ہر دو‘ چار سال بعد ملک میں کچھ بحران دوبارہ سر اٹھا لیتے ہیں۔ کبھی بجلی کا بحران‘ کبھی گندم کا بحران تو کبھی امن و امان کا مسئلہ۔ ہر حکومت ان کے حل کے دعوے کرتی ہے‘ اپنی سی کوشش بھی کرتی ہے لیکن یہ بحران مستقل طور پر ختم نہیں ہو پاتے۔ آپ بجلی کو ہی لے لیجئے۔ بجلی کا بحران 2018ء میں ختم ہو چکا تھا اور حکومت نے بجلی کے کافی نئے منصوبے لگائے جس کی وجہ سے بجلی کی رسد اور طلب برابر ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوئی لیکن اب موجودہ پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف نے جاتے جاتے تیل کی قیمتوں کو منجمد کرنے جیسی کچھ ایسی بارودی سرنگیں بچھائیں جن کی وجہ سے آج ایک مرتبہ پھر لوڈشیڈنگ شرو ع ہو گئی۔ اس کے مزید کئی فیکٹرز ہو سکتے ہیں جن میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ سب سے اہم ہے۔ ماضی قریب میں بجلی بنانے کے لیے ہائیڈل کے بجائے تیل کے پاور پلانٹس لگانے کو ترجیح دی گئی جس کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔لوڈشیڈنگ ایسے ایسے علاقوں اور سوسائٹیوں میں ہونے لگی ہے جہاں کبھی بھی بجلی نہیں گئی اور جو لوڈشیڈنگ فری علاقے مانے جاتے تھے۔اب ان علاقوں میں لوڈشیڈنگ کی وجہ تیل کا مہنگا ہونا ہے۔ اگر یہ علاقے بجلی کے یونٹ کے نرخ بڑھاتے ہیں تو ان کے پاور پلانٹس تو چل پڑیں گے لیکن پھر وہاں کے رہائشی چیخیں ماریں گے کہ بجلی کی قیمتیں کیوں بڑھا دی ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ کوئی اپنے پاس سے یا نقصان برداشت کر کے تو سستی بجلی نہیں دے گا۔ یہی کچھ اس وقت پورے ملک میں ہو رہا ہے۔ حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ بھی چلنا ہے۔ کاروبارِ زندگی چلانے اور پرانے قرضے اتارنے کے لیے نئے قرضے بھی چاہئیں۔پھر آئی ایم ایف کی شرائط کو بھی پورا کرنا ہوتا ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو قرض کی قسطیں روک لی جاتی ہیں۔ مختصراً ہم ایک ایسے بھنور میں پھنس گئے ہیں جس میں گھومتے گھومتے ہماری زندگیاں ختم ہو گئی ہیں لیکن یہ گھن چکر ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ شاید کچھ حکومتیں بحرانوں کو مکمل طور پر ختم ہی نہیں کرنا چاہتیں اور بحرانوں کو زندہ رکھنے میں ہی ان کی زندگی ہے۔بحران ختم ہو گئے تو پھر یہ ووٹ کس لیے مانگیں گی؟ بجلی ایک مستقل اور بنیادی ضرورت ہے‘ اس لیے اس کا حل بھی مستقل بنیادوں پر نکالنا چاہیے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ملکی آبادی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہم ملکی آبادی بائیس کروڑ بتاتے ہیں لیکن کچھ ماہرین اصل آبادی ستائیس سے اٹھائیس کروڑتک بتاتے ہیں۔ جب کسی ملک کے پاس اس کے عوام کی درست تعداد ہی نہیں ہو گی تو کیسے ان کے لیے منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے؟جیسے ایک گھر میں چار بچے ‘ ان کے والدین اور ساتھ میں کوئی بزرگ مثلاً دادا‘ دادی بھی رہتے ہوں تو اس گھر کا خرچ اسی حساب سے بنایا اور چلایا جاتا ہے اسی طرح جب کسی ملک کی آبادی معلوم ہو اور آبادی میں اضافے کی شرح اور وسائل کے تناسب کا علم ہو تو ہی اس ملک کے تمام مسائل درست سمت اور بروقت منصوبہ بندی کے ساتھ حل کیے جا سکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بتایا گیا کہ اس وقت ملک میں بجلی کی کل پیداوار پچیس ہزارمیگا واٹ اور پیداوار اکیس ہزار میگا واٹ ہے۔ یہ چار ہزار کا شارٹ فال ملک میں چار گھنٹے یا کہیں کہیں اس سے زیادہ لوڈشیڈنگ کرنے کا باعث بن رہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ کی پلاننگ کیسے کی جاتی ہے۔ کیا بجلی کی پیداوار کا ہمارا ٹارگٹ پچیس ہزار میگا واٹ ہونا چاہیے یا اس سے زیادہ! کیونکہ جب تک ہم پچیس ہزار میگا واٹ کا ٹارگٹ حاصل کریں گے تب تک بجلی کی طلب میں مزید چار‘ پانچ ہزار میگا واٹ کا اضافہ ہو چکا ہو گا اور ہم پھر سے لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنے پر مجبور ہوں گے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ موجودہ حکومت کم از کم پچیس سال کی منصوبہ بندی کرے اور جو بھی پلان بنایا جائے اس میں اتنا مارجن رکھا جائے کہ توانائی کا یہ بحران اگلی ایک‘ دو دہائیوں تک دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔موجودہ حکومت کا ایک اچھا کام شمسی توانائی کے پینلز کی درآمد پر ٹیکس یا ڈیوٹی کا خاتمہ ہے۔ اس اقدام سے صرف امیر ہی نہیں بلکہ غریب اور دوردراز اور پہاڑی علاقوں تک کے افراد کو فائدہ ہو گا۔ شمسی توانائی کی لاگت کم ہو گی تو زیادہ سے زیادہ لوگ اس جانب راغب ہوں گے۔پھر حکومت کو نیٹ میٹرنگ کو زیادہ سے زیادہ علاقوں تک عام کرنے اور اس کی منظوری کے عمل کو آسان اور جلد بنانے کے لیے بھی پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی۔ نیٹ میٹرنگ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے گھر پر لگے سولرپینلز سے بننے والی اضافی بجلی واپڈا کو فروخت کر سکتے ہیں۔ سولر پینلز ایک مرتبہ لگوا لیے جائیں تو پچیس سال تک کام دیتے ہیں اور اگر بجلی کے بلوں کی بات کی جائے تو سولر پینل سسٹم کی لاگت تین سے پانچ سال میں کور ہو جاتی ہے اور اس کے بعد آپ نہ صرف اگلے بیس برس تک لگ بھگ مفت بجلی مسلسل حاصل کرتے رہتے ہیں بلکہ یہ حکومت کو فروخت کر کے آمدن بھی کما سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک جہاں روز سورج نکلتا ہے اور زیادہ دیر تک آسمان پر جگمگاتا رہتا ہے‘ سولر توانائی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس نعمت پر شکر بجا لاتے ہوئے اس کے استعمال کی طرف آنا چاہیے لیکن ہم قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کو خاطر میں نہیں لا رہے اور یہی ہمارے بحرانوں کی اصل وجہ ہے۔
توانائی کا بحران ڈنمارک میں بھی پیدا ہوا تھا جب 1973ء میں تیل پر پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن آج وہی ڈنمارک ہوا سے بجلی پیدا کرنے والا ورلڈ لیڈر بن چکا ہے۔ یہ بیس فیصد بجلی صرف پون یا ہوائی چکی سے پیدا کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش‘ جہاں کا موسم مرطوب ہے اور جہاں آج تک سب سے زیادہ درجہ حرارت 45ریکارڈ کیا گیا ہے‘ جو ہمارے ہاں پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں میں گرمیوں کا معمول ہے، لیکن وہ اس سورج کی توانائی کو استعمال کر کے اتنا آگے نکل چکا ہے کہ اٹھارہ برس قبل وہاں محض سات ہزار گھرانے شمسی توانائی سے بجلی حاصل کر رہے تھے لیکن اب ان کی تعداد پچیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور اگلے دو برس میں ان کا ہدف ایک کروڑ ہے۔ آپ بھارت ہی کو دیکھ لیں۔ بھارت میں شمسی توانائی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور بھارت بھر میں بجلی کی پیداوار کا ساڑھے تین فیصد سے زائد سورج سے حاصل ہو رہا ہے‘ یعنی بھارت میں چالیس ہزار میگا واٹ بجلی یا پچاس ارب یونٹس شمسی بجلی سے حاصل کیے جاتے ہیں۔بھارت ہوا سے بھی دو گیگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ اب آپ پاکستان کی حالت دیکھ لیجئے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک آئیڈیل ملک ہے‘ یہاں دھوپ بھی وافر ہے‘ ہوا بھی‘ پانی بھی ‘ کوئلہ اور دیگر معدنیات بھی لیکن اگر کسی چیز کی کمی ہے تو منصوبہ بندی کی۔ یہاں وِل پاور اور وژن نہیں ہے۔ ہمارا زیادہ انحصار تیل پر ہے‘ یہاں تیل سے سڑسٹھ فیصد ‘پانی سے اکتیس فیصد اور جوہری توانائی سے محض دو فیصد بجلی بنتی ہے۔بجلی کے حصول کا پہلا ذریعہ پانی ہے اور پاکستان میں پانی سے بجلی بنانے کی صلاحیت ساٹھ ہزار میگاواٹ تک ہے جبکہ ہم صرف ساڑھے سات ہزار میگاواٹ بجلی بنا رہے ہیں۔ دوسرا ذریعہ شمسی توانائی ہے‘ ہمارے ملک میں اوسطاً ساڑھے نو گھنٹے کے حساب سے سورج کی روشنی میسر ہوتی ہے‘ اس لحاظ سے پاکستان میں دیگر ذرائع کے مقابلے میں سورج سے چالیس گنا زیادہ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ تیسرا بڑا ذریعہ ونڈ انرجی یا پَوَن چکی ہے۔ پاکستان ہوا کے ذریعے ساڑھے تین لاکھ میگاواٹ تک بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ چوتھا ذریعہ بائیو گیس ہے‘ گائے کے گوبر‘ گنے کے ویسٹ‘ کوڑا کرکٹ اور سوکھی روٹیوں سے بھی ہزاروںمیگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی شناخت میگا ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے ہے۔ لوڈشیڈنگ مکمل طور پر ختم بھی مسلم لیگ کے پچھلے دورِ حکومت میں ہوئی تھی۔ چنانچہ آج اگر یہ حکمران فیصلہ کر لیں کہ ملک سے اندھیرے مکمل طور پر ختم کریں گے‘ یہ طویل منصوبہ بندی کے تحت درست سمت کی طرف قدم اٹھا لیں تو ہم بجلی کے بحران سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آزاد ہو جائیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved