ہماری کئی انوکھی سیاسی روایات میں سے ایک نہایت ہی قابلِ افسوس روایت سیاسی حریفوں پر سرِبازار‘ عوامی جلسوں اور یہاں تک کہ پارلیمان کے ایوانوں میں کھڑے ہوکر غداری کا الزام عائد کرنا ہے۔ خیر‘ یہ کوئی نئی بات نہیں! یہ روش پرانی بھی ہے اور گہری بھی‘ جو آزادی کے ابتدائی برسوں سے ہی چلی آرہی ہے۔ یہاں کفر کے فتوے تک جاری کر دیے جاتے ہیں۔ ہمارے اکابرین‘ سیاست میں غداری کا کیچڑ ایک دوسرے پر اچھالتے رہے ہیں اور اس پر کبھی کسی کو عار بھی محسوس نہیں ہوئی۔ وہ مسلمان اکابرین‘ جو انڈیا میں رہ گئے اور جو مغربی و مشرقی پاکستان میں سیاسی تنظیموں اور نظریاتی تحریکوں سے وابستہ تھے‘ اور مسلم لیگ کے نظریات سے اُنہیں اتفاق نہ تھا‘ وہ بھی ایسے الزامات کی زد میں آتے رہے۔ حالیہ دنوں کسی نے شیخ مجیب الرحمن کی تقریر کا ایک ٹکڑا آڈیو کی صورت میں مجھے بھیجا۔ اسے متعدد بار سنا۔ غالباً فروری1971ء کی کوئی تاریخ معلوم ہوتی تھی۔ وہ ڈھاکہ میں ایک بہت بڑے جلسے سے خطاب کررہے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ میں نے یحییٰ خان سے تبادلہ خیال کیا ہے‘ اُنہیں کہا ہے کہ پندرہ مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں۔ میں مغربی پاکستان کے بھائیوں سے کہتا ہوں کہ ملک تباہ ہونے سے بچائیں۔ مارشل لا فوراً ختم کردیں۔ ہم نے اس ملک کو بنانے کے لیے خون دیا ہے‘ اوراسے بچانے کے لیے بھی خون دیں گے‘ ان شاء اللہ۔ ہم پاکستانی ہیں۔ جئے بنگلہ‘ جئے پاکستان!
میں سوچتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کے المیے کے کرداروں کو سامنے لاکھڑا کرکے تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے اورکھلے ذہن سے پرکھا جائے کہ جنہوں نے حب الوطنی کے لبادے پہنے ہوئے تھے‘ اُنہوں نے ہی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حالات پیدا کیے تھے؟ یہاں دو باتیں کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اقتدار اکثریتی جماعت کو منتقل کرنا آئینی اور اخلاقی ذمہ داری تھی۔ اب دہرانے یا یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ اقتدار کن ہاتھوں میں تھا اور اس کے فیصلے کے ذمہ دار کون تھے‘ اور مغربی پاکستان سے کون اقتدار کی منتقلی کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسمبلی کا اجلاس آخر کیوں ملتوی کیا گیا؟ یہ بھی گنجائش موجود تھی کہ اگلی تاریخ کا اعلان کردیا جاتا۔ جو کچھ بعد میں ہوا‘ اس کے دھبے‘ بقول فیض: ''دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‘‘۔ اس زمانے کے سیاسی رہنمائوں کے بیانات اس وقت کے اخباروں میں دیکھ لیں۔ شیخ مجیب الرحمن کو غدار قرار دیا جاتا رہا۔ میں تو مشرقی پاکستان کے المیے کے زمرے میں دو تین کرداروں کو بھی بغاوت کا الزام نہیں دیتا‘ لیکن بات واضح کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ اگر کچھ ذمہ دار لوگ حالات بگاڑ لیں تو پھر کچھ بھی ان کے قابو میں نہیں رہتا۔
میرے نزدیک تاریخ قطعاً خود کو نہیں دہراتی‘ مماثلت ہوسکتی ہے‘ ملتے جلتے حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن تاریخ کا پہیہ پاکستانی ریل گاڑیوں کی طرح ہچکولے کھاتا‘ سواریوں کو دائیں بائیں دھکے دیتا‘ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ ہماری سیاست بھی ریل گاڑی کی طرح گاہے پٹری سے اتر جاتی ہے‘ یا ڈرائیور‘ گارڈ اور دور بیٹھے ہوئے ٹریفک کنٹرولر اس گاڑی کو ارادتاً پٹری سے اتار کر حادثے کا شکار کردیتے ہیں۔
گزشتہ چند ماہ میں جو کچھ ہوا ہے‘ اسی نوعیت کا سیاسی حادثہ ہے؛ تاہم اس بار کوشش یہ کی گئی کہ گاڑی چلتی رہے‘ بس اس کی سمت موڑ دی جائے۔ اس کے لیے ضرورت سے کہیں زیادہ تابع فرمان ڈرائیور کو سیٹ پر بٹھا دیا جائے۔ خیر یہ بھی کسی حادثے سے کم نہیں۔ اگر کسی کو معلوم نہیں کہ گاڑی کس سمت جارہی ہے اور نہ جانے کب‘ کسی خطرناک حادثے کا شکار ہوجائے۔ عوامی لیگ اکثریتی جماعت تھی۔ یہ کہیں نہیں لکھا ہواتھا کہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے دیگر صوبوں سے بھی نمائندگی ہو۔ اقلیتی جماعتوں‘ خاص طور پر مغربی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت نے شیخ مجیب الرحمن پر غداری کا الزام لگایا۔ اکثر اشاروں کنایوں میں‘ اور کبھی کبھار کھلے عام۔ جب عوام کے سمندر کو دبایا جا رہا تھا تو معلوم ہے ایک بڑے لیڈر نے کیا کہا تھا؟ ''شکر ہے پاکستان بچ گیا!‘‘۔
آج کے حالات دیکھ لیں۔ ذرا کھلے دل سے جائزہ لیں۔ چھوڑیں سیاسی جماعتوں کے غلام گماشتوں اور ہرکاروں کو۔ پاکستانی بن کر سوچیں کہ کیسے عددی لحاظ سے سب سے بڑی جماعت کو اقتدار سے محروم کردیا گیا۔ اس کی اپنی اکثریت وفاق میں نہیں لیکن پنجاب میں تو تھی۔ کس طرح منحرفین تیارہوئے؟ تحریک انصاف کو سب صوبوں سے نمائندگی ملی تھی۔ دوسری دو بڑی جماعتوں کو دیکھ لیں۔ دونوں صوبائی جماعتیں ہیں‘ وہ چاہے جو بھی دعویٰ کرتی رہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا قومی اسمبلی کے حلقوں میں سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے شاید ہی کوئی نمائندہ منتخب ہوا ہو۔ شاید اکا دکا‘ اور یہی حال دوسری جماعتوں کا بھی ہے۔
اگرچہ میں تحریک انصاف کے اس فیصلے کی تائید نہیں کرتا کہ اُنہوں نے باجماعت قومی اسمبلی سے استعفے دے دیے۔ شاید اس کا مقصد یہ تھا کہ پارلیمان لولی لنگڑی ہو جائے اور تازہ انتخابات کا اعلان کرنا پڑے‘ لیکن فی الوقت حقیقت تو یہی ہے کہ قومی اسمبلی کے نصف اراکین سے کام چلایا جارہا ہے۔ کسی بھی‘ پارلیمانی یا صدارتی‘ جمہوریت میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگر ایوان آدھے اراکین سے محروم ہوجائے تو اس میں موجود رہنے والوں کے آئینی جواز پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس ادھورے ایوان میں سے کچھ سیاست دان ملک کی اکثریتی جماعت کے رہنما پر غداری کے نہ صرف الزامات لگارہے ہیں بلکہ یہ بیان بھی داغتے رہتے ہیں کہ ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے‘ کیوں کہ اُنہوں نے عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ کچھ سوچیں‘ کیسے بھیانک کھیل کا نقشہ سامنے آرہا ہے۔
عمران خان نہ تو مجیب الرحمن ہیں اور نہ ہی ہم پچاس سال پرانے زمانے میں رہ رہے ہیں‘ مگر دو سچائیاں ایسی ہیں جن سے انکار مشکل ہے۔ اول یہ کہ اس وقت عمران خان عوام کے مقبول ترین رہنما دکھائی دیتے ہیں۔ پھر سے یاد دلاتا چلوں کہ ان کی جماعت ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے اور ہر صوبے میں ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ دوسرا‘ وہ لاکھوں افراد کو جہاں چاہیں‘ جمع کرسکتے ہیں۔ نوجوان‘ متحرک اور پُرجوش متوسط شہری طبقہ ان کا حامی ہے۔ اور ان کی مقبولیت کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تیسری سچائی اس سے بھی تلخ ہے۔ اس وقت لوگ چالیس سال سے ملک پرحکومت کرنے والوں کو اقتدار میں ہرگز نہیں دیکھنا چاہتے۔ جونہی یہ درآمدی مال مسلط ہوا‘ لوگ عمران خان کی ناقص کارکردگی کو بھلا کر اس کی صفوں میں شامل ہو گئے۔ نئے حکمرانوں نے آتے ہی کون سے کارنامے سرانجام دینا تھے یا دے سکتے تھے؟ وہ خود چار سال سے ایوان کو دھاندلی زدہ قرار دیتے رہے‘ مگر جب نیا بندوبست تیار ہو گیا تو اب اُن کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کریں گے۔ ملک اور ریاستیں ایسے نہیں چلتیں۔ جب ایسے گمبھیر حالات پیدا ہوتے ہیں تو عوام کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے‘ لیکن عمران خان کی مقبولیت میں اب اتنا اضافہ ہو چکا ہے کہ اگر نئے انتخابات ہوئے‘ اور شفاف ہوئے تو موروثی گدی نشینوں کا کہیں نام و نشان تک نہیں ملے گا۔ اگر آپ کو عومی حمایت حاصل ہے‘ پھر آجائیے انتخابی میدان میں۔ یہ ہیرا پھیری کیسی؟یہاں کپتان سے بھی گزارش ہے کہ وہ سیاسی گدی نشینوں کو غدار‘ میر جعفر‘ میرصادق نہ کہیں۔ یہ وہی ہیں جن کا ماضی اور حال عوام کے سامنے ہے۔ کون غدار ہے‘ کون نہیں‘ اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں یا عدالت پر‘ کیوں کہ اسی کا فیصلہ معتبر ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved