سابق سوویت یونین کے لیڈر نکیتا خروشیف جن خوبیوں کی وجہ سے مشہور ہوئے‘ ان میں ان کی حسِ مزاح بھی تھی جسے وہ سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے درمیان سرد جنگ کے دور میں سوویت یونین کے سیاسی نظام کو سرمایہ دارانہ جمہوریت کے مقابلے میں بہتر ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کمیونزم کے دور میں روس میں سنگل پارٹی یعنی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت تھی۔ پارلیمنٹ کے اراکین کا انتخاب ہوتا تھا‘ مگر ان انتخابات میں صرف کمیونسٹ پارٹی کے نامزد امیدوار حصہ لے سکتے تھے۔ اس کے مقابلے میں مغربی (سرمایہ دارانہ) جمہوریت میں ایک سے زیادہ سیاسی پارٹیاں اور امیدوار آئین اور قانون کے تحت چند شرائط کو پورا کرنے کے بعد آزادانہ طور پر الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔ خروشیف کمیونزم کے نظریے کے مطابق اس جمہوریت کو دراصل امیر لوگوں کی آمریت قرار دیتا تھا‘ کیونکہ اس میں سیاست دان لوگوں کو جھوٹے اور بے بنیاد دعووں کے ذریعے گمراہ کرکے ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ کمیونزم سے پہلے روس میں ہونے والے ایک ایسے ہی الیکشن کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ایک امیدوار سیاست دان نے بھرے جلسے میں لوگوں سے وعدہ کیا کہ اگر تم مجھے ووٹ دے کر کامیاب کرائو گے تو میں پانی کی نہر تعمیر کرا دوں گا۔ اس پر حاضرین میں سے ایک شخص اٹھا اور کہا: ہمارے صوبے میں تو دریا ہی نہیں ہے‘ آپ نہر کہاں سے لائیں گے؟ ووٹر کو سبز باغ دکھا کر ووٹ حاصل کرنے کی روایت کمیونزم سے پہلے صرف روس میں ہی نہیں تھی۔ آج کل بھی جہاں جہاں مغربی (سرمایہ دارانہ) جمہوریت رائج ہے‘ لوگوں سے جھوٹے وعدے کر کے ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں۔ ایسے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے مگر فرق صرف یہ ہے کہ جس زمانے کی طرف خروشیف نے اشارہ کیا تھا‘ اس میں حاضرین میں سے کم از کم ایک شخص تو اتنا باشعور اور جرأت مند تھا‘ جس نے بھرے جلسے میں کھڑے ہو کر سیاسی لیڈر کے جھوٹ کا پردہ چاک کیا اور سب کے سامنے اس کی جہالت کو آشکار کر دیا۔
پچھلے دنوں پاکستان کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ نے ایک بہت بڑے جلسے میں دعویٰ کیا کہ ملک کی تاریخ میں ان کی حکومت واحد حکومت تھی‘ جسے ایک ''غیر ملکی سازش‘‘ کے ذریعے ختم کیا گیا‘ باقی تمام وزرائے اعظم کو کرپشن کے الزام میں برطرف کیا گیا۔ بعد میں کسی کے یاد دلانے پر انہوں نے اپنے بیان میں یہ تبدیلی کی کہ ان کا مطلب 1988ء کے بعد کے وزرائے اعظم تھا‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ 1988ء کے بعد ہونے والی حکومتی تبدیلیوں کا جائزہ لیا جائے تب بھی یہ دعویٰ بے جا ہے‘ اور اگر قیامِ پاکستان کے بعد کسی وزیراعظم کی اقتدار سے علیحدگی کے معاملات کا جائزہ لیا جائے تو یہ دعویٰ لاعلمی پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل کیا گیا۔ ہم ہر سال 16اکتوبر کو ان کی برسی مناتے ہیں۔ ان کے جانشین اور ملک کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کے بارے میں مشہور ہے کہ وزیراعظم کی حیثیت سے انہیں جو تنخواہ ملتی تھی‘ اس میں گزارہ نہ ہو نے کی وجہ سے وہ اپنے بھائی اور مسلم لیگ کے صدر خواجہ خیرالدین سے پیسے منگواتے تھے۔ ان کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ وہ پاکستان کے کمزور ترین وزیراعظم تھے‘ اور حکومتی معاملات پر ان کی گرفت کمزور تھی۔ دراصل وہ ایک انتہائی شریف اور دیانت دار انسان تھے‘ مگر ریاستِ پاکستان کے بنیادی مفادات اور قائدِاعظم کے نظریات کے ساتھ ان کا کس قدر گہرا لگائو تھا‘ اس کی مثال ان کے اس آہنی عزم سے دی جا سکتی ہے‘ جس کے تحت انہوں نے اس وقت کی ایک بڑی تحریک کے ہاتھوں بلیک میل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔
ان کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے کیسے الگ کیا گیا‘ یہ بھی سن لیجئے۔ ایک دن گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو پیغام بھیجا کہ خواجہ صاحب ملاقات کو کافی دن ہو گئے ہیں‘ آئیں ہمارے ساتھ چائے کا ایک کپ پئیں‘ گپ شپ بھی ہو جائے گی۔ خواجہ صاحب تیار ہو کر خوشی خوشی گورنر ہائوس پہنچے‘ لیکن ابھی انہوں نے چائے کا آدھا کپ ہی پیا تھا کہ گورنر جنرل نے کہا: خواجہ صاحب آپ کو وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ان دنوں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء پاکستان کا عبوری آئین تھا‘ جس کے تحت گورنر جنرل کو نہ صرف وزیراعظم کی تقرری بلکہ انہیں عہدے سے برطرف کرنے کے بھی مکمل اختیارات حاصل تھے۔ بعد میں ایک سرکاری بیان کے ذریعے خواجہ صاحب کی وزارتِ عظمیٰ پر مشرقی پاکستان کی بھارت کے ساتھ لگنے والی سرحد پر سمگلنگ روکنے اور ملک میں غذائی بحران پر قابو پانے میں ناکامی کا الزام لگا کر برطرفی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کی برطرفی کی اصل وجہ مشہور قانون دان اور تحریک انصاف کے سابق رہنما حامد خان کی کتاب: Constitutional and Political History of Pakistan میں دیکھی جا سکتی ہے۔
پاکستان کے تیسرے وزیراعظم محمد علی بوگرہ کو اس لیے مستعفی ہونا پڑا کہ آئین کے لیے تیار مسودے میں سے انہوں نے گورنر جنرل کے خصوصی اختیارات‘ جن کے تحت وہ اپنی صوابدید پر وزیراعظم اور کابینہ کے اراکین کا تقرر کر سکتے تھے‘ یا ان کو عہدوں سے برطرف کر سکتے تھے‘ نکالنے کی جسارت کی تھی۔ پاکستان کے چوتھے وزیراعظم مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے حسین شہید سہروردی تھے۔ ان کی وزارت کا دورانیہ بہت مختصر تھا۔ ان کی برطرفی کی وجہ صدر اسکندر مرزا تھے‘ کیونکہ وہ سہروردی کی طرف سے رات گئے تک چلنے والی ڈنر پارٹیوں سے بہت تنگ تھے۔سہروردی ایک نہایت قابل وکیل اور زیرک سیاستدان تھے‘ اور مغربی پاکستان سے بیوروکریٹس اور جاگیرداروں پر مشتمل اشرافیہ ان سے خائف تھی۔ ایوب خان نے جب اکتوبر 1958ء میں آئین منسوخ کرکے مارشل لا لگایا تو سہروردی کو وزارتِ عظمیٰ سے الگ ہوئے ایک سال گزر چکا تھا۔ پھر بھی وہ سہروردی سے اتنا خائف تھے کہ ان کو نااہل قرار دینے کے لیے EBDOکے تحت مقدمہ چلایا۔ نااہل قرار دینے کے بعد بھی جب ایوب خان نے انہیں ہراساں کرنے کا عمل جاری رکھا تو وہ ملک چھوڑ کر بیروت میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے‘ جہاں انہوں نے ستمبر 1963ء میں وفات پائی۔ سہروردی کے اہلِ خانہ اور عوامی لیگ کے اراکین آج تک ایوب خان کو سہروردی کی موت کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ سہروردی کے بعد ایوب خان کے مسندِ صدارت پر براجمان ہونے تک پاکستان کے تمام وزرائے اعظم کو اقتدار میں لانے اور اقتدار سے باہر نکالنے کے پیچھے صدر اسکندر مرزا کی ہوسِ اقتدار اور ریشہ دوانیاں کارفرما رہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی کرپشن کے الزامات پر نہیں نکالا گیا۔
محمد خان جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کو آئین کے آرٹیکل 58(2B) کے تحت برطرف کرنے کا ضیاالحق کے پاس کوئی جواز نہیں تھا‘ سوائے اس کے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے اس سیاستدان نے ضیاالحق کی منشا کے برعکس جنیوا معاہدے پر دستخط کرکے افغانستان کی جنگ ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پی پی پی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے مصالحت کیلئے قدم بڑھایا تھا۔ اوجڑی کیمپ حادثے کی تحقیقات کا اعلان کرنے کی جرأت کی تھی اور کئی عسکری عہدوں پر فائز شخصیات کو بڑی بڑی گاڑیوں کے بجائے آٹھ سو اور ہزار سی سی گاڑیوں میں بیٹھنے پرآمادہ کیا تھا۔
اس سب کے باوجود ہمارے ایک بڑے لیڈر اپنے سوا باقی تمام وزرائے اعظم کو کرپشن کی بنا پر گھر جانے کا طعنہ دیتے ہیں‘ لیکن سب سے زیادہ حیرت اپنے کالم نویس ساتھیوں‘ ٹی وی اینکروں اور مبصرین پر ہے‘ جنہیں اتنا جھوٹ بے نقاب کرنے کی اب تک جرأت نہیں ہوئی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved