھا ہے۔ دو شادیوں کے بعد تیسری شادی کر کے کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس لئے حکومت کا امتحان پہلے ہی دن سے شروع ہو جانا چاہیے۔ یوں تو وزیرخزانہ اسحق ڈاربھی کم نہیںلیکن بہرحال وہ جو کچھ بھی کریں گے‘ حکومت کا حصہ ہی کہلائیں گے۔ ان کی ابھی تک کی کارکردگی دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ حکومت سے زیادہ‘ اپوزیشن کے لئے‘ زیادہ کام کے آدمی ثابت ہوں گے۔ مہنگائی وہ بڑھاتے رہیں گے۔ احتجاج میں اپوزیشن تیزی لاتی رہے گی۔ ایک بات صاف ہے کہ عمران خان کافی سخت ‘ کڑوے اورمنہ کا ذائقہ خراب کرنے والے اپوزیشن لیڈر ثابت ہو ں گے۔ ان کا زور توڑنے کے لئے‘ مولانا فضل الرحمن بہت کارآمد ہیں۔ خوش قسمتی سے ان دنوں مولانا‘ عمران خان پر بھی سخت ناراض ہیں۔ انہوں نے خیبرپختونخوا کی حکومت میں ‘ مولانا کو تشریف رکھنے کے لئے نہیں کہا۔ یہ بات نوازشریف نے بھی ابھی تک نہیں کہی۔ اگر مولانا کو ادھر سے بھی مایوسی ہوئی تو وہ غضب ناک ہو کر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ جمہوریت کو بے گھر کرنا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ نوازشریف کو چاہیے کہ مولانا کے مطالبات پورے کر کے‘ اپنی حکومت کا مستقبل محفوظ کر لیں اور مولانا کو پوری یکسوئی کے ساتھ‘ عمران خان کی خبر لینے پر لگا دیں۔ عمران خان نے اپنی ہتک کرنے پر‘ ان سے 50کروڑ روپیہ ہرجانہ مانگ رکھا ہے۔ مجھے قانونی صورتحال کا علم نہیں۔ لیکن خیال ہے کہ اگر مولانا‘ عمران خان کو ‘ عزت کی تلافی کے لئے 50 کروڑ دے دیں‘ تو بات ختم ہو جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے لئے اس سے بہتر تحفہ کیا ہو سکتا ہے؟ اسے تو چاہیے کہ وزارتوں کے ساتھ 50کروڑ نقد بھی مولانا کے سپرد کر دیں تاکہ وہ عزت کا ہرجانہ دے کر ‘ عمران خان پر دھبہ لگا دیں۔ عمران خان نے یہ رقم وصول کر لی‘ تو ن لیگ اور مولانا دونوں مل کر طعنہ دے سکتے ہیں کہ عمران خان اپنی بے عزتی کی تلافی میں 50کروڑ وصول کر چکے ہیں۔ اب وہ ہم سے مزید کیا چاہتے ہیں؟ مسلم لیگیوں کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ مولانا خود 50کروڑ روپے نہیں دے سکتے۔ وہ ایک نہیں سینکڑوں بار 50 کروڑ دے سکتے ہیں۔ انہیں خدا کے فضل و کرم سے مال و دولت کی کوئی کمی نہیں۔ لوگوں کے لئے روپیہ ہاتھ کا میل ہے اور مولانا کے لئے‘ سر کے ایک بال کے میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن مولوی حضرات ہمیشہ اپنے نیازمندوں سے خرچ کراتے ہیں۔ یہ قصہ تو آپ نے سن ہی رکھا ہو گا کہ ایک مولوی صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ نے زندگی میں کوئی مکروہ چیز بھی کھائی ہے؟ تو انہوں نے یادداشت پر زور دیتے ہوئے جواب دیا کہ ’’ہاں! ایک مرتبہ بارش کی جھڑی بہت لمبی ہو گئی۔ راستے بند ہو گئے اور باہر سے کوئی چیز نہیں آئی۔ اس دن اپنے گھر میں پکوا کر کھانا پڑا۔‘‘ عمران خان تو مولانا کی جیب سے 50 کروڑ مانگ رہے ہیں۔ یہ کیسے مسلمان ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved