جیسے جیسے گرمی بڑھی‘ سیاسی سرگرمیاں ایک نقطۂ ابال تک پہنچنے کے بعد ٹھنڈی ہونے لگیں۔ جیسے دودھ ابلنے کی حد تک پہنچ کر جب کناروں سے چھلکنے کے قریب ہو تو چولہا بند کردیا جائے‘ دودھ چھلکا کیوں نہیں اور چولہا کس ہاتھ نے بند کیا؟ اس پر مسلسل قیاس آرائیاں جاری ہیں جو قیاس آرائیوں سے بڑھ کر یقین کے درجے میں ہیں لیکن یہ طے ہے کہ نقطۂ اُبال تحریک انصاف کا لانگ مارچ تھا جو پچھلے لانگ مارچ سے بھی زیادہ بے نتیجہ رہا۔ یہ حرف کار بھی پہلے سے لکھ رہا تھا اور دیگر ہم نظر بھی یہی بات کہہ رہے تھے کہ پی ٹی آئی کو جلدی نہیں کرنی چاہیے لیکن یہ جلدی اس نے کی‘ جس کے نتائج اسی کے خلاف گئے۔ نہ لوگ اس طرح ساتھ نکلے، نہ عدالتی فیصلہ اس کے حق میں آیا نہ امپائر نے ساتھ دیا۔ ایک بے حاصل لانگ مارچ چند بے گناہوں کی لاشیں اور ان کے گھروں میں آہ و بکا چھوڑ کر جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ ایک بہت بڑی وجہ وزیر داخلہ کا طرزِ عمل تھا۔ 2014میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان تھے‘ جو کالج کے زمانے سے عمران خان کے ساتھی بھی رہے اور ان کے پی ٹی آئی میں شامل ہونے کی افواہیں بھی گرم رہیں۔ بہرحال چوہدری نثار کو اپنے ساتھی کا پاس تھا اور انہوں نے وہ سختی نہیں برتی جس سے لانگ مارچ بہت متاثر ہوجائے۔ کچھ قوتوں کی وجہ سے وہ اس پر مجبور بھی تھے۔ رانا ثنا اللہ بالکل الگ مزاج کے وزیر داخلہ ہیں۔ انہوں نے لانگ مارچ کا سر شروع ہی میں دبوچ لیا۔گرفتاریاں، رکاوٹیں، شیلنگ، رینجرز اور فوج کی طلبی‘ سب حربے استعمال کیے۔ گرمی بلکہ قیامت کی گرمی ایک اور فیصلہ کن عنصر تھا۔ 2014ء کا لانگ مارچ ٹھنڈے موسم کے سائبان میں تھا۔ مئی کی سخت گرمی اور لمبے دنوں میں یہ برداشت مشکل تھی۔ پھر بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں نے صبر اور استقامت کی اچھی مثالیں قائم کیں۔ لیکن مسئلہ کارکنوں سے زیادہ رہنماؤں کا تھا۔ شفقت محمود، اعجاز چوہدری سمیت کئی رہنماؤں پر انگلیاں اٹھتی رہیں کہ انہوں نے از خود گرفتاریاں پیش کر دیں تاکہ اگلے مسائل سے بچا جا سکے۔ فواد چوہدری سمیت پنجاب کے رہنما قابلِ ذکر لوگ اپنے ساتھ نہ نکال سکے۔ شفقت محمود پنجاب کی صدارت سے فارغ ہو چکے ہیں، اس کی وجہ بظاہر صحت کے مسائل بتائے گئے ہیں‘ لیکن شاید عمران خان کی ناراضی اس کا اصل سبب ہے۔ شیخ رشید تو کہیں نظر ہی نہیں آئے‘ بلکہ رانا ثنا اللہ نے طنزیہ کہا بھی کہ ہم شیخ رشید کی تلاش میں تھے مگر وہ کہیں نظر آتے تب نا۔ شیخ صاحب کا چہرہ دھواں دار بیانات سے آگے کہیں نظر نہیں آیا۔ اس سب کا آخری نتیجہ یہ کہ‘ نتیجہ کچھ نہیں۔ اب تمام تر بیانات کا محور یہ ہے کہ عمران خان کو گرفتار کیا گیا تویہ ہوگا‘ وہ ہوگا۔
عمران خان نے جو مزید چھ دن کی مہلت دی تھی، اسے ختم ہوئے بھی کئی دن گزر چکے ہیں۔ بظاہر وہ معاملہ بھی اب ختم ہوا اور حکومت نے سکھ کا سانس لیا۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا بہتر موقع یہی جانا اور سب اتحادی مل کر وہ سب کرگزرے جو ویسے ہونے میں ایک قیامت اٹھ کھڑی ہوتی۔ لوگوں پر جو قیامت گزرنی ہے وہ تو گزر کر رہے گی۔ اب تو لوگ یہ اپنی قسمت سمجھ کر صابر اور شاکر ہونے کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔ جیسے کسی کو کوئی روگ لگ جائے تو وہ اس کے ساتھ بھی جینا سیکھ ہی لیتا ہے۔ ابھی مہنگائی کی جس نئی لہر کا آغاز ہوا ہے‘ اس کی ذمہ داری حکومت اپنے سر سے اٹھا کر آئی ایم ایف اور عمران خان پر ڈال رہی ہے۔گویا تین بار کی مرکزی حکومت میں مسلم لیگ (ن) جتنی بار آئی ایم ایف سے معاہدے کرتی رہی اور ان کے نتیجے میں جو گرانی پیدا ہوئی، وہ سب ردی میںڈال دیا جائے۔ اور نتائج پونے چار سالہ حکومت کے ذمے ڈال کر سبک دوش ہوجائیں۔ اس پر مزید تکلیف یہ کہ اب ساری توجہ اور دعا اس طرف ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کی قسط مل جائے۔ جو اصل محور ہونا چاہیے کہ قرض اور آئی ایم ایف کے طوق سے جان چھوٹ جائے، اس کا عزم اور ارادہ کسی حکومت میں نظر نہیں آتا۔ عمران خان نے اپنے دورِ حکومت میں چور‘ ڈاکو کی گردان جاری رکھی اور موجودہ حکومت‘ توشہ خانہ‘ فرنٹ مین اور ہیلی کاپٹر کی تکرار جاری رکھے ہوئے ہے۔ لوگوں کے کان یہ سب سن سن کر پک گئے ہیں کہ پچھلی حکومت نااہل تھی اور بدعنوان بھی۔ ہر دورِ حکومت میں یہ سنتے سنتے جوان ہوئے اور یہی سنتے سنتے بوڑھے ہوگئے۔ جھوٹ اور سچ میں تفریق جتنی اس دور میں مشکل ہے، شاید کبھی نہیں تھی۔
اس وقت جب شاہد خاقان عباسی اکتوبر 2023میں انتخابات کی خوش خبری سنا رہے ہیں‘ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے لیے یکسو ہوچکی ہے۔ ایسے میں حکومت کے چند عملی اقدامات بہرحال خوش آئند ہیں۔ شہباز شریف صاحب نے بڑے سرکاری افسروں کے مفت پٹرول کا کوٹہ بھی کم کیا ہے اور کابینہ کا بھی۔ یہ 40فیصد سے مزید کم ہونا بہتر تھا۔ بیرون ملک دوروں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے اور مزید بچت کی تجاویز‘ جیسے ہفتے کی چھٹی‘ دفتروں کا دورانیہ بڑھانا‘ بھی عمل میں لائی گئی ہیں۔ مارکیٹوں کو جلد بند کرنے کا فیصلہ مشاورت سے کیا جانا طے ہوا ہے۔ دن کی روشنی کو مزید استعمال کرکے اوقات کار کی تبدیلی بھی زیر غور ہے۔ صوبائی حکومتوں نے بھی مفت پٹرول کے کوٹے میں کمی کا اعلان کیا ہے جو اچھی خبر ہے۔
گوادر کو جس طرح پی ٹی آئی حکومت نے نظر انداز کیا‘ وہ نظر آرہا تھا۔ بڑے پروجیکٹس یا تو رُک گئے یا نہایت سست ہوگئے۔ جن بحری جہازوں کی آمد و رفت کی خوش خبریاں دی جاتی رہی تھیں‘ ان میں سے کسی کی خبر نہ مل سکی۔ نتیجہ یہ کہ گوادر میں نجی سرمایہ کاری بھی رک گئی اور زمینوں کی قیمت ان پونے چار سال میں نصف سے بھی کم رہ گئی۔ اب وزیراعظم کے دورے کے بعد شاید پھر کوئی حرکت پیدا ہو اور گوادر اپنا مقام حاصل کرنے کی طرف بڑھے۔ احسن اقبال صاحب نے خوش خبری سنائی ہے کہ ایم ایل ون‘ جو پشاور تا کراچی ریلوے لائن کا بڑا منصوبہ ہے، ایک سال کے اندر آپریشنل ہوجائے گا۔ بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر جلد کام شروع ہو جائے گا۔ ہوتا ہے یا نہیں‘ یہ الگ سوال ہے لیکن مایوسی کے اس دور میں یہ اعلان بھی غنیمت لگ رہا ہے۔
میں نے شروع میں نقطۂ ابال کی بات کی تھی۔ تمام مائع ایک درجۂ حرارت پر نہیں ابلتے۔ نقطۂ ابال ہر ایک کا اپنا اپنا ہے۔ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ حکومت‘ اپوزیشن‘ عوام اور مقتدرہ کا بھی اپنا اپنا درجۂ ابال ہے۔ عمران خان کے جو بیانات پچھلے دنوں میں سامنے آئے ہیں وہ غیرمحتاط بھی ہیں اور غیرموزوں بھی۔ معلوم نہیں انہیں کیا شوق ہے کہ وہ اپنے مخالفوں کے لیے ہتھیار فراہم کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ مقتدرہ کے نقطۂ ابال کا ہے۔ عمران خان کو کوئی سمجھائے کہ یہ بگاڑ ان کے اور پی ٹی آئی کے لیے بالکل مناسب نہیں ہے۔ کوئی انہیں سمجھائے کہ وہ نقطۂ ابال سے پہلے چولہا بند کردیں۔ دودھ چھلک گیا تو بعد میں آگ ٹھنڈی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved