پاکستان میں صرف 20فیصد لوگ پٹرول
ڈیزل استعمال کرتے ہیں: کائرہ
وفاقی وزیر امورِ کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''پاکستان میں صرف 20فیصد لوگ پٹرول‘ ڈیزل استعمال کرتے ہیں‘‘ اور 80فیصد لوگ یعنی بہت بڑی اکثریت اس کی مہنگائی سے متاثر نہیں ہوتی اور بالکل بے نیاز ہے اور یہ باعثِ غنیمت ہے کہ عوام کی اتنی بڑی اکثریت آرام اور سکون سے ہے جو حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے اور جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے‘ کم ہے کیونکہ جمہوریت میں اکثریت ہی کے جذبات کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اقلیت چونکہ خود اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی ہے اور مہنگائی وغیرہ سے مکمل طور پر بے نیاز رہتی ہے اور اسی لیے حکومت بھی ان سے بے نیاز اور بے فکر رہتی ہے۔ آپ اگلے روز لالہ موسیٰ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عوام کو جلد بڑا ریلیف دیں گے: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''عوام کو جلد بڑا ریلیف دیں گے‘‘ حالانکہ میری غیرموجودگی سے بڑا ریلیف عوام کے لیے اور کیا ہو سکتا ہے، اس لیے ان کے لیے بہتر تو یہی ہے کہ اسی پر گزارا کرنے کی کوشش کریں کہ ویسے بھی جنہوں نے عوام کو ریلیف دیا تھا‘ اب انہیں اپنی پڑی ہوئی ہے اور وہ صحیح وقت پر غلط فیصلہ کرنے کے انجام سے دوچار ہیں حالانکہ وہ اگر مجھ سے مشورہ کرتے تو غلط وقت پر صحیح فیصلہ کرنے میں بھی کامیاب ہو سکتے تھے حالانکہ میں نے تو انہیں کہا بھی تھا کہ جس مشین کا پتا نہ ہو اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہیے، اب اس کے علاوہ میں اور کیا کر سکتا تھا؟ آپ اگلے روز اپنے لندن آفس میں مختلف لوگوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکمران غریب مکاؤ پالیسی پر
عمل پیرا ہیں: مفتی نعیم جاوید
جمعیت علمائے پاکستان لاہور کے صدر علامہ مفتی نعیم جاوید نوری نے کہا ہے کہ ''حکمران غریب مکاؤ پالیسی پر عمل پیرا ہیں‘‘ لیکن وہ اس میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکیں گے کیونکہ ان کی اکثریت میں اپنے آپ ہی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے‘ خاص طور پر بیروزگار لوگوں کے پاس تو اور کوئی کام ہی نہیں ہوتا اس لیے اسے ایک خودکار عمل کے علاوہ اور کوئی نام دیا ہی نہیں جا سکتا اور یہ لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دینے ہی میں مصروف رہتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اتنا ہی وقت بچتا ہے اور جو تھوڑا بہت مزید وقت بچتا ہے وہ نوزائیدہ کا نام تجویز کرنے میںگزر جاتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
٭... ایک نوجوان کو جب پولیس نے تیسری بار عدالت میں چوری کے الزام پر پیش کیا تو اس کے ساتھ اس کا والد بھی تھا۔ عدالت نے دریافت کیا کہ یہ کون ہے؟ جس پر بتایا گیا کہ یہ ملزم کا باپ ہے۔ عدالت نے اس سے کہا کہ تم اپنے بیٹے کو سمجھاتے کیوں نہیں تو وہ بولا: ''جناب میں تو اس کو بہت سمجھاتا ہوں لیکن یہ کم بخت پھر پکڑا جاتا ہے‘‘۔
٭... ایک رات ایک چور واردات کے لیے اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لے گیا کہ اسے بھی اس ہُنر سے کچھ واقفیت ہو جائے۔ وہ ایک اندھیرے کمرے میں اِدھر اُدھر ٹٹول رہے تھے جہاں مالک مکان بھی سویا ہوا تھا کہ اچانک چور کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا جس کی آواز پر مالک مکان کی آنکھ کھل گئی اور وہ بولا: کون ہے؟ جس پر چور نے میاؤں کہہ کر بلی کی آواز نکالی جس کے بعد مالک مکان پھر سو گیا۔ اتنے میں چور کے لڑکے کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا جس کی آواز سُن کر مالک مکان کی آنکھ پھر کھل گئی اور وہ بولا: کون ہے؟ تو لڑکا بولا: دوسری بلی!
٭... ایک چور واردات کے لیے ایک سردار کے گھرمیں جا گھسا جہاں اتفاق سے سردار جی جاگ رہے تھے۔ انہوں نے چور کو قابو کرلیا اور تھانے کی طرف لے چلے۔ درمیان میں پہنچ کرچور بولا، سردار جی آپ کے گھر میں میرا جوتا رہ گیا ہے، اگر کہیں تو جا کر لے آؤں؟ سردار جی نے کہا: جاؤ بھاگ کر لے آؤ! کچھ دنوں بعد وہی چور دوبارہ سردار جی کے گھر پھر گھسا تو وہ پھر جاگ رہے تھے۔ انہوں نے چور کو دوبارہ قابو کیا اور تھانے کی طرف لے کر چلے تو درمیان میں پہنچتے پھر چور بولا، سردار جی آپ کے گھر میں میری جرابیں رہ گئی ہیں، اگر اجازت دیں تو بھاگ کر لے آؤں؟ جس پر سردار جی بولے: تم ایک جھوٹے اور دغا باز آدمی ہو‘ مجھے پتاہے اُس دن کی طرح تم واپس نہیں آؤ گے، اس لیے تم یہیں ٹھہرو، میں خود جا کر لے آتا ہوں!
اور‘ اب آخر میں پشاور سے ڈاکٹر محمد اسحق وردگ کی یہ غزل:
اب کسی جیت کا امکان نہیں ہے مجھ میں
یعنی زندہ کوئی ارمان نہیں ہے مجھ میں
میں نے اک عمر گزاری ہے یہاں لڑتے ہوئے
جنگ اتنی بھی تو آسان نہیں ہے مجھ میں
ایک ہستی بھی خسارے میں چلی جائے گی
صرف میرا ہی تو نقصان نہیں ہے مجھ میں
اک تماشا ہے مری ذات میں آوازوں کا
اپنے ہونے کا ہی اعلان نہیں ہے مجھ میں
اب خرابے کے کئی خوف بھرے ہیں دل میں
اب تری یاد کا سامان نہیں ہے مجھ میں
شور اتنا ہے کہ خاموش پڑا ہوں خود میں
آسمانوں کی طرف دھیان نہیں ہے مجھ میں
خواب اور خوف نے محصور کیا ہے ایسے
بازیابی کا کچھ امکان نہیں ہے مجھ میں
اپنے ہونے کا بھی احساس نہیں رکھتا میں
کوئی اس بات پر حیران نہیں ہے مجھ میں
آج کا مطلع
بے وفائی کرکے نکلوں یا وفا کر جاؤں گا
شہر کو ہر ذائقے سے آشنا کر جاؤں گا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved