اے ماں! تو نے ہمیں کن زمانوں اور کن زمینوں پر جنم دیا۔ زمین ہو یا زمانے‘ دونوں ہی عوام کو موافق نہ آئیں‘ کہیں زمین تنگ اورکہیں زمانہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہو تو جنم سے موت تک کا سفر صدمات اور سانحات میں لتھڑی ہوئی دھتکار اور پھٹکار سے شروع ہوکر ذلت اور بے بسی سے ہوتی ہوئی تہی دستی اور تہی دامنی پر ہی ختم ہوتا ہے۔ اس خطے میں پیدا ہونے والے تو پہلا سانس لیتے ہی زندگی کی آدھی بازی ہار جاتے ہیں۔ روزِ اول سے ہلکان اور بدحال عوام نے بھی کیا نصیب پایا ہے۔ عوام کے نصیب میں کہیں مرچنٹ تو کہیں پاور گیم کے منجھے ہوئے کاریگر حکمران ہوں تو اُن کی بدنصیبی کو کون ٹال سکتا ہے۔ جس معاشرے میں ٹریفک سگنل سے لے کر قوانین اور آئین توڑنے والے خود کو ماورائے قانون اور ناقابلِ گرفت سمجھتے ہوں اور طرزِ حکمرانی ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہوتو بندہ پروری سے لے کر کنبہ پروری تک‘ بندر بانٹ سے لے کر لُوٹ مار تک‘ ساز باز سے لے خورد برد تک‘ اقربا پروری سے لے کر شکم پروری تک‘ بیانیہ سازی سے لے کر بیانیہ فروشی تک اور ذخیرہ اندوی سے لے کر چور بازاری تک‘ بدلحاظی سے لے کر بہتان تراشی تک‘ بدتہذیبی سے لے کر زبان درازی تک اور ریفارمز کے نام پر ہونے والی ڈیفامز تک کس کس کا رونا روئیں۔
ہر طرف مایوسی‘ بددلی اور بے یقینی ڈیرے جمائے بیٹھی ہے۔ کہیں حالات کا ماتم ہے تو کہیں اندیشوں اور وسوسوں کے اندھے گڑھے منہ کھولے ہیں۔ کئی بار کوشش کی کہ ان ڈیروں اور گھیروں سے بچ کر اس لیے نکل جاؤں کہ یہ کالم درد کہیں بڑھا نہ دے۔ باوجود ہزار کوشش کے‘ اس بار بھی ناکام اور بے بس ہی رہا۔ کوئی کتنا ہی ڈھیٹ اور سخت جان کیوں نہ ہو ان حالات‘ مایوسیوں اور اندیشوں سے کیسے بچ سکتا ہے؟ کوئی ریزہ ریزہ ٹوٹتا ہے تو کوئی دھڑام سے گر پڑتا ہے۔ کوئی قطرہ قطرہ مرتا ہے تو کوئی لمحہ لمحہ سسکتا ہے۔ یہ سارے عذاب ہی آگہی کے ہیں۔ آگہی سے بڑا اور بھیانک عذاب اور کیا ہو سکتا ہے؟ طبیعت بوجھل اور اس پر بلا کی اُداسی کا غلبہ ہے۔ کیفیت بیان کرنا بھی چاہوں تو نہیں کر سکتا‘ بمشکل اتنا ہی کہ بس ؎
آگہی مجھ کو کھا گئی ورنہ
میں نے جینا تھا اپنے مرنے تک
شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا عوام اپنے اپنے بت اور اپنے اپنے صنم خانے سجائے ان سیاستدانوں کی اندھی تقلید میں اس قدر مصروف ہوچکے ہیں کہ اب تو کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔ محبوب رہنمائوں کی نیت اور ارادوں سے لے کر دلوں کے بھید بھائو کھلنے کے باوجود کوئی ہوش میں آنے کو تیار نہیں۔کمال مہارت ہے کہ ان کے ہاتھ اور دامن بھی صاف ہیں اور ملکی خزانہ بھی صاف ہے۔کرپشن صرف مالی ہی نہیں ہوتی‘ انتظامی بھی ہوتی ہے۔ دونوں طرف دونوں ہاتھوں سے ہاتھ صاف کرنے والے ہوں یا لُوٹ مار اور بدعنوانیوںکی داستانوں کے مرکزی اور زندہ کردار۔ ہائی پروفائل کیسز میں نیب کی عدالتوں میں سزائوں کے منتظر رہنمائوں کے کمائو سپوت کے ہمراہ غیر ملکی دورے ہوں یا پچاس کے لگ بھگ لگژری گاڑیوں کے قافلے پر مشتمل پروٹوکول کے مزے لوٹنے والے۔ پٹرول کی قیمتوں کو لگی آگ نے عوام کی بنیادی اشیائے ضروریہ کی قوت ِخرید کو بھی بھسم کرڈالا ہے۔ نہ کسی کو شرمندگی ہے نہ احساسِ ندامت۔ ایسے میںدل سے بے اختیار یہ دعا نکلتی ہے۔
اے ربِ کائنات!
عادل بھی تو ہے
اور بلاتاخیر عدل بھی تو تجھ سے ہی منسوب ہے
تیری اس صفت کا اطلاق وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے
احتساب تو سزا اور جزا کے عمل کا نام ہے
اس عمل کو بھی انہوں نے آلودہ کرڈالا ہے
اپنی نیتوں سے‘ اپنے ارادوں سے
صاف نظر آتا ہے
یہ کیا کرسکتے ہیں
عوام کو بدحالی کے ابھی کتنے گڑھوں میں گرنا ہے؟
ذلت‘ دھتکار اور پھٹکار کے کتنے دور ابھی باقی ہیں؟
میرے مالک! یہ تو ہی بہتر جانتا ہے
ان کی نیتِ بد سے شروع ہونے والا کارِبد
کہاں ختم ہوگا...کب ختم ہوگا؟
کیا عوام کو اس طرزِ حکمرانی
اس گلے سڑے اور فرسودہ نظام سے
کبھی نجات مل بھی پائے گی؟
ضمانتوں پررہا‘ سرکاری وسائل پر موجیں مارتے حکمران
کیا ان حکمرانوں سے رہائی مل سکے گی؟
کیا یہ عوام بھی کبھی ضمانت حاصل کر پائیں گے؟
اے ربِ کعبہ!
عوام کی سیاہ بختی کو خوش بختی میں بدل دے
عوام کو ان کے چنگل سے رہائی دلوا دے
تیرے خزانے میں کیا کمی ہے؟
اس خطے میں بسنے والوں کا رونا کوئی ایک دن کا رونا نہیں‘ یہ رونا پون صدی سے جاری ہے۔ کبھی روٹی‘ کپڑا اور مکان جیسے جھانسے تو کبھی طولِ اقتدار کے لیے نظامِ مصطفی کے نفاذ کے دعوے‘ کبھی نام نہاد سوسائٹیوں کے بد ترین مالی سکینڈلز جن میں لاکھوں افراد نے نہ صرف اپنی جمع پونجی گنوائی بلکہ سفید پوشی کا بھرم بھی جاتا رہا‘ کوئی بیٹی نہ رخصت کر سکا تو کسی کا بڑھاپا رُل گیا‘ کوئی کسمپرسی کے عالم میں علاج نہ کروا سکا تو کوئی مفلسی کے ہاتھوں زندہ درگور ہو گیا۔ مختلف سکینڈلز میں لاکھوں کے کلیم کوڑیوں کے بھاؤ خریدنے والے ہماری سیاسی اشرافیہ اور حکمران ہی تھے۔ متاثرین کی دنیا اجاڑنے والے چند کردار دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں جبکہ دیگر تمام مرکزی کردار آج بھی زندہ تو ہیں لیکن شرمندہ ہرگز نہیں۔ اسی طرح لانچیں بھر بھر کر کرنسی نوٹوں کی نقل و حرکت اور بے نامی اکاؤنٹس اور جائیدادوں کے ساتھ انڈے بچے دیتی کمپنیاں اور فیکٹریاں‘ یہ سبھی عذاب اس قوم نے نہ صرف جھیلے بلکہ آج بھی کم و بیش ایسے ہی مناظر دیکھتے دیکھتے ان کی آنکھیں پتھرا چکی ہیں۔ نیب قوانین پر مفادات کی چھری چلانے والوں نے مکافاتِ عمل اور جزا و سزا کے تصور کے معنی ہی الٹا ڈالے ہیں۔ ''امپورٹڈ‘‘حکومت اور سازش کا بیانیہ بیچنے والے بھی نیب کے دھڑن تختے پر خاموش اور شاداں اس لیے ہیں کہ یہ سبھی سیاستدان مفادات کے جھنڈے تلے ہمیشہ ایک ہوجاتے ہیں۔
پون صدی کی بربادیوں اور من مانیوں کا کہیں تو اختتام ہونا چاہیے۔ ہوسِ اقتدار کے ماروں کے منہ کو عوام کی آسوں کا خون لگ چکا ہے۔ ان کے بیانیوں‘ بھاشنوں‘ دعووں اور وعدوں کے پیچھے ایک ہی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ آدم بو‘ آدم بو۔ مخصوص خاندان نجانے کتنی نسلوں کو اپنے شوقِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھا کر یہ شوق اپنی اگلی نسل کو منتقل کر جائیں گے اور عوام کی بوٹیاں اسی طرح نوچی جاتی رہیں گے اور وہ اپنے محبوب رہنمائوں کی پرستش اور طواف بھی برابر کرتے رہیں گے۔ آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے‘ قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں جیسے دلفریب نعرے لگا کر خود فریبی کے ساتھ ساتھ اپنی بربادیوں کی داستانیں رقم کرتے رہیں گے۔
عوام الناس کے لیے قیمتی مشورہ ہے کہ مزید تجربات اور دھوکوں کا شکار ہونے کے بجائے اس سیاسی اکھاڑے میں خود اتر جانا چاہئے۔ جس دن عوام اکھاڑے میں اتر آئے سارے درشنی پہلوان اپنے لنگوٹ سنبھالتے‘ سرپٹ بھاگتے نظر آئیں گے۔ اپنے اس مقدمے میں عوام کو خود مدعی اور گواہ بننا پڑے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved