ہر کوئی رو رہا ہے کہ پولیس تباہ ہو کر رہ گئی ہے اور اب اس میں کوئی صلاحیت ہی نہیں بچی کہ یہ کوئی ڈھنگ کا کام کر سکے۔ ہمارے گرو عامر متین کے گھر پر محفل جمی ہوئی تھی اور اسلام آباد کے جغادری صحافی اکٹھے تھے اور موضوع یہی اسلام آباد کا واقعہ تھا۔ میں نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر چودھری نثار علی خان کے اس فیصلے کی تائید کی تھی کہ چاہے ایک دہشت گرد ہی کیوں نہ ہو، اسے اس کے بچوں کے سامنے گولی نہیں مارنی چاہیے تھی۔ حالانکہ جب فائرنگ ہوئی میں خود موجود تھا اور دوسروں کی طرح میں بھی اس کا شکار ہوسکتا تھا۔ تنقید جب زیادہ بڑھی تو میں نے کہا ’’مجھے سمجھائیں جو باتیں ہم اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کی نالائقی کی کر رہے ہیں‘ اس کا ذمہ دار کس کو ہونا چاہیے؟‘‘ جواب ملا موجودہ حکومت کو۔ میں بولا: کیا دو ماہ پہلے ہمارے پاس دنیا کی کوئی بہترین پولیس فورس موجود تھی جو دو ماہ میں نئی حکومت کے آتے ہی ختم ہو گئی ہے ؟ رحمن ملک ہمارے لیے یہ فورس چھوڑ کر گئے تھے۔ پانچ سالوں میں انہوں نے کیا کیا کہ آج پیپلز پارٹی والے خوش ہیں کہ ان کے ایک لیڈر نے بہادری ( یا حماقت) کا مظاہرہ کیا اور ڈرامہ ختم ہوا۔ زمرد خان شکر کریں اسلام آباد پولیس نے وزیرداخلہ نثار علی خان کی سخت ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھی انہیں بچانے کے لیے فائرنگ شروع کی جس سے حملہ آور گھبرا گیا اور اسے گولیاں ماری گئیں وگرنہ بہت بڑا حادثہ ہونے لگا تھا۔ شیر شاہ سوری کو ہمایوں کو شکست دینے کے بعد پورے ہندوستان پر حکومت کرنے کے لیے صرف پانچ سال ملے تھے اور اس نے وہ اصلاحات متعارف کرائیں کہ مغلوں کو بھی انہیں فالو کرنا پڑا ؛انگریز بھی ان اصلاحات کو لے کر چلتے رہے۔ بھٹو کو بھی تقریباً پانچ سال ملے تھے اور بہت کام ہوئے تھے۔ رحمن ملک نے ہمیں پانچ سال میں کیا دیا ؟ روزانہ وزارتِ داخلہ میں نیا سکینڈل، نیا مال پانی اور نئی کہانیاں کہ کیسے لوٹ مار کرنی ہے ؟ یا پھر نئی پیشین گوئیاں کہ آج کس جگہ طالبان حملہ کریں گے اور اگلے دن کیمروں کے سامنے قہقہے کہ دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ حملہ ہوگا اور وہ ہو کر رہا۔ چین سے اسلام آباد سیف سٹی منصوبے کے لیے سکیورٹی کے آلات منگوانے تھے تو اس کا بل 145 ملین ڈالر کا بنوایا ۔ انکوائری ہوئی تو پتہ چلا بیس ملین ڈالر کا کمشن کھایا جارہا تھا ۔ گرے ٹریفک سکینڈل اپنی جگہ تھا کہ کیسے روزانہ چونچ گیلی ہورہی تھی اور اس کے لیے ایف آئی اے استعمال ہوتی تھی۔ جعلی اسلحہ لائسنس سکینڈل میں کئی نام سامنے آئے۔ کہاں کہاں مال نہیں کھایا گیا؟ رحمن ملک کے دور میں لاکھوں اسلحہ لائسنس بانٹے گئے۔ ہر گھر میں اسلحہ پہنچا دیا گیا ۔ ایم این ایز نے لائسنس کوٹے بیچے۔ سکیورٹی، تربیت اور ماڈرن آلات کب ترجیح تھے کہ پولیس کو جدید فورس بنایا جاتا ۔ اپنی حفاظت کے لیے پولیس کو اپنے گرد بھرتی کر لیا اور عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ۔ رحمن ملک نے اسلام آباد میں سکیورٹی کے نام پر ہر سپاہی کو ناکے پر ایک ٹارچ تھما دی کہ دہشت گردوں کو تلاش کرو۔ پولیس میں سب سے زیادہ بھرتیاں سفارش پر ہوئی ہیں ۔ ہر دوسرا سپاہی پیسے دے کر یا سفارش سے بھرتی ہوا ہے۔ اس کی باڈی لینگوئج دیکھ لیں تو پتہ چل جائے گا کہ اس کو نوکری نہیں مل رہی تھی‘ کسی نے کہا کہ سپاہی بن جائو اور وہ بن گیا ۔ کیا یہ کام صرف اسلام آباد میں ہوا ہے؟ سندھ کے سابق وزیرداخلہ ذوالفقار مرزا کا بیان پڑھ لیں کہ کتنوں کو انہوں نے کراچی میں سفارش پر بھرتی کیا۔ پنجاب کی بات ہے تو سابق چیف سیکرٹری جیون خان کی کتاب ’’جیون دھارا‘‘ پڑھ لیں کہ کیسے 1985ء میں پنجاب میں اے ایس آئی اور تحصیلدار کی نوکریوں کو ایم پی اے کی سیاسی وفاداریاں خریدنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ہر ایم پی اے نے تین لاکھ روپے دے کر وہ نوکریاں بیچیں ۔ اب ہم کیوں روتے ہیں کہ پولیس تباہ ہوگئی ۔ پولیس کے ایس ایچ او سیاستدانوں کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ وہ اٹھ کر پہلے ایم پی اے کے گھر سلام کرنے جاتے ہیں‘ پھر اپنے دن کا آغاز کرتے ہیں ۔ تھانوں کو چھتر مارنے اور اپنے سیاسی ماسٹرز کے مخالفوں کے خلاف پرچوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ بینظیر بھٹو دور میں کراچی شہر میں ہونے والے آپریشن میں جن پولیس افسروں نے اپنی جانوں پر کھیل کر کام کیا تھا ان کو جنرل مشرف کے دور میں ٹارگٹ کر کے مارا گیا۔ پھر کیوں کوئی سپاہی آپ کے لیے گن لے کر کھڑا ہوگا؟ جب ریاست سیاسی مصلحت کے نام پر دہشت گردوں کو پیرول پر رہا کرے گی تو پھر یہی تباہی ہوگی جو ہورہی ہے ۔ جب سپاہی دیکھے گا کہ سب کرپشن میں نہا رہے ہیں تو وہ کیوں لڑے گا ۔ وہ تین لاکھ روپے دے کر اس لیے بھرتی ہوا ہے کہ مارا جائے؟ دنیا بھر میں لوگ پولیس میں اس لیے جاتے ہیں کہ ان کے اندر مجرموں کے خلاف لڑنے کا کہیں نہ کہیں کوئی جذبہ ہوتا ہے۔ ایک سپاہی کی وردی اسے احساس دلاتی ہے کہ وہ کسی اہم کام کے لیے پیدا ہوا ہے۔ پاکستان میں اسے پتہ ہے کہ وہ چھتر مارنے اور پیسے کھانے کے لیے پولیس میں بھرتی ہوا ہے۔ کتنے پولیس والوں میں یہ احساس پیدا کیا گیا ہے کہ ان کا کام کتنا بڑا ہے اور اتنا اہم کام ہے کہ انہیں اپنے سینے پر گولی کھا کر بھی اپنے عہد اور عہدے کی لاج رکھنی ہے۔ وہ اس معاشرے کے لیے کیوں جان دے جو بری طرح کرپٹ ہوچکا ہے۔ عامر متین کے گھر بیٹھ کر جو باتیں پیپلز پارٹی کے چند رہے سہے وزراء کے بارے میں اہم اور قابل اعتماد لوگوں سے پتہ چلیں، وہ سن کر ہم شرمندہ ہو کر بیٹھ گئے کہ جن سیاستدانوں کو ابھی تک ہم ایماندار سمجھتے تھے وہ کرپشن کی دلدل میں دھنس چکے تھے اور اپنے گھروں کے کچن بھی سیکرٹ فنڈ سے چلا رہے تھے۔ ایک خاتون وزیر تو سرکاری گھر سے جاتے ہوئے پردے، ٹی وی، فریج اور ٹشوز تک اٹھا کر لے گئیں۔ پھر بھی ہم توقع رکھیں کہ سپاہی ان لیڈروں کی عزت کرے گا؟ میرے جو دوست کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں ہونے والے واقعے کے چند منٹ کے اندر اندر پولیس کو گولیاں مار دینی چاہئیں تھی، وہ یہ بات مت بھولیں کہ میڈیا ہی نے لال مسجد میں یہ آپریشن کرایا تھا اور اگلی شام‘ شامِ غریباں بھی وہی پڑھ رہے تھے اور رو رہے تھے کہ ہائے ہائے بچے مار دیے۔ ریاست کو ہمیشہ اس طرح کی صورت حال میں احتیاط کرنی چاہیے جو وزارت داخلہ کی طرف سے کی گئی۔ جو ابھی تک قائل نہیں ہیں‘ مجھے انہیں بتانے دیں کہ جنرل مشرف کی بغاوت کے فوراً بعد بھارت کا ایک مسافر طیارہ نیپال سے اغواء ہوا ، لاہور میں اس نے ری فیول کرایا اور قندھار لینڈ کر گیا ۔ اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے کئی دن تک بھارت طالبان سے مذاکرات کرتا رہا۔ آخر بھارتی وزیرخارجہ جسونت سنگھ نے اپنے ملک کی جیلوں سے تین پاکستانیوں کو نکالا جو وہاں دہشت گردی کے الزامات میں بند تھے، ایک بریف کیس میں پچیس کروڑ روپے ڈالے اور قندھار گئے۔ وہ پیسے ہائی جیکرز کو ادا کیے گئے، تین بندے حوالے کیے اور اپنے شہریوں کو بخیریت واپس لے گئے۔ عجیب ہائی جیکنگ تھی کہ ہائی جیکرز سائیکل پر سوار ہو کر فرار ہوگئے اور آج تک گرفتار نہیں ہوئے۔ بھارت میں کسی نے جسونت سنگھ اور ان کی بی جے پی حکومت کو طعنہ نہیں دیا کہ انہوں نے اتنے دن کیوں انتظار کیا اور کیوں طالبان اور ہائی جیکرز کے آگے جھک گئے تھے۔ ریاست سے لوگ اس وقت پیار کریں گے اور اس پر جان دیں گے جب انہیں احساس ہوگا کہ ریاست بھی ان کی جان بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے! انسانی جان بچانا اور وہ بھی جب بچوں کی زندگی کا معاملہ ہو بہت ضروری ہوجاتا ہے۔ جس ملک میں پچاس ہزار بندے مارے جائیں، وہاں دو بچوں اور ان کے پاگل ماں باپ کو گولیاں مارنا کون سا بڑا کام تھاجو اسلام آباد پولیس نہیں کر سکتی تھی ۔ پہلے ہی بڑا خون بہہ چکا، کچھ لہو بچانے بھی دیں۔ اس صورت حال میں جان لینا نہیں، بچوں کی جانیں بچانا ہی بڑا کام تھا ، چاہے پانچ دن ہی انتظار کیوں نہ کرنا پڑتا!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved