تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     06-06-2022

پی ٹی آئی کا لانگ مارچ اور آ ئرن لیڈیز

ڈاکٹریاسمین راشد نے بطورِ وزیرِصحت پنجاب جس طرح کینسر جیسی موذی بیماری سے لڑتے ہوئے‘ کورونا کا مقابلہ کیا‘ اس پر پوری قوم ان کی شکر گزار ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کی کار کردگی کیسی رہی‘ اس پر کچھ تحفظات ہوسکتے ہیںلیکن جس طرح عمران خان کے بغض میں تمام حدیں پار کرنے والے افراد کے ایما پر وحشیانہ سلوک اور تشدد کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا اور پھر چند گھنٹے زیر حراست رکھنے کے بعد چھوڑا گیا‘ اس سے ان کا ایک نیا امیج ابھر کر سامنے آیا ہے۔ لانگ مارچ کے لیے وہ لاہور سے روانہ ہوئیں تو قدم بقدم راوی کے پل کی جانب بڑھتے ہوئے پولیس اور نقاب اوڑھے کچھ نہ معلوم افراد نے ان پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی۔ ان کی گاڑی پر ڈنڈوں کی برسات کی گئی اور سارے شیشے توڑ دیے گئے، ان کے ڈرائیور کو گھسیٹ کر گاڑی سے باہر نکالا گیا جس کے بعد ڈرائیونگ سیٹ انہوں نے خود سنبھال لی اور پھر وہ جس طرح ساری رکاوٹیں عبور کرنے کے بعد اسلام آباد پہنچیں‘ یہ ان کی ہی ہمت تھی۔ ڈاکٹر یاسمین راشد پر ڈھائے جانے والے شرمناک مظالم کی وڈیوز لاہور کے ایک کنٹرول روم میں بیٹھے افراد قہقہے لگاتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ سر شرم سے جھکا دینے والا منظر وہ تھا جب ان کی گاڑی پر پولیس اپنے ساتھ ملائے ہوئے عنا صر کے ساتھ مل کر لاٹھیاں برسارہی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ناقابلِ معافی جرم ہے جو کبھی دفن نہیں ہو گا بلکہ کبھی نہ کبھی‘ زندہ ہو کر سامنے ضرور آئے گا اور اگر عمران خان اس کو بھول گئے تو پھر یہ قوم بھی اسے بھول جائے گی۔ جب بھی زمامِ کار انصاف پسندوں کے ہاتھ میں آئی‘ اس آپریشن میں شامل تمام افراد کو احتساب اور قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے ضرور پوچھا جائے گا کہ وہ کون لوگ تھے جن سے تم نے شہریوں کی املاک تباہ کروائیں؟وہ نقاب پوش کون تھے جو لوگوں کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو تباہ و برباد کر رہے تھے۔ جب تم سب یہ ہوتا دیکھ رہے تھے تو تم نے کیسے اس کی اجا زت دی ؟ آج تو معاملات ان کے ہاتھ میں ہو سکتے ہیں لیکن کل کو جب سویرا ہو گا اور یہ کالی رات ڈھلے گی تو ان سے بھی پوچھا جائے گا جو یہ سب براہ راست دیکھ رہے تھے۔
2013ء سے 2018ء تک میاں شہباز شریف کے سکیورٹی آفیسر ر ہنے والے ایک صاحب نے ایک انٹرویو میں انتظامیہ کی پھینکی گئی آنسو گیس کے متعلق حیران کن انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ یہ گیس دہشت گردوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکالنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے‘ لیکن افسوس کہ اسے اپنے ہی ملک کے شہریوں‘ چھوٹے بچوں‘ بزرگوں اور خواتین کے خلاف استعمال کیا گیا۔ پی ڈی ایم سرکار کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ مظاہرین کے خلاف استعمال کی جانے والی آنسو گیس زائد المیعاد یعنی ایکسپائر تھی۔ اس کے صحت پر ہونے والے اثرات تو طبی ماہرین ہی بہتر بتا سکتے ہیں مگر یہ سنا جارہاہے کہ اسلام آباد کے ہسپتالوں اور کلینکس میں حالیہ دنوں میں سانس اور پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا افراد کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔
پی ٹی آئی قیادت نے ڈاکٹر یاسمین راشد کی ہمت اور جرأت کاا عتراف کرتے ہوئے انہیں سینٹرل پنجاب کی صدارت کا عہدہ دیتے ہوئے نئی پارٹی ذمہ داریاں سونپ دی ہیں‘ یقینا وہ اس کی مستحق بھی ہیں لیکن اگر سیاسی اور انتخابی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو مجھے یہ فیصلہ زیادہ بہتر محسوس نہیں ہوتا۔ یہ عہدہ کینسر جیسے موذی مرض سے صحت یاب ہونے والی اور 70 سالہ خاتون کو نہیں دیا جانا چاہیے تھا۔ اگرچہ ڈاکٹر یاسمین راشد کی قابلیت اور فعالیت میں کوئی شک نہیں لیکن یہ عہدہ انہیں سونپنا‘ انہیں سخت ترین مقابلے کے امتحان ڈالنے کے مترادف ہے۔ دیکھیں وہ کس طرح اس امتحان میں پورا اترتی ہیں۔ ان کے ساتھ حماد اظہر جیسے نڈر اور باصلاحیت نوجوان کا بطور سیکرٹری جنرل تعین ہونا سینٹرل پنجاب کی پارٹی باڈی کی ہمت بندھانے کیلئے کافی ہو گا۔ میاں اظہر جیسے نفیس سیاستدان کا بیٹاعمران خان کابینہ کا اہم رکن رہا ہے۔ یقینا وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے اور پی ٹی آئی کا سیاسی منشور عوام تک پہنچائیں گے۔
25 مئی کو لانگ مارچ میں جو ظلم و جبر دیکھنے کو ملا‘ وہ کسی بھی معاشرے کیلئے منا سب نہیں۔ اگر کسی کو اس پر ملال اور ندامت نہیں تو یہ پورے معاشرے کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ ظلم و جبر کے خلاف بلند آہنگ سے آواز بلند کرنا ہی زندہ معاشروں کی پہچان ہوتی ہے۔ لانگ مارچ کے حوالے سے اب جو وڈیوز سامنے آ رہی ہیں وہ بہت تشویش ناک ہیں۔ خواتین کے موبائل اور پرس تک چھینے گئے بلکہ کئی خواتین کے موبائل اور پرس وغیرہ ان کی گاڑیوں سے زبردستی نکال لیے گئے جن کی تعداد اب چار درجن سے زیا دہ بتائی جا رہی ہے۔ جن خواتین سے پرس اور موبائل چھینے گئے ان میں سے اکثر ایسی ہیں جن کا جماعتی طور پر تحریک انصاف میں کوئی عہدہ بھی نہیں لیکن جس طرح وہ اسلام آباد میں ڈی چوک اور پنڈی میں فیض آباد چوک سے آگے بڑھتے ہوئے خوفناک آنسو گیس کا مقابلہ کرتی رہیں‘ وہ منظر تحریک پاکستان کی یاد تازہ کر گیا جب خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ انگریز سرکار کے ہر ہتھکنڈے کے آگے ڈٹ کر کھڑی تھیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد اور عندلیب عباس کی ثابت قدمی اور رکن پنجاب اسمبلی بیگم صادقہ صاحب داد‘جو کسی سہارے کے بغیر چل بھی نہیں سکتیں‘ کا وہیل چیئر پر اسلام آباد میں آنسو گیس کی بارش اور تشدد کا مقابلہ کرنا پی ٹی آئی کو سرخرو کر گیا۔ ڈاکٹر مصباح ظفر اور اوکاڑہ سے خواتین ونگ کی شازیہ احمد نوازکا ساری رکاوٹیں عبور کر کے دھکے سہتے ہوئے اسلام آباد پہنچ جانانا قابلِ فراموش ہے۔ ان خواتین نے جس طرح آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا مقابلہ کیا‘ اس سے خواتین کے بارے میں یہ تصور ختم ہو جاتا ہے کہ وہ آنسو گیس کے گولے اور پولیس کی لاٹھیاں دیکھ کر ہی بھاگ جاتی ہیں۔ کس کس کی مثال دیں‘ نجانے کتنی آئرن لیڈیز تھیں جو پچیس مئی کو رات گئے اسلام آباد کی سڑکوں پر آنسو گیس کے زہریلے دھویں کا مقابلہ کر رہی تھیں بلکہ دوسری خواتین اور بچوں کو بھی اس ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے سنبھالا دے رہی تھیں۔ جس قوم کی بیٹیوں اور مائوں میں اس طرح کا جذبہ پیدا ہو جائے‘ اس قوم کی قسمت سے کوئی وقتی طو رپر تو کھیل سکتا ہے لیکن زیا دہ دیر تک اس پر اپنا تسلط نہیں رکھ سکتا۔
25 مئی کے لانگ مارچ میں وکلا کے ساتھ کیا جانے والا سلوک بھی وحشیانہ تھا لیکن جس طرح اس کو نظر انداز کیا گیاوہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ وکلا کے ساتھ ساتھ اسلام آباد اور خیبر پختونخوا کے لوگوں نے بھی اسلام آباد میں پورے دل و جان سے حکومتی جبر کا مقابلہ کیا۔ تحریک انصاف پنجاب کے تنظیمی ڈھانچے سے تعلق رکھنے والے مخلص اور پُرجوش کارکن ہی تحریک انصاف کا اصل اثاثہ ہیں۔ ان کارکنوں کی ہمت نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وقت آنے پر پارٹی کے نظریاتی اور مخلص کارکن ہی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ چند ہزار کارکنوں نے اپنی جانب سے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ لاہور سے باہر نکل سکیں لیکن جس طرح جبر و تشدد سے انہیں روکا گیا‘ اس سے سب لوگ منتشر ہو گئے۔ اگرچہ لوگ بعد میں بھی اکٹھے ہوتے رہے مگر جس طرح راوی کے علاقے کو سیل کیا گیا‘کارکنان اس میں محصور ہو کر رہ گئے۔ پچیس مئی ہی کو پی ٹی آئی کے ایک کارکن کو راوی پل سے نیچے پھینکا گیا۔ اگر کسی میں سچ سننے اور پرکھنے کی ہمت ہے تو تسلیم کر لیجئے کہ اس دن تمام جبر اور ظلم و ستم کے ہتھکنڈوں کے باوجود لوگوں کو گھروں سے نکلنے اور اسلام آباد کی طرف مارچ سے نہیں روکا جا سکا۔ جن لوگوں نے یہ منا ظر اس دن براہ راست دیکھے اور جو اب وڈیوز کی شکل میں سامنے آ رہے ہیں‘ ان کو دیکھ کر انسانیت شرمندہ ہو کر رہ گئی ہے۔ ہیومن رائٹس تنظیموں کی خاموشی اس کے پیچھے کارفرما رجیم چینج کی انٹر نیشنل سازش کو پوری طرح بے نقاب کر رہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved